پاراچنار جل رہا ہے
قیام پاکستان سے لیکر آج تک سول و عسکری بیوروکریسی کی جانب سے ضلع کرم کے اکثریتی قبائل طوری بنگش کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے
شیعہ نیوز: تاریخی و ریاستی دستاویزی ریکارڈ کے مطابق ضلع کرم طوری بنگش قبائیل کی ملکیت ہے۔ جنت نظیر وادی کرم بدقسمتی سے جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ بدقسمتی اس لئے کہا کہ یہی جغرافیائی اہمیت ہی تباہی کے دہانے پر لے کے آیا ہے۔ ضلع کرم کے 80 فیصد سرحدیں افغانستان کے تقریباً چار صوبوں سے ملتی ہیں جبکہ افغانستان کے دارالحکومت کابل سے قریب ترین فاصلہ ہے۔ معدنیات کرم کے پہاڑوں میں وافر مقدار میں قیمتی ترین ہیں۔ پیواڑ تری منگل، خروٹی، شلوزان، تنگئے ملانہ، زیڑان کڑمان اور پاڑہ چمکنی کے پہاڑ کھربوں کھربوں بیلن ڈالرز کے معدنیات اپنے سینے میں محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ ان کے دل آویز جادویی قدرتی نظاروں نے وادی کے حسن کو چار چاند لگا دیا ہے ۔ خیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقے ضلع کرم میں شعور و آگاہی کے بنا پر اسلام آباد یا ایبٹ آباد سے تعلیمی شرح میں برابری رکھتاہے۔
قیام پاکستان سے لیکر آج تک سول و عسکری بیوروکریسی کی جانب سے ضلع کرم کے اکثریتی قبائل طوری بنگش کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ افغانستان میں روسی قبضے نے بین الاقوامی اشرافیہ خصوصاً امریکہ، اسرائیل، سعودی اور اتحادی کرم کے خوبصورتی کے دشمن بنے۔ امریکہ کا پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق کو اعتماد میں لے کر ضلع کرم میں لاکھوں افغان مہاجرین کو طول وعرض میں آباد کیے گئے ۔ افغانستان مہاجرین کے جہادی تنظیموں کا گڑھ بنا دیا ۔ شروع میں مالی مفادات کے غرض اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ضلع کرم کے باسیوں نے ریاست کے حکم پر خوش آمدید کہا ۔ ایک سرکاری دستاویز کے مطابق ضلع کرم میں افغان مہاجرین کے فی خاندان آباد کرنے میں 2 ہزار روپے انعام دیا جاتا تھا۔ لیکن جلد ہی ریاستی پالیسی کے مطابق آفغان مہاجرین کی منفی سوچ اور ضلع کرم میں آباد باقی اقوام (جو دراصل طوری بنگش قبیلے کے خدمتِ گزار تھے) ایک نقطے پر متفق کر دئیے گئے ۔ کہ طوری بنگش کو ہر حال میں اقلیت میں لاکر کرم سے دور بھگانے کی کوشش کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: دھرنے ہمارے کنٹرول سے باہر ہوگئے تو ہرایک ذمہ دار سے استعفیٰ مانگا جائے گا، سینیٹرعلامہ راجہ ناصرعباس
سنہ 1982 میں صدہ کے ساٹھ (60) شیعہ بنگش گھرانوں کو زبردستی گھروں سے نکال دئے ایک ہی خاندان کے سولہ مرد و زن اور بچوں کو تہہ تیغ کردیا۔ صدہ ٹاؤن پر قابض ہوگئے ۔ صدہ جوکہ بنگش قبیلے کی ملکیت ہے ۔ ہزاروں افغان مہاجرین اور دوسرے اقوام آباد کر دئیے گئیے ۔ صدہ سے بے دخل لوگ آج تک دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ہزاروں جیریب انتقالی اور شاملاتی 1987 میں ضیاالحق کا وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے دستخط شدہ معاھدے کو عملی بنانے کی خاطر ضلع کے طول وعرض میں ریاستی سرپرستی میں لاکھوں کی تعداد میں ضلع کرم پر چاروں طرف سے حملہ کیا ۔ دو ہفتوں سے زیادہ کرم کو افغانیوں کی جلاوطن حکومت بنانے کے لیے افغانیوں کو امریکہ سمیت دنیا بھر کے غنڈے گردوں کا اسلحہ بارود استعمال ہوتا رہا ۔ لیکن کامیابی نصیب نہیں ہوئی ۔ ابراھیم زئی بالشخیل سنگینہ و غربینہ کو جلا کر لوٹ لیا گیا ۔ سینکڑوں خواتین بچے اور جوان و بزرگ جلاوطن حکومت کھا گئی ۔
1996 پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے بنائے ہوئے طالبان کا افغانستان میں حکومت قائم کرنے کی خاطر ضلع کے اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ جس میں منافقانہ ظالمانہ نفرت انگیز سہولت کار کاکردار عید نظر نے ادا کیا تھا ۔ سکول کے بچے اساتذہ بھی لقمہ اجل بنے ۔ جس میں سکول ھذا کے پرنسپل اسرار حسین بھی شہید ہوئے ۔ جس کے نام پر آج سکول یاد کیا جاتا ہے ۔ بدنام زمانہ دہشتگرد نے سکول کے اندر شیعوں کے خلاف غلیظ چاکنگ کیا تھا ۔بڑے تعداد میں قیمتی جانیں ضائع ہوئی ۔ کابل جان میں طالبان کی حکومت قائم کرتے ہی جنگ ختم کر دی گئی ۔
ضلع کرم کے مالک طوری بنگش قبیلے کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی غرض سے علاؤہ غیر جو ضلع اورکزیی کا حصہ تھا ۔ جس میں پارہ چمکنی ، مسوزئی ، علی شیر زئی وغیرہ اقوام آباد تھے ضلع کرم کا حصہ بنا دیا جس کو سنٹرل کرم کا نام دیا گیا ۔ جس کی وجہ سے ضلع کرم میں طوری بنگش قبیلے نہ صرف تعداد کے لحاظ سے کم ہوئے بلکہ ترقیاتی منصوبوں کو ہائی جیک کرکے لوئر اور اپر کرم کے طوری بنگش قبیلے کو اندھیروں میں دھکیل دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاراچنار میں جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کئے گے ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
سنہ 2007 سے لیکر پانچ سال تک ضلع کرم کے باسیوں نے گھیراؤ جلاؤ اور خون خرابہ دیکھا ۔ راستوں میں کٹے سر ، کانوایوں میں سرکار کے زیر نگرانی لوٹ مار قتل و غارتگری نے عوام کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔ ستم ظریفی تو یہ کہ پانچ سال شہر پاراچنار کا اتنا سخت بندش و محاصرہ کہ عوام فاقوں پر مجبور ہوگیا تھا۔ ضلع کرم کے جوانوں کے ایک سو اٹھارہ دن دھرنے کے دباؤ کا اثر تھا کہ شورش کا اختتام مری معاھدے پر ہوا ۔ جوکہ آج تک عملی طور پر لاگو کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔
شہر پاراچنار میں مہینے میں دو سے تین دھماکے کئے جاتے تھے ۔ جس کا اختتام 2017 میں ستائیسویں روز جمعتہ الوداع یوم القدس پر یک بعد دو دھماکوں میں سو سے زاید افراد کو نگل لیا ۔ کئی لوگ افاہیج ہوگئے ۔ جس پر نو روزہ طویل دھرنا دے کر قوم سرخ رو ہوئی دھماکے بند ہو گئی ۔
امریکہ چاینا چفقلش سیاسی اتار چڑھاؤ اور خالی خزانے نے کرم کے عزت و حرمت تباہی کے دھانے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے ۔ گزشتہ سال سے بغیر کسی وجہ اور ضرورت جنگوں کو مسلط کر دیا گیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر آلا بلا کہننے والوں کو ماہانہ وظیفہ مقرر ہے۔ مفاداتی جنگ نے ابھی مہینہ نہیں ہوا ہے ۔ کہ ڈیڑھ سو زندگیاں نگل گئی ہیں ۔
چھ دن پہلے بوشہرہ جو کہ ضلع کرم کے شدت پسند مظلوم کہتے ہیں ۔ سرکار نے ریڈ زون بنا کر چاروں طرف سیکیورٹی فورسز تعینات کئے ہوئے ہیں ۔ سرکار کے موجودگی میں طوری قبیلے کے حاجی مردان علی کے فصلوں کو کاٹ کر مورچے بنائے ۔ منع کرنے پر احمدزئی گاؤں پر حملہ اور ہوئے ۔ رات کو جنگ بندی بھی ہوگئی لیکن ریاست کے پالتو کچھ شرپسندوں نے بالشخیل سنگینہ پر رات کی تاریکی میں بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا ۔ جس میں درجنوں افراد طرفین کے جنگ کی نظر ہوگئیں ۔ یہ جنگ پیواڑ ، کنج علیزئی اور کڑمان پر مقامی ابادی کے شرپسندوں کے ساتھ سرحد پار کے غنڈہ گرد بھی شامل ہوکر بھار ہتھیاروں سے طوری بنگش شیعہ قبائل کے آبادیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ ابھی تک درجن بار لشکر کشی کرچکے ہیں لیکن ان سب کو منہ کی کھانی پڑ گئی ہے ۔ ضلع کرم کے طول و عرض میں موت رقص کرتے ہوئے دیکھائی دے رہی ہے ۔ صدہ بازار میں شیعہ بنگش مارکیٹیں بموں سے اڑا کر دہشتگردوں نے نئے جنگ کا آغاز کردیا۔ جنگ کے آگ میں جلنے والوں کے قبروں پر افغانستان کے آمارات اسلامی کے جھنڈے لگا دئیے گئے ۔
یہ بھی پڑھیں: سیکورٹی ادارے 200 کلو میٹر روڈ کی حفاظت نہیں کر سکتے تو اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے، علامہ باقر عباس
کل رات وزیرستان ، ٹل کوہاٹ ہنگو تک لوگوں نے کئی بار سنگینہ بالشخیل پر لشکر کشی کی ہے ۔ لیکن دہشتگرد وطن عزیز کے دفاع کرنے والے جوانوں کا سامنا نہ کر سکے ۔ اسی طرح کڑمان پیواڑ اور کنج علیزئی پر سرحد پار کے دہشتگردوں نے لشکر کشی میں ساتھ دیا ۔ ان تمام حملوں میں ریاستی مشینری کی مدد کے بھی ثبوت سامنے آرہے ہیں۔
مقامی انتظامیہ ، پولیس اور فوج بے بسی کا ناٹک کرکے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن مختلف محاذوں پر مورچوں کے اوپر ڈرونز کے پروازوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے جوانوں کے لاشوں پر سرکار یہ ویڈیوز 130 ملین ڈالرز کو ہضم کرنے کیلئے اپنے آقاؤں کو رپورٹ بنا کر بھیج رہے ہیں ۔ جھ دن کے اس خون ریزی کو سرکاری مشینری روکنے کے بجائے بھڑکا رہے ہیں ۔ میڈیا بلیک آؤٹ نے ضلع کرم کے آواز کو کرم سے باہر نکالنے کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔
پاکستانی عوام بھی موجودہ خونریزی پر خاموش ہیں گویا ان کو احساس تک نہیں ہے کہ پاکستان کا ایک حصہ پارا چنار جل رہا ہے ۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا بھی ایسے خاموش ہیں کہ گویا سب کچھ ٹھیک ہے ۔ سوشل میڈیا کے اکثریت آگ کو بجھانے کے بجائے بھڑکانے پر تلی ہوئی ہے۔
ایسے میں پورا ضلع کرم پاکستانی عوام ، میڈیا ، پارلیمنٹیرینز ، سیاسی مذہبی سماجی پارٹیوں تنظیموں اور ذمہ داران سے بلاوجہ قتل و غارت و خون خرابے کو روکنے میں کردار ادا کرنے کی التماس کرتے ہیں ۔ صدر زرداری ، آرمی چیف جنرل عاصم منیر ، چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ، وزیراعظم ، وزیر اعلیٰ اور گورنر فوری نوٹس لے کر خون ریزی بند کردیں۔
تحریر: ایس جے فخری