مضامین

پنجابی طالبان کا سرنڈر ۔۔۔ توبہ یا سازش

تحریر: تصور شہزاد

کالعدم تحریک طالبان پنجاب (پنجابی طالبان) کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ نے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں ختم کرنے اور ہتھیار پھینکنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وہ اپنی سرگرمیاں دعوت و تبلیغ تک محدود کر دیں گے اور سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔ میڈیا کو جاری ایک خط کے ذریعے معاویہ نے اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے لکھا کہ ملا فضل اللہ دہشت گردی اور بھتہ خوری کرواتا تھا لیکن اب ہمارے گروپ (پنجابی طالبان) نے علمائے کرام کی مشاورت کے بعد پاکستان میں یہ کارروائیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ معاویہ نے مزید لکھا کہ ملکی صورت حال کے پیش نظر ہم نے بہت سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے، البتہ افغانستان میں ہم اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے جبکہ پاکستان میں نفاذ اسلام کے لئے شرعی خطوط پر وسیع تر دعوتی تحریک چلائیں گے۔

رواں برس جون میں شمالی وزیرستان میں فوج نے دہشت گردوں کے خاتمہ کے لئے ضرب عضب کے نام سے آپریشن شروع کیا تھا تو پاکستان میں دہشت گردوں کے بہت سے حامیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ یہ بہت نامناسب اقدام کیا جا رہا ہے، اس سے ملک میں انارکی پھیلے گی، دہشت گرد شہروں میں آکر دہشت گردی کریں گے، تنصیبات کو اڑائیں گے اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ آپریشن کی حامی عسکری و سول شخصیات کا موقف تھا کہ دہشت گردی کو بزور بازو سے ہی کچلا جاسکتا ہے، دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت یا مذاکرات کار فضول کے سوا کچھ نہیں۔ سو آج تین ماہ میں ملنے والی کامیابیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ لوگ درست تھے جو کہتے تھے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ اس لئے دہشت گردوں کے خلاف بلاتاخیر عسکری اقدام کرکے انہیں نیست ونابود کر دیا جائے۔ وقت نے معتدل گروہ کی رائے کو درست ثابت کر دیا۔

شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد یہ نام نہاد مجاہدین اسلام دم دبا کر یوں بھاگے کہ انہیں اپنے پیچھے والوں کی بھی ہوش نہ رہی۔ وہ علاقہ، جسے انہوں نے گن پوائنٹ پر یرغمال بنا رکھا تھا، وہاں داخل ہوتے ہی عوام نے پاک فوج کو خوش آمدید کہا اور دہشت گردوں کی نشاندہی کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے میں پاک فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔ فوجی ترجمان نے اسی تناظر میں کہا تھا کہ کامیاب جاسوس نیٹ ورک کی بدولت ہی دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے اور انہیں بڑی تعداد میں واصل جہنم کرنے میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں۔ بہت سے دہشت گردوں کو پاک فوج کے جوانوں نے زندہ بھی گرفتار کیا ہے۔ کئی دہشت گرد افغانستان فرار ہوگئے اور یوں دہشت گردوں کی دہشت دم توڑ گئی۔ پنجابی طالبان کا یہ بیان پاک فوج کے آپریشن کی کامیابی کی دلیل ہے کہ اب دہشت گرد ہتھیار پھینک رہے ہیں۔

مارچ میں جب یہ اعلان کیا گیا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمہ تک آپریشن ضرب عضب جاری رہے گا تو طالبان کے بہت سے ملکی و غیر ملکی سرپرستوں نے اس کی بہت مخالفت کی اور سول قیادت کو مجبور کیا کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرے۔ ان کی دباؤ پر نواز شریف نے سرکاری طور پر دہشت گردوں کی باقاعدہ بات چیت کروائی۔ خود اس سارے عمل کی نگرانی بھی کی، لیکن یہ سب بے سود ثابت ہوا، کیونکہ دہشت گرد جنہیں ریاست کے باغی قرار دیا جا چکا تھا وہ خود کو ریاست کے ہم پلہ سمجھ کر خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے اور مطالبات کی ایک لمبی فہرست بنا لائے، جن میں خطرناک قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ ان میں اعلٰی فوجی افسران کے قاتل بھی شامل تھے اور جی ایچ کیو سمیت دیگر اہم عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والے دہشت گرد بھی شامل تھے۔ ایک طرف تو عسکری قیادت کا موقف واضح تھا کہ ان دہشت گردوں کو مزید چھوٹ نہ دی جائے، دوسری جانب حکومت چین نے پاکستان پر دباؤ بڑھا دیا تھا کہ وہ چینی باشندوں کے قاتلوں کے ساتھ نرم رویے کی بجائے فیصلہ کن اقدام کرے۔ کیونکہ یہی دہشت گرد چینی صوبے سنکیانگ میں بھی مذموم کارروائیوں میں ملوث تھے۔ یوں پاک چین تعلقات بھی متاثر ہو رہے تھے۔

عسکری قیادت یہ بھی جانتی تھی کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد بھارت کو علاقے کی تھانیداری سونپ دی جائے گی اور یہی دہشت گرد امریکہ کے بعد بھارت کی گود میں جا بیٹھیں گے۔ خطے میں بھارتی بالادستی کا عالمی ایجنڈا ناکام بنانے کے لئے اندرون ملک دہشت گردی ختم کرکے استحکام لانا اشد ضروری ہے، اسی لئے شمالی وزیرستان میں فیصلہ کن آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ مذاکراتی ڈرامے کی آڑ میں بہت سے دہشت گرد فرار ہوگئے تھے تاہم وہاں دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے ملکی استحکام کے لئے اب بھی خطرہ بنے ہوئے تھے۔ انہیں ختم کرنے کے لئے عسکری اداروں نے حکمت و تدبیر کے ساتھ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد مولوی فضل اللہ کے امیر بننے کے بعد طالبان میں پڑنے والی پھوٹ سے فائدہ اٹھایا۔ طالبان گروہوں کے اندرونی خلفشار، ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی کشاکش، اندرونی پھوٹ اور سر پھٹول نے ان کی صفوں میں دراڑیں ڈالیں، جو انہیں لے ڈوبیں اور یوں پاک فوج کی حکمت عملی سے دہشت گرد گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔

پنجابی طالبان کا ہتھیار ڈالنا ایک چال لگ رہی ہے، کیونکہ طالبان کے کوئی 50 کے قریب گروہ تھے جن میں سے کچھ افغانستان فرار ہوگئے تو کچھ جنوبی پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مضافات میں روپوش ہیں۔
شنید ہے کہ یہ کافی خاموشی کے ساتھ خود کو دوبارہ منظم کر رہے ہیں۔ ان کے سرپرست ابھی پاکستان میں انہیں خفیہ ٹھکانوں سے مدد فراہم کر رہے ہیں۔ محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی مجلس شوریٰ کا اجلاس افغان صوبے ہلمند میں ہوا، جس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ نام نہاد جہاد آخری دم تک جاری رکھا جائے، اس کے لئے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کے لئے 20 یونٹس تشکیل دیئے گئے ہیں۔ جن میں 7 یونٹس سکیورٹی اداروں سمیت حساس اداروں کے خلاف کارروائیاں کریں گے، جبکہ دیگر ملک کے بڑے شہروں اور جیلوں میں قید دہشت گردوں کو چھڑانے کے لئے بڑے پیمانے پر کارروائیاں کریں گے۔ اس تناظر میں ملکی سلامتی کے اداروں کو چوکنا رہنے کی اشد ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button