مضامینہفتہ کی اہم خبریں

راشن، توبہ اور ٹرک واپس کرو

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) اس وقت دنیا ایک مشکل وقت سے گزر رہی ہے اور شاید اس طرح کا وقت اس خطہ ارضی نے کبھی نہ دیکھا ہو۔ اس عالمی وباء کے حوالے سے کئی نظریات اور تھیوریز گردش کر رہی ہیں جن کے اثبات میں وقت درکار ہے لیکن سر دست مسئلہ اس وباء اور بیماری سے خود کو نجات دینا ہے۔ یہ ایک نئی جنگ کا پیش خیمہ ہے لیکن اس جنگ کے اصول بہت مختلف ہیں حتی کہ نرم جنگ اور سوفٹ وار سے بھی زیادہ۔ یہ وہ جنگ ہے کہ جو گھروں میں بیٹھ کر لڑی جا رہی ہے تاکہ خود کو محفوظ بناتے ہوئے نئے مرحلہ جنگ کیلئے خود کو تیار کیا جائے، اصل جنگ کہ جس کا ہمیں پاکستان میں سامنا ہے وہ دور جدید کی جہالت و لاعلمی اور ضد و ہٹ دھرمی ہے کہ جس کے مظاہر صرف پاکستان میں آپ کو دیکھنے کو ملیں گے۔

مملکت خداداد پاکستان میں ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے وہ ایک جانب حکومت کی غیر سنجیدگی، وفاق و صوبوں کی باہمی سیاسی چپقلش، عالمی سامراج کا غلام میڈیا اور ٹی وی چینلز نیز عوام میں موجود پیادے سپاہی ہیں جو آگ کو بجھانے کے بجائے مزید بڑھکانے کا کام کر رہے ہیں۔ پاکستان عالمی منڈی میں ایک ایسا میدان ہے کہ جہاں بخشو سے لیکر ارباب اعلیٰ تک سبھی خدمت سامراج کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں تو دوسری جانب وہ لبرل طبقہ ہے جو اسلام زدائی اور دین محویت کیلئے ہمہ وقت سرگرم عمل نظر آتا ہے، بس ایک تیلی پھینکنے کی دیر ہوتی ہے بقیہ ملک کے گوشہ و کنار میں پھیلے ہوئے بادشاہ کے پیادے سپاہی اپنا کام کرتے ہیں اور سوشل میڈیا کو بھر دیا جاتا ہے۔ بقیہ ماشاء اللہ رہی سہی کسر ہمارے بیوقوف ملا طبقہ اور عام عوام کر دیتی ہے۔

ایسی ہی کچھ صورتحال کورونا وائرس کے بعد پاکستان میں دیکھنے میں آرہی ہے جسے اسلام دشمن لبرل طبقہ لیڈ کر رہا ہے، بقیہ کسر پیادے سپاہیوں اور ملا طبقہ و جاہل عوام کا مثلث کررہا ہے۔ اس مشکل وقت میں ایک قومی سوچ کی ضرورت تھی کہ جس کے مطابق پاکستان کو اس نئے مخمصے سے نکالنے کی تدابیر کی جاتیں، مگر یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے، نہ تو قومی سوچ ہے، نہ ریاست کا پدرانہ کردار نظر آتا ہے، سیاسی جماعتوں کے مفادات کی بنیاد پر اسمبلیوں میں جماعتی مفادات کے علمبردار براجمان افراد اپنی دیرینہ روایات کو بر قرار رکھے ہوئے ہیں، یعنی تنقید اور بس تنقید! ایسے وقت میں اگر کچھ فلاحی ادارے سرگرم عمل ہیں تو ان کے خلاف ہرزہ سرائی کا کام شد مد سے جاری و ساری ہے۔

مجھے این جی اوز اور فلاحی اداروں کے طریقہ کار سے اختلاف ہے اور وہ ایک منطقی بنیاد رکھتا ہے لیکن صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط ہی کہا جائے گا اور یہی بہتر ہے۔ اس مشکل گھڑی میں ضرورت تھی کہ ہم ایک قومی سوچ کو پروان چڑھاتے اور مل کر پاکستان کی کشتی کو اس منجھدار سے نکالتے، مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ یہاں بھی لبرل مافیا اپنا گیم کھیل گیا اور بہت سے لوگ اور مسالک کے کچھ پیروکار اس کا ایندھن بن گئے۔ طے شدہ منصوبے کے مطابق رہی سہی کسر مذکورہ مثلث نے پوری کردی اور اب تو صورتحال اس سے زیادہ گھمبیر ہوگئی ہے کہ اب علماء مساجد سے نماز جماعت کی ادائیگی کے روکنے کے عمل کو اسلام و مسلمانوں کے خلاف ایک سازش قرا ر دیتے ہوئے فتویٰ جہاد جاری کر رہے ہیں، اللہ کی پناہ!

ایک ایسا ہی واقعہ ابھی کچھ دن قبل رونما ہوا کہ جس کی جانب آپ کی توجہ کو مبذول کرانا مقصود ہے، زبان زد خاص و عام ہے کہ کچھ لوگوں نے راشن لیا۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان مفتیان دین کو توبہ کی ویڈیو وائرل نہ کرنے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی اور ان کو کہا گیا کہ وہ توبہ کریں۔ انہوں نے توبہ کرلی اور یوں توبہ کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔ مجھے نہ تو اس سے غرض ہے کہ توبہ کیوں اور کس فعل سے کی اور کس کے ایماء پر کی، ایک سوچی سمجھ سازش کے تحت فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی ہے تو کبھی اہل تشیع کو قادیانیوں کے برابرکھڑا کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں تو کبھی ایک فلاحی ادارے کی بےلوث خدمات کو کسی ملک سے جوڑنے کا راگ الاپا جا رہا ہے۔

دوسری جانب کورونا وائرس کو مذہبی رنگ دے کر اسے حاجی اور زائر بنایا اور قرار دیا جارہا ہے، اس میں عالمی سامراج کا غلام میڈیا اور مغرض حکومتی اہلکاروں سمیت پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد کے نتیجے میں شکست کھانے والی مردہ تکفیری سوچ کے کارندے بھی شامل ہیں۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں! مگر ہمارے کچھ نادان دوست اور دشمن کے آلہ کار بلکہ ملت کی کالی بھیڑیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں۔ کیا اخلاق اہل بیت (ع) آپ کے سامنے نہیں، امام علی (ع) ہوں یا امام حسن (ع) یا دیگر معصومین (ع)، اپنے جانی دشمنوں سے ان کا سلوک کیا آپ کے سامنے نہیں ہے؟ کیا کبھی انہوں نے اپنے در پر آنے والے شخص اور سائل سے مطالبہ کیا کہ پہلے ہماری ولایت کا اقرار کرو پھر ہم تمہیں مال و دولت اور روٹی راشن دیں گے، یہ جو مختلف آوازیں ہمارے درمیان سے اٹھ رہی ہیں ان کا نہ تو اخلاق و تعلیمات اہل بیت (ع) سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی یہ انسانی اقدار کے مطابق ہیں، پہلے ٹرک واپس کرو، فلاں نے فلاں کھا لیا، یہ ٹرک کھا گئے۔

سوشل میڈیا پر ایک بازار لگایا ہوا ہے، مزاحیہ کلپ بنائے جا رہے ہیں، تصاویر اور اسٹیکرز بھی میدان میں آگئے ہیں۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ کچھ ادارے، جماعتیں اور شخصیات فرقہ واریت کی آگ میں بری طرح جل رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایک فلاحی ادارے کے خلاف منظم سازش شروع کی گئی ہے لیکن ہمیں اس آگ کا ایندھن فراہم کرنے کے بجائے اس بجھانے کی فکر کرنی چاہیئے، مگر افسوس دیکھنے میں آرہا ہے کہ ہماری نسل جوان بغیر سوچے سمجھے ان مزاحیہ کلپوں، تصویر اور اسٹیکرز کو دوسروں تک پہنچاکر حالات حاضر کے مزے لے رہی ہے۔ خدارا ! ہوش کے ناخن لیں اور مکتب اہل بیت علیھم السلام کی تعلیمات و اخلاق کو زندہ کیجئے اور اپنے ان غیر اخلاقی اقدامات سے باز رہتے ہوئے فلاحی ادارے کو پاکستان کی خدمت کرنے کا موقع فراہم کیجئے۔ اگر آپ مذکورہ ادارے یا کسی بھی ادارے کی مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم روہڑے بھی نہ اٹکایئے۔

توجہ رہے کہ یہ دشمن کی جانب سے تیار مزاحیہ کلپ دو لمحے کی سستی ہسنی و مزاح تو فراہم کر سکتے ہیں لیکن مذہب اہل بیت علیہم السلام کے تعلیمات کے سراسر منافی ہیں، ہمارا ملک اس تنگ نظری کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے، خدارا اس آگ کا ایندھن نہ بنیں۔ فرقہ وارانہ سوچ کا جواب مدلل انداز سے منطق کی روشنی میں اور قرآن اور سنت رسول (ص) اور معصومین (ع) کی تعلیمات کے مطابق دیں۔ پاکستان اور دنیا میں موجود فضاء کے پیش نظر اگر دوسرے مکاتب تنگ نظری کا مظاہرہ کریں تو ان سے گلا نہیں، گلا تو اپنوں سے کیا جاتا ہے، ہمارے یہاں مسلسل یہ تحاریر دیکھنے میں آرہی ہیں کہ ہم ان کو کہہ رہے کہ آپ فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں کہ ہم نے توبہ کی اور ہمیں علم نہیں تھا لیکن یاد رکھیں کہ یہ آپ کی مزاح طلبی کے یہ مزاحیہ کلپ اور تحریریں ایک انداز سے خود فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں جو ہمارے مکتب کے شایان شان نہیں۔

مکتب اہل بیت علہیم السلام مکتب اتحاد و وحدت ہے، اس کی شان کو باقی رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے، ایسی کسی بھی قسم کی تحریر، تصویر یا اسٹیکر کو فارورڈ کرنا ایک غیر اخلاقی فعل، ناجائز امر اور مکتب و تعلیمات اہل بیت (ع) کو نقصان پہنچانے نیز امدادی رفتار کو سست کرنے اور پاکستان کو اس مدد کے وقت میں کمزور کرنے کے مترادف ہے، اس وقت انسانیت کو ضرورت ہے امداد گر ہاتھوں، قلموں، سوچوں، قدموں اور اقدامات کی، پاکستان کو بچایئے اور انسانیت کی خدمت کیجئے! جزاک اللہ

تحریر : علامہ سید صادق رضا تقوی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button