مضامین

اے کشمیر سہتا جا

پھر یوں ہوا کہ صبر کی انگلی پکڑ کے ہم
اتنا چلے کہ راستے حیران رہ گئے
یہاں غنچے چٹخ بھی جائیں کلیاں نہیں کھلتی، یہاں خوشبو نہیں آتی، کوئی تتلی بھی نہیں آتی، کوئی جگنو بھی نہیں آتا۔ یہاں پیاس لگتی ہے تو آنسوں پیئے جاتے ہیں یا کچھ اگر مہربانی بھی ہو جائے تو ’’آنسوں گیس‘‘ پیئے جاتے ہیں، یہاں رحمت کے بادل کہاں برستے ہیں، یہاں چاروں طرف پتھر برستے ہیں۔ اس بارش میں تو سارا کشمیر نہاتا ہے، ہمارا کشمیر جہنم سے بھی بدتر ہے، مگر پھر بھی جنتِ کشمیر کہتے ہیں۔ کشمیر تم کو اب ہم کیا کہیں، کون سے دلاسے دیں۔ کیا یہ معصوم خون جو اتنی بے دردی سے بہہ رہا ہے، کبھی رنگ بھی لائے گا، ہاں ان شاء اللہ!

حوصلہ پست مت کرنا، اتنا تو حوصلہ رکھ اور اُمید بھی کر کہ تو جنت ہے، تیری یہ جہنم کی راتیں گزر جائیں گی، ایک صبح ایسی آئے گی تو پھر سے جنت بن جائے گی۔ کشمیر اب تو بہت معصوم خون سے نہایا ہوا ہے، اب تو معصوم بے گناہوں پر کچھ تو ترس کھا، اب تو بے دردی، دہشت گردی، ظلم کی انتہا ہوگئی۔ اب تو کوئی ترس کھائے، ان اشک بار آنکھوں کو اب تر تو آنے دو۔ اب تو ہمارے معصوم بچوں کو پتھروں، گولیوں، پیلٹ کے بجائے کھلونوں سے کھیلنے تو دو۔ اب تو نئی صبح کا آغاز تو کرنے دو۔
ایک گماں کا حال ہے اور فقط گماں میں ہے
کس نے عذاب جاں سہا کون عذاب جاں میں ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button