دنیا

شام میں جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹیں؛ صہیونی حکومت کا ہدف عرب دنیا کی تقسیم ہے

شیعہ نیوز: عبد الباری العطوان نے کہا ہے کہ اسرائیل عرب ممالک کو ٹکروں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے اسی لیے شام میں جنگ بندی کے خلاف ہے۔

رپورٹ کے مطابق معروف عرب تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے اپنے ایک مضمون میں شام میں جنگ بندی کی ناکامی کی متعدد وجوہات بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ صہیونی حکومت عرب دنیا کی مکمل تقسیم کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور وہ کسی بھی عرب ملک کو مستحکم باقی دیکھنا نہیں چاہتی۔

عطوان لکھتے ہیں کہ شام کے حالیہ بحران کا جنگ بندی ایک مؤثر حل ہے تاکہ خونریزی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکا جاسکے، لیکن اگرچہ کئی فریقوں بالخصوص قبائلی نے جنگ بندی کی حمایت کا اعلان کیا ہے، اس کے باوجود موجودہ حالات میں اس کے کامیاب ہونے کے امکانات نہایت کم ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ جنگ بندی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ ممالک ہیں جو بظاہر اس پر زور دیتے ہیں، لیکن درحقیقت اس سے خائف ہیں۔ امریکہ، سعودی عرب، ترکی اور قطر کو اس مفاہمت کے نتائج سے تشویش ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خطے میں امریکہ کے زیر نگرانی ہونے والے تمام معاہدے، چاہے لبنان میں ہوں یا غزہ میں، صہیونی حکومت نے یا تو پامال کیے یا مکمل نظرانداز کر دیے۔

یہ بھی پڑھیں  :ایران اور سلامتی کونسل کے غیر مستقل اراکین کے درمیان اعلی سطحی مذاکرات

عطوان مزید لکھتے ہیں کہ اگرچہ اسرائیل نے جنگ بندی کی حمایت کا ظاہری اعلان کیا ہے، لیکن اس کا حقیقی مقصد اسے ناکام بنانا ہے، کیونکہ یہ اقدام شام کی تقسیم اور داخلی انتشار کے اس کے منصوبوں کے برخلاف ہے۔ اسی وجہ سے تل ابیب کا مرکزی آلہ کار اور دروز قبیلے کا رہنما شیخ حکمت الہجری نے نہ صرف جنگ بندی کی مخالفت کی بلکہ تل ابیب سے سویدا کی حمایت اور مقبوضہ علاقوں میں انضمام کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی اس نے اپنے حامیوں کو حکم دیا کہ عرب قبائل کے درجنوں قیدیوں کو شہر کے مرکز میں قتل کردیا جائے۔

تیسری اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل عرب ممالک کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر کھلم کھلا کہتا ہے کہ اس نے بشار الاسد کی حکومت کو کمزور کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور اب وہ جنوبی شام کے تمام علاقوں پر کنٹرول چاہتا ہے۔ خاص طور پر بدوی عرب قبائل کو ختم کرنا صہیونی حکومت کی اولین ترجیح بن چکی ہے۔

عطوان مزید لکھتے ہیں کہ شام کی موجودہ حکومت میں فرقہ وارانہ سوچ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ دوسری جانب دروزیوں اور بدوی قبائل کے مابین اختلافات اس قدر گہرے ہیں کہ انہیں ایک کمزور جنگ بندی ختم نہیں کرسکتی۔ اگرچہ زیادہ تر دروز قبائل شیخ یوسف جربوع کی قیادت میں حکومتی حمایت یافتہ ہیں اور جولانی حکومت کی فوجی و سیکیورٹی موجودگی کو قبول کرتے ہیں، لیکن ایک دوسرا دھڑا، جو کہ شیخ حکمت الہجری کی قیادت میں اسرائیل کی مکمل سرپرستی میں ہے، مالی امداد، اسلحہ اور تربیت براہ راست تل ابیب سے حاصل کر رہا ہے۔

عطوان آخر میں اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ نتن یاہو کسی صورت جنگ بندی کا پابند نہیں ہوگا اور شام کو تقسیم کرنے کے لیے مختلف بہانوں کے تحت اپنی سازشیں جاری رکھے گا، جیسا کہ اس نے لبنان میں کیا۔ یہی اسرائیلی حکومت ہے جس نے لبنان میں 4 ہزار سے زائد مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی، جنوبی لبنان کی پانچ اہم پہاڑیوں پر اب تک قبضہ جما رکھا ہے اور بعلبک، ہرمل و ضاحیہ کو مسلسل راکٹ حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔ ایسے حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل شام میں کسی جنگ بندی معاہدے پر واقعی عمل کرے؟

آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ صہیونی حکومت عرب ممالک کو توڑنے، انہیں کمزور کرنے اور انہیں ایسے مشرق وسطی کا حصہ بنانے کی کوشش میں ہے جس پر اسرائیل کی بالادستی قائم ہو۔ شام، جسے آج تقسیم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، اس تباہ کن سازش کا پہلا شکار ہے۔ امکان ہے کہ جلد ہی دیگر عرب مفاہمت پسند حکومتیں بھی اس سازش کا شکار ہوجائیں گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button