امریکہ اور طالبان کا ایک سالہ معاہدہ اور افغانستان میں صلح کا طولانی سفر
شیعہ نیوز:دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کو ایک سال ہوگيا ہے ایسا معاہدہ جس نے وقت گزرنے کے ساتھ مشکلات کو نمایاں کیا اور اس سے معلوم ہوا کہ امریکہ کی موجودگی کی صورت میں افغانستان کو صلح تک پہنچنے کے لئے طویل راستہ طے کرنا ہوگا۔
امریکہ کی خارجہ پالیسی میں جوبائيڈن کے لئے یہ معاہدہ ٹرمپ کی میراث ہے۔ واشنگٹن اور طالبان کے درمیان گذشتہ سال ہونے والے معاہدے سے قطع نظر افغانستان اور امریکہ کا موضوع کافی پیچيدہ اور نشیب و فراز کا حامل ہے۔ امریکہ کی افغانستان میں فوجی موجودگی 20 سال پر محیط ہے اور امریکہ نے جب بھی افغانستان کے خودساختہ دلدل سے نکلنے کی کوشش کی ہے دوبارہ اس دلدل میں پھنس کر رہ گيا ہے۔
امریکہ کی سابقہ حکومت اور طالبان نے 9 مرحلوں کے طولانی مذاکرات کے بعد دوحہ میں 29 فروری 2020 کو ایک معاہدے پر دستخط کئے۔ اور اس معاہدے کا مقصد افغانستان میں 20 سال پر محیط طولانی جنگ کو ختم کرنا تھا اس تباہ کن جنگ میں کم سے کم 157 ہزار افراد ہلاک ہوگئے جبکہ امریکی حکومت کے 2 ہزار ارب ڈالر بھی اس جنگ کی نذر ہوگئے ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے معاہدے میں افغانستان میں جنگ بندی و تشدد کے خاتمہ ، غیر ملکی افواج کے انخلا ، بین الافغانی مذاکرات اور افغانستان کو دہشت گردی کے مرکز میں تبدیل نہ کرنے پر زوردیا گیا تھا۔
اس معاہدے میں اچھے موضوعات بیان کئے گئے ہیں لیکن ابھی تک کسی ایک پر بھی عمل در آمد نہیں ہوا، بلکہ تشدد میں اضافہ ہوا ہے ، امریکی فوج کا انخلا اور بین الافغان مذاکرات بھی کھٹائی میں پڑ گئے ہیں۔
افغانستان کی صورتحال کو بہتر جاننے کے سلسلے میں مہر نیوز کے نامہ نگار نے افغانستان کی قومی رفاہ پارٹی کے جنرل سکریٹری استاد محمد حسن جعفری اور ہرات میں افغانستان اسٹریٹجک ریسرچ سینٹرکے سربراہ ڈاکٹر عرفان سے گفتگو کی ۔
محمد حسن جعفری نے امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کے ایک سالہ ہونے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی مداخلت کی وجہ سے افغانستان میں قیام امن کی کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں اور افغانستان کے امور میں امریکی مداخلت نمایاں ہے۔ افغان طالبان اور افغان حکومت پر غیر ملکی مداخلت کے اثرات ظاہر ہیں اور دوحہ مذاکرات میں جو معاہدہ ہوا ہے وہ بھی کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکا ہے۔
ڈاکٹر عرفان نے جوبائيڈن کے افغانستان کے موضوع اور معاہدے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدرجو بائيڈن کی طرف سے معاہدے پر نظر ثانی کے موضوعات کیا ہوں گے ابھی معلوم نہیں ، لیکن یہ بات واضح ہے کہ ہر قسم کا معاہدہ جس میں افغانستان میں اقتدار کی منصفانہ تقسیم نہ ہو شکست سے دوچار ہوجائےگا۔ ڈاکٹر عرفان نے کہا کہ افغانستان میں معاہدے کے باوجود تشدد جاری ہے اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا بھی کھٹائی میں پڑگیا ہے۔
اس نے کہا کہ طالبان ایک طرف دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعہ دباؤ ڈال رہے ہیں، دوسری طرف طالبان میں ایک دھڑا دوحہ مذاکرات سے ناراض ہے وہ بھی معاہدے میں خلل ایجاد کررہے ہیں ، تیسری بات یہ ہے کہ افغانتسان میں مرکزی حکومت کمزور ہے اور غیر ملکی افواج کے انخلا کی صورت میں افغان حکومت کا مؤقف مزید کمزور ہوجائےگا۔ ڈاکٹر عرفان نے کہا کہ ہم افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں اٹھائے گئے ہر قدم کی حمایت کرتے ہیں لیکن مسلط کردہ جنگ اور صلح سے تھک چکے ہیں بہر حال افغانستان پر اثرانداز ہونے والے ممالک کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے افغان عوام کے مفادات کو مد نظر رکھنا چاہیے ۔