مضامین

صدی کی ڈیل کے بعد کا فلسطین

تحریر: وفا عباس نقوی

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) صدی کی ڈیل (deal of century) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے مسئلہ فلسطین کا پیش کیا جانے والا نام نہاد حل ہے ۔اس منصوبہ کے تحت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک نئی حد بندی کی جائے گی ۔جس کے نتیجے میں ایک جدید فلسطین تشکیل دیا جائے گا ۔اگر اس صدی کی ڈیل کے بعد کے فلسطین کو دیکھا جائے تو مکمل طور پہ تبدیل ہو جائے گا ۔اس تبدیل شدہ حالت کے بارے میں ایک عرب تجزیہ نگار عبدالرحمن یوسف کہتے ہیں کہ اس کے بعد بہت سے کانسپٹ تبدیل ہو جائے گے اور بہت سارے سوالات کے جوابات بھی تبدیل ہو جائے گے ۔مثلا دشمن کون ہے ؟ تو جواب اسرائیل نہیں ہو گا بلکہ وہ مزاحمتی گروہ ہونگے کہ جو بیت المقدس کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔اسی طرح حلیف کون ہونگے ؟
حلیف امن پسند ،صلح جو ہونگے ۔فلسطین کیا ہو گا ؟ تو اس کا جواب صرف غزہ ہو گا ۔
اسرائیل کیا ہے ؟تو اسرائیل ہر وہ جگہ ہے جو اسرائیل کو اپنے لیے پسند ہو ۔اسکے بعد عبدالرحمن یوسف کہتے ہیں اسکے بعد ہمارے حالات بد سے مزید بد تر ہو جائیں گے اور اس سب کے زمہ دار خائن عرب حکمران ہونگے ۔
انہی عرب حکمرانوں کے بارے میں فلسطین کی آزادی کی تحریک کے رہنما شیخ احمد یاسین کہہ چکے تھے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ تمہارے چہروں پہ اپنے شہیدوں کا خون پھینکو کہ شائد تم اس سے بیدار ہو سکو۔

صدی کی ڈیل کی مزید تفصیلات آپکے لیے پیش کرتے ہیں ۔اس منصوبہ پہ گفتگو 2017 میں شروع ہوئی ۔جب پہلی بار امریکہ نے شہر القدس یعنی یروشلیم کو اسرائیلی دارالحکومت کے طور پہ قبول کیا ۔مزید یہ کہ اس منصوبہ کے تحت فلسطینی اسرائیل کی آباد کاری کے سلسلہ کو روکنے کے مجاز نہیں رہے گے ۔فلسطینی پناہ گزین اپنے وطن واپس نہیں آ سکے گے ۔مغربی کنارے کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ۔جس کے مطابق فلسطینی صرف نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد اقصیٰ جا سکے گے ۔جدید فلسطین کو اپنی فوج کے لیے ہتھیار رکھنے کی اجازت بالکل نہیں ہوگی ۔ایک ہم نقطہ اس میں یہ ہو گا کہ اس ڈیل کے بعد بیرونی حملے کے دفاع کی زمہ داری اسرائیل کی ہو گی ۔جبکہ فلسطین پہ کوئی بیرونی حملہ ہوا ہی نہیں ۔حملہ بھی اسرائیل کی جانب سے ہوا ،قبضہ بھی اسرائیل کی جانب سے ہوا ۔ حماس سے اسلحہ لے لیا جائے گا،حتی حماس کے رہنما زاتی اسلحہ بھی نہیں رکھ سکے گے ۔

مختصر کہا جائے تو یہ ہے گریٹر اسرائیل کا منصوبہ ۔جس کو سعودی عرب،امارات،بحرین کی تائید حاصل ہے ۔اور اس ڈیل کے نفاذ کے لیے سعودی ولی عہد مکمل کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔شائد اسی لیے فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کر کے اس منصوبہ کو ماننے کے لیے کہہ چکے ہیں اور سرمایہ لگاتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔عرب ممالک وقت کے ساتھ ساتھ فلسطین کے مسئلہ سے دستبردار ہوتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں حتیٰ کچھ عرب ممالک نے تو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں ۔
جبکہ دوسری طرف دیکھیں تو فلسطینی عوام نے اس منصوبے کو رد کیا ہے ۔اور حماس نے کہا کہ ہم اس ڈیل کو ناکام بنانے اور زمین میں دفن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔فلسطین ایک مبارک اور مقدس سر زمین ہے جسے نہ فروخت کیا جا سکتا ہے نہ اس پہ کوئی سمجھوتہ کیا جائے گا۔خود اسرائیل میں سیاسی خلا نے بھی اس ڈیل کو آگے بڑھنے سے روک دیا ۔اسی طرح ایران اور حزب اللہ اور مزاحمتی بلاک نے نہ صرف اس منصوبہ کو رد کیا ہے بلکہ اس کا راستہ روکنے کی بھی ٹھانی ہے ۔ایران نے اول روز سے کہا کہ وہ مزاحمتی تحریک حماس کے ساتھ ہے ۔اور عملی طور پہ بھی ایران میدان میں حماس کے ساتھ وارد ہے ۔اس کی دلیل حاج قاسم سلیمانی کے جنازہ میں فلسطینی رہنما نے اپنی تقریر میں کہا کہ حاج قاسم سلیمانی شہید قدس ہے ۔رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے بھی اس منحوس ڈیل کے حوالے سے کہا کہ یہ ڈیل کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہو سکے گی ۔اور کچھ عرب ممالک کا نام لے کے کہا کہ انہوں نے فلسطین کے مسئلہ سے غداری کر کے اپنا قدم ایک دلدل میں رکھ دیا ہے ۔

امام خمینی رح نے فرمایا تھا کہ عالم اسلام کی تمام تحریکوں کا مرکز اور محور قدس کی تحریک کو ہونا چاہیے اور امام خمینی رح ہی وہ شخصیت تھے کہ جنہوں نہ فلسطین کے مسئلہ کو عرب مسئلہ سے نکال کر عالم اسلام کا مسئلہ قرار دیا ۔اور رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پہ منانے کا اعلان کیا ۔جو پوری دنیا میں منایا جاتا ہے اور اسی تحریک کہ مرہون منت آج قدس کے مسئلے پہ لوگوں کو شعور ملا ،آگاہی ملی ۔
صدی کی ڈیل کا منصوبہ بنانے والے ناکام ہوتے نظر آئے ۔اور مزاحمت کی یہ تحریک جس کی حدیں قدس سے شروع ہوتی ہے اور یمن تک جاتی ہیں کامیابیاں سمیٹتی چلی جا رہی ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا کے وہ ممالک اور حکمران جو امریکی کاسہ لیسی میں مصروف عمل ہیں وہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے فلسطین کے ساتھ ہونے والی اس خیانت کا حصہ اور شراکت دار نہ بنیں کیونکہ یقینا اس خیانت کاری پر مبنی صدی کی ڈیل کو مسترد اور ناکام ہونا ہے ۔ عنقریب یہ ہونے والا ہے اور خدا کا وعدہ تو یہی ہے کہ وہ ظالموں کے مقابلے میں مظلوموں کی مدد کرتا ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button