پاکستان افغانستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون کی توقع رکھتا ہے
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی عفریت سے نمٹنے کے لیے افغانستان کی عبوری حکومت سے تعاون کی توقع رکھتا ہے اور امید ظاہر کی کہ پڑوسی ملک اس سلسلے میں عالمی برداری سے کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری کرے گا۔
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ کے بیان دیکھے ہیں، پاکستان افغانستان کی عبوری حکومت سے تعاون کی توقع رکھتا ہے تاکہ دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹا جاسکے اور امید ظاہر کی کہ وہ اس سلسلے میں عالمی برداری سے کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے معصوم جانوں کے ضیاع کا معاملہ بہت سنجیدگی سے لیا ہے اور امید کرتے ہیں کہ ہمارے پڑوسی بھی ایسا ہی کریں کیونکہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے مشترکہ خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے جو معصوم شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف حملوں میں ملوث ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہم شہریوں کے تحفظ اور دہشت گردی کی عفریت کی جڑوں کو ملک سے اکھاڑ کر پھینکنے کے لیے پرعزم ہیں، ہم کسی پر الزامات عائد کرنے یا انگلیاں اٹھانے پر یقین نہیں رکھتے البتہ ہم یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ کوئی بھی ملک پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے گا۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان کی حکومت ٹھوس اقدامات اٹھاتے ہوئے عالمی برادری اور پاکستان سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرے۔ اس سے قبل گزشتہ روز افغانستان کے عبوری وزیر داخلہ امیر خان متقی نے پشاور کی مسجد میں ہونے والے دھماکے میں ملوث دہشت گردوں کی جانب سے افغانستان کی سرزمین استعمال کیے جانے کے الزامات کو مسترد کردیا تھا۔ یاد رہے کہ پشاور کے علاقے پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں 100 سے زائد افراد شہید ہو گئے تھے جس میں اکثریت پولیس افسران اور اہلکاروں کی تھی۔
یہ خبر بھی پڑھیں ریاست پاکستان کا سانحہ پشاور پر خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لینے کا عزم
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق دارالحکومت کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر خان متقی نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ دوسروں کو ذمے دار ٹھہرانے کے بجائے اس طرح کی دہشت گرد سرگرمیوں کی مکمل تحقیقات کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام ملک کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز کا مقامی سطح پر حل تلاش کریں اور دو مسلمان ممالک کے درمیان دشمنی کے بیج بونے سے باز رہیں۔ انہوں نے پاکستان کو دھماکے کی جامع اور مکمل تحقیقات کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا خطہ جنگوں اور دھماکوں کا عادی رہا ہے لیکن ہم نے گزشتہ 20 سال میں ایک بھی ایسا اکیلا خودکش بمبار نہیں دیکھا جس کے دھماکے سے مسجد کی چھت گر گئی ہو اور سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہوں۔ امیر خان متقی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ افغانستان پر انگلیاں نہ اٹھائی جائیں، اگر افغانستان دہشت گردی کا مرکز ہوتا تو اس سے چین، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور ایران بھی متاثر ہوتے لیکن آج ان ممالک کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی محفوظ ملک ہے۔