پاکستانی شیعہ خبریںہفتہ کی اہم خبریں

فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام، عرب ممالک و ترکی اسرائیل سے تجارت میں مصروف

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) مسلمانوں کا قبلہ اوّل بیت المقدس اور فلسطینی مسلمان غاصب صیہونی افواج کے ظلم وبربریت کا پہلے سے زیادہ سامنا کررہے ہیں غزہ پر بمباری کرکے اسے کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا ہے ، دنیا بھرمیں اسرائیل کی جنایت کاریوں کے خلاف غیرت مند مسلمان سراپا احتجاج ہیں لیکن دوسری جانب فلسطینیوں اورکشمیریوں کے خون پرترکی وعرب ممالک کی اسرائیل سے تجارت کو ترجیح جاری ہے۔

برطانیہ اور امریکا کی زیرسرپرستی اسرائیل کا ناجائز قیام 1948 میں عمل لایا گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک فلسطینیوں پر ان کی زمین ہی تنگ کی جاچکی ہے۔ اسرائیل میں رہ جانے والے فلسطینیوں کو صیہونیوں جیسی مراعات میسر نہیں۔ گھر ہیں اور نہ تعلیم کی سہولتیں۔ اب شیخ جراح سے بھی فلسطینیوں کو بے دخل کیا جارہا ہے۔

دوسری طرف خائن مسلمان ممالک ہیں جو اسرائیل کے ساتھ گہرے تجارتی روابط سے جڑے ہوئے ہیں۔ ترکی نے1949ہی سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیاں متعدد بار تعلقات منقطع ہوئے لیکن تجارت چلتی رہی۔ اب آخری بار 2018 میں امریکا کی جانب سے اسرائیل کا دارلحکومت تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے پر ترکی نے سفارتی تعلقات ختم کر دیے تھے۔

ترکی اور اسرائیل کے درمیان 6 ارب ڈالر سے زیادہ کی دوطرفہ تجارت ہوتی ہے۔ ترکی اسرائیل کا چھٹا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ سعودی عرب کی طرح ترکی بھی بیت المقدس کی نگہبانی کی خواہش رکھتا ہے اس وقت یہ زمہ داریاں اردن انجام دے رہا ہے۔

عرب اور اسرائیل کے درمیان اگست 2020 میں سفارتی تعلقات بحال ہونے سے خطے کی سیاست اہم موڑ لے چکا ہے۔اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان معاہدہ کے بعد ترکی کی سیاحت اور ائیرلائنز انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ پہلے متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر اور سوڈان سے براہ راست پروازیں نہیں تھیں اب انہوں نے بھی براہ راست پروازیں شروع کر دی ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیں فلسطینی مسلمانوں کا ملت پاکستان کے نام اہم پیغام سامنے آگیا

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات پہلے مرحلے میں دو طرفہ تجارت کا حجم سالانہ 4 ارب ڈالر تک لے جانے کے خواہش مند ہیں۔
بحرین کے بزنس چیمبر نے بھی اسرائیلی چیمبر کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے ہیں۔ بحرین ہی سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تجارت کا زریعہ ہے۔ گو کہ دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست مسلمان ممالک کے دباؤ کی وجہ سے تعلقات قائم نہیں ہو سکے لیکن کہتے ہیں عرب ممالک اس کے کہنے پر اسرائیل کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔

اسرائیلی فوج کی بمباری سے 21 فلسطینی شہید 300 سے زائد زخمی اسی طرح مصر،اردن اور دیگر عرب ممالک کے بھی براہ راست سفارتی و تجارتی تعلقات قائم تھے ،بات یہ ہے کہ اسرائیل کی آبادی 92 لاکھ ہے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے مذہب اسلام اس کے پیروکاروں کی تعداد 2 ارب سے زیادہ ہے۔ پھر بھی مسلمان ممالک باالخصوص عرب اقوام فلسطینیوں پر مظالم کے باوجود اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر مجبور ہیں۔اسے امت مسلمہ کا

المیہ نہ کہیں تو اور کیا کہا جائے کہ چھوٹے سے ناجائز ملک اسرائیل آبادی اور دولت کی بھرمار ہونے کے باوجود سب کو بے حس کر کے پیچھے لگا رکھا ہے۔

سعودی عرب نے اپنے تحفظ اور یمن کے مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے 41 ممالک پر مشتمل فوج بنا رکھی لیکن فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم پر چپ سادھ رکھی ہے۔ فوج کی سپہ سالاری کی پاکستان فوج کے سابق سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو سونپی ہوئی ہے۔طاقت رکھ کر بھی اس کا جائز استعمال نہ کرنے کو بزدلی اور بے حسی کہا جاتا ہے۔ اسی بزدلی اور بے حسی کی وجہ سے فلسطینی اور کشمیری عوام روز جیتے اور روز مرتے ہیں لیکن مسلمان ممالک اسرائیل اور بھارت کے ساتھ تجارت میں مصروف ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button