بدگمانی، غیبت سے بچنے والا اللہ کا بندہ کہلانے کا حقدار ہے، علامہ ریاض نجفی
شیعہ نیوز: وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کیلئے ابدیت، ازلیت اور سرمدیت ہے لیکن اس کے برعکس تمام مخلوقات کیلئے ایک خاص وقت اور مدت مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یہ سب نعمتیں انسان کو دی ہیں تاکہ ہم دیکھیں کہ تم میں سے کون بہترین اعمال کو بجا لاتا ہے۔ جو انسان اچھے کام کرے گا۔ دوسروں کے کام آئے گا۔ انسان کی عزت کرے گا۔ بدگمانی اور غیبت سے کام نہیں لے گا، حسن ظن سے پیش آئے گا۔ وہ اچھا انسان اور اللہ کا بندہ کہلانے کا حقدار ہے۔ انہوں نے کہا مسلمان سات آٹھ سو سال تک حاکم رہے تو ترقی کرتے رہے اور سب سے آگے رہے لیکن اس کے بعد جب وہ دوسروں کی غلامی میں تین سو سال تک رہے تو وہ سب کچھ بھول چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غلامی کی زنجیریں ابھی تک نہیں توڑ پائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم میرے بندے بن جاو، میں نے تمھیں آزاد پیدا کیا۔ لہٰذا غیر کا غلام نہ بنو۔ ہماری تو صورتحال یہ ہے کہ نہ تو ہم اپنی دینی زبان عربی کو جانتے ہیں اور نہ ہی اپنی قومی زبان اردو کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ سارے انگریزی سیکھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ قرآن کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ حالانکہ ہم سے قیامت والے دن پوچھا جائے گا کہ تم نے قرآن کو پڑھا، سمجھا اور اس پر عمل کیا تھا یا نہیں؟ قرآن کے چودہ مفسرین یعنی محمد وآل محمد علیہم السلام کی سیرت کو پڑھا اور اسے اپنایا تھا؟ اگر جواب مثبت ہوا تو کامیابی مل جائے گی ورنہ ہمارے اور دوسروں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا۔ حافظ ریاض نجفی نے سیلاب کی حالیہ تباہ کاریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس پانی کی روک تھام اور اسے ذخیرہ کرنے کیلئے 1960ء کی دہائی میں کچھ ڈیم بنے لیکن اس کے بعد ہم صرف سوچتے ہی رہ گئے، ڈیم نہ بنا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ایک انسان پندرہ سال کی عمر میں بالغ ہو جاتا ہے لیکن ہمارا ملک 75 سال کے گزرنے کے باوجود بالغ نہیں ہوا۔ قوم کی نمائندگی کرنیوالے سیاست دان بالغ نہیں ہوئے، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں اور کسی بھی حکومت کو کام کرنے نہیں دیتے۔ بس وہ اپوزیشن کے جوابات دینے میں مصروف رہتے ہیں اور مدت حکومت گزر جاتی ہے اور پاکستان ویسے کا ویسا رہ جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ ہم اپنے ملک پاکستان کیلئے مخلص نہیں ہیں، ہم نہیں جانتے کہ عوام کی کیا ضروریات ہیں اور ان کو کیسے پورا کیا جائے۔