
پاکستانی قدرتی وسائل اور ریکوڈک کان صدر ٹرمپ کے نشانے پر
شیعہ نیوز: امریکہ نے پاکستان کے قدرتی وسائل تک رسائی کے لیے تجارتی معاہدے کی راہ اپنائی، سونے و تانبے کی کان ریکوڈک مذاکرات کا محور
رپورٹ کے مطابق، امریکہ اپنی صنعتوں کے لیے ضروری معدنیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ایک منظم تجارتی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے، جس میں پہلے دباؤ اور بعد ازاں مذاکرات شامل ہیں۔ یہی پالیسی امریکہ نے یوکرین، گرین لینڈ اور اب پاکستان کے ساتھ اپنائی ہے۔
پاکستان نے جمعے کے روز امریکہ کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے فروغ پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ دونوں ممالک ایک جامع تجارتی معاہدے کے حتمی مراحل میں داخل ہوچکے ہیں۔ پاکستانی نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ یہ مذاکرات صرف چند دنوں میں مکمل ہو جائیں گے۔
اسحاق ڈار نے امریکی ہم منصب مارکو روبیو سے ملاقات میں دوطرفہ تجارت کو بڑھانے اور خاص طور پر معدنیات اور قدرتی وسائل کے شعبے میں تعاون کو وسعت دینے پر زور دیا۔ ان کے مطابق، پاکستان امریکی سرمایہ کاروں کو خاص طور پر کان کنی اور آف شور گیس کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دے رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کے قدرتی وسائل کی مجموعی مالیت 6 سے 8 ٹریلین ڈالر کے درمیان ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اقتصادی شراکت داری کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : صہیونی دشمن اقتصادی جنگ اور نفسیاتی حربوں کے ذریعے ایرانی قوم سے انتقام لینا چاہتا ہے، قالیباف
مذاکرات کا ایک نمایاں پہلو بلوچستان کے علاقے میں واقع ریکوڈک منصوبہ ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی تانبے اور سونے کی کانوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کان سے 2028 سے پیداوار شروع ہوگی اور منصوبے کی مدت 42 سال تک متوقع ہے۔ اس 9 ارب ڈالر کے منصوبے کا نصف حصہ "بریگ” نامی کمپنی کے پاس ہے، جو نیویارک اور ٹورنٹو کی اسٹاک مارکیٹوں میں رجسٹرڈ ہے، جبکہ باقی نصف حصہ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ملکیت ہے۔
امریکہ کی یہ حکمت عملی صرف پاکستان تک محدود نہیں، بلکہ اس نے کانگو، گرین لینڈ اور ازبکستان جیسے ممالک سے بھی معدنیات کے حصول کے لیے معاہدے کیے ہیں۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن اپنی صنعتوں کی بقا اور ترقی کے لیے عالمی سطح پر نایاب معدنیات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔
اب جب کہ پاکستان ان مذاکرات میں شریک ہے، ایک طرف یہ پیشرفت اقتصادی فوائد کی نوید سنا رہی ہے، تو دوسری طرف اسے اپنے قومی مفادات، ماحولیاتی تحفظ اور وسائل کی خودمختاری جیسے اہم نکات پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ یہ ممکنہ معاہدہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں نئے دور کا آغاز تو کرسکتا ہے، مگر اس کے اثرات دیرپا اور کثیرالجہتی ہوں گے۔