پاکستان نے تین ارب ڈالرز سعودیہ کے منہ پہ کیوں دے مارے؟
سعودی عرب پاکستان کا دیرینہ دوست ہے، لیکن سی پیک کے آغاز اور عرب ممالک کی جانب سے فلسطینیوں سے خیانت کرتے ہوئے صیہونی ریاست اسرائیل سے تعلقات کی استواری کے بعد سے دونوں مسلم ممالک کے درمیان پہلے کی طرح ہم آہنگی موجود نہیں۔ پاکستان عالمی سطح پر مسلسل معاشی اور سیاسی دباو کا شکار رہا ہے۔ چین نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان کا صف اول کا حریف بھارت ہے اور اسرائیل نے ہمیشہ بھارت کی پاکستان کیخلاف مدد کی ہے۔ اسرائیلی مدد زیادہ تر دفاعی ٹیکنالوجی اور پاکستان کیخلاف جدید ترین جاسوسی کے آلات کی مدد سے کی جاتی ہے۔ جس سے پاکستان کیخلاف خطرہ دوچند ہو جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستانی پاسپورٹ پر درج اسرائیل کے سفر سے متعلق واضح جملے اس بات کے غماز ہیں کہ اسرائیل کے وجود کو پاکستان ناجائز سمجھتا ہے۔
اسی طرح تزویراتی اہمیت کا حامل ملک ہونے کی وجہ سے امریکہ نے پاکستان کو مختلف طریقوں سے اتحادی بلاک میں رکھا ہے۔ اس تناظر میں دہائیوں تک پاکستانی پالیسی ساز یہی سمجھتے رہے کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں اگر امریکہ کے قریب رہے تو بھارتی خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اسی تناظر میں اسرائیل کیساتھ تعلقات کی استواری کے لیے ترکی سے مدد لی تھی۔ لیکن عوامی دباو کیوجہ سے ممکن نہ ہوسکا۔ پاکستان پہلے کی طرح اسرائیل کیخلاف یکجا نظر نہیں آتا، میڈیا میں آزادی سے اٹھنے والی آوازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی کچڑی پک چکی ہے، جس کو بتدریج عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں، کیونکہ ہم سعودی عرب کے دیرینہ دوست ہیں۔ سعودی عرب کے وفادار دوست ہماری ممللکت کی جڑوں میں موجود ہیں۔ بااثر پاکستانی سعودی دوستوں میں سے ایک بڑی مثال جنرل پرویز مشرف ہیں۔
جنرل مشرف بے بچارے صدارت اور سپہ سالاری سے فراغت کے بعد مارے مارے پھر رہے تھے اور شاہ عبداللہ مرحوم کو جان کیری نے کہا کہ انہیں گھر دلوانا ہے، اس کے بعد بیرون ملک ان کے گھر موجود ہیں، وہ پاکستان واپس آتے ہی نہیں، اس کا تذکرہ خو جنرل مشرف متعدد بار کرچکے ہیں۔ جنرل مشرف واپس نہیں آتے، کیونکہ انہوں نے سعودی مفادات کو براہ راست آگے بڑھایا، اسرائیل کی بالواسطہ ہمنوائی کی، مذکورہ دوست ممالک نے امریکہ کے ایما پر ان کو پاکستان میں اقتدار برقرار رکھنے کیلئے سیاسی حمایت اور مالی معاونت فراہم کی۔ جنرل مشرف داخلی سایست میں اسی زعم کی وجہ سے شکست کھا گئے کہ صرف بین الاقوامی بالخصوص سپر طاقتوں کی حمایت سے اقتدار کے مزے اڑائے جا سکتے ہیں، لیکن فقط یہی کافی نہیں، کیونکہ عالمی طاقتیں بالآخر بدلتی صورتحال کیساتھ اپنے حربے بدلتی رہتی ہیں اور ساتھ ہی مختلف خطوں اور ممالک میں اپنے مہرے بھی بدل دیتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک، مشرق وسطیٰ اور پاکستان جیسے ملکوں میں امریکی ایما پر آنے اور جانے والے حکمرانوں کی مثال واضح ہے۔ لیکن پاکستان کے معاملے بھی اب بات صرف امریکی اتحاد میں رہتے ہوئے، امریکی مفادات کو سامنے رکھنے کی یا سامنے رکھنے کا دکھاوا کرنیکی نہیں، بلکہ جس دوست ملک سعودی عرب کے ذریعے پاکستانی حکومت، مدارس، این جی اوز، سیاسی جماعتوں کو الگ الگ مالی معاونت کے ذریعے امریکی مفادات کیساتھ جوڑ کر پٹڑی پہ رکھا جاتا تھا، شاہ عبداللہ کی وفات اور مشرق وسطیٰ میں داعش منصوبے کی ناکامی کے بعد سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل نے نیا گٹھ جوڑ بنا لیا ہے، نتیجے میں پاکستان جیسے ممالک کو بھی اپنا رویہ اور پالیسی موڑنے کیلئے کہا جا رہا ہے۔ سعودی عرب میں امریکہ سے برآمد کردہ جو جدت اور روشن خیالی رائج کروائی جا رہی ہے، پاکستان میں اس سے پہلے جنرل مشرف یہ رائج کر گئے تھے۔
پاکستان چونکہ امریکہ کا اتحادی ہونے کیوجہ سے جنگ زدہ ملک تھا، اس لیے شدت پسندی اور انتہاء پسندی کا نعرہ لگا کر دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر پورے ملک میں سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی سطح پر اکھاڑ پچھاڑ کی گئی۔ اس کایا پلٹ کے ذریعے پاکستان سوشل فیبرک کو بدلنے کی کوشش کی گئی۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ سعودی عرب میں بن سلمان نے معاشی ترقی کے نام پر فحاشی کو جس طرح رواج دینا شروع کیا ہے، یہ کام پاکستان میں پہلے ہوچکا ہے۔ بن سلمان نے ابھی کہا ہے کہ ہم نے مغربی مفادات کیلئے اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے پوری دنیا میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دیا تھا، اب ہم شدت پسندی کو ختم کرینگے اور مذہبی اداروں اور شخصیات کی مالی حمایت نہیں کرنیگے اور پہلے والا ایجنڈا چھوڑ دینگے۔ اسی تناظر میں یو اے ای میں اباحیت کی قانونی سرپرستی ایک واضح مثال ہے۔
حقیقت میں بن سلمان نے اب بھی سچ کو ایک نئے غلاف میں چھپایا ہے، یہ سی آئی اے، موساد اور شیطانی وہابی صیہونی لابی کی سال ہا سال کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ دراصل 1980ء کی دہائی میں انقلاب اسلامی ایران کو کاونٹر کرنیکے لیے موساد، سی آئی اے اور سعودی رجیم نے اسلام کا مسخ شدہ چہرہ دنیا میں متعارف کروایا، تاکہ مسلم امہ بالخصوص عرب عوام اپنے اپنے ممالک میں اپنی امنگوں کے مطابق نظام حکومت کے مطالبے لیکر اٹھ کھڑے نہ ہوں، جس سے خطے میں استبدادی حکومتیں باقی رہیں اور عالمی استعماری طاقتوں کے مفادات محفوظ رہیں۔ لیکن جنرل مشرف کے بعد جنرل راحیل کوئی چھوٹے آدمی نہیں، صرف کام چھوٹا کیا ہے۔ لیکن پاکستانی سیاست کی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے، ان کے لیے ممکن نہیں کہ بن سلمان کی چوکیداری کیساتھ ساتھ پاکستان کی حکومتوں کی تبدیلی اور ریاستی پالیسی پر اثرانداز نہیں ہوسکتے۔
لیکن ایک بات واضح ہے کہ جنرل راحیل شریف کے لیے ممکن نہیں کہ سعودی ریال بھی جیب میں ڈالیں اور پاک اسرائیل تعلقات کیلئے ہونیوالی لابنگ کا حصہ نہ ہوں۔ لگتا ایسا ہے کہ مقامی طور پر عمران خان سعودی دباو اور جھانسے میں آنے والے نہیں، جیسا کہ شاہ محمود قریشی بھی جھنجھلا اٹھے کہ اگر کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہونگے تو کسی کے مفادات اور رائے کو ملحوظ رکھنے کے پابند نہیں۔ اسی طرح عمران خان اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے بھی ضمیر کی آواز پہ قائم ہیں، بلکہ حقائق کو زیادہ واضح انداز میں دیکھتے ہیں، جیسا کہ وہ ایران امریکہ کشیدگی کو ختم کروانے کی بات شاید اسی لیے کرتے رہے کہ امریکہ ایران کیخلاف جنگ میں پاکستان کو شامل کرنا چاہتا تھا۔ تاکہ اسرائیل کی بالادستی قائم کرنے کیلئے سنچری ڈیل میں واحد رکاوٹ کو مزید کمزور کیا جا سکے۔
اسی طرح غیر ملکی ادارے کو انٹرویو میں عمران خان نے اسلامو فوبیا کے محرکات پر بات کرتے ہوئے بھی بن سلمان کی طرح جھوٹ پہ مبنی موقف نہیں اپنایا بلکہ بتایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں انقلاب کی کامیابی کے بعد مغربی طاقتوں نے اسلام کا چہرہ مسخ کرنیکے لیے اسلامو فوبیا کو فروغ دیا، تاکہ اسلامی بیداری کی لہر کو روکا جا سکے۔ سعودی عرب نے اسرائیل نواز دوست جنرل مشرف کو پاکستان سے ریسکیو کیا، ایٹمی ٹیکنالوجی کا جھانسہ دینے والے جنرل راحیل کو نوکری دی، لیکن عمران خان ان کے دباو اور لالچ کو ٹھکرا چکے ہیں، ریاستی ادارے بھی امریکی ایما پر سعودی تعلقات کے ذریعے پاکستان کو جکڑ کر رکھنے کے حق میں نہیں، چین مسلسل امداد دے رہا ہے، سرمایہ کاری بھی جاری ہے۔ پاکستانی ریاست کا مستقبل اب خطے کے ممالک کیساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ حقیقت اب سعودی اور یہودی لابی کو برادشت نہیں ہو رہی۔
اس کے باوجود پاکستان سی پیک، کشمیر اور فلسطین کی حمایت میں غاصب صیہونی اسرائیلی ریاست کیساتھ تعلقات نہ بنانے کے موقف پہ کھڑا ہے۔ حالیہ حکومت مخالف تحریک اور اسرائیل کیساتھ مشروط تعلقات کی بحث بھی سعودی لابی کی طرف سے شروع کی گئی ہے۔ لیکن اپنے دام میں لانے کیلئے سعودی عرب نے عمران خان کی حکومت کو جو تین ارب ڈالر دیئے تھے، وہ ایف اے ٹی ایف، کشمیر پر پاکستانی موقف کی مخالفت، سی پیک سے پاکستان کو ہٹانے کی ناکام کوشش اور اسرائیل کیساتھ تعلقات استوار کروانے میں شکست کے بعد واپس مانگے جا رہے ہیں، لیکن یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے۔ پیسہ آنے جانے والی چیز ہے، دکھ اس بات کا ہے کہ حرمین شریفین اور قبلہ اول جیسی مقدس ترین سرزمینوں پہ قابض ناجائز طاقتوں کو رخصت کیا جائے۔
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ