
مجلس وحدت مسلمین اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی ملاقات مشترکہ پریس کانفرنس
شیعہ نیوز:مجلس وحدت مسلمین اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ بلدیاتی بل کو جواز بنا کر سیاسی پوائنٹ اسکورننگ کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو باہمی مشاورت سے اس شہر، صوبے اور ملک کی خدمت کے لئے اقدامات کرنے چاہئے۔ پیپلز پارٹی نے بلدیاتی بل کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو سننے اور اس پر غور کرنے پر تیار ہے البتہ کوئی یہ چاہے کہ 2001 کے آمر مشرف کا بلدیاتی نظام اس صوبے میں دوبارہ رائج کیا جائے تو یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ سندھ حکومت صوبے میں جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات کی خواہ ہے، لیکن جب تک الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کا کام مکمل نہیں کرلیتی یہ ممکن نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار ان دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے جمعہ کے روز مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ قبل ازیں پاکستان پیپلز پارٹی کا وفد پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری وقار مہدی اور صوبائی وزری اطلاعات ومحنت سندھ سعید غنی کی قیادت میں مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی دفتر میں ان سے ملاقات کی۔ اس موقع مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیاسی سیکرٹری علی حسین نقوی،صوبائی ترجمان علامہ مبشر حسین، کراچی ڈویژن کے سیکرٹری علامہ صادق جعفری، مولاناملک غلام عباس،سیاسی سیکرٹری میر تقی ظفر، علی احمر، آصف صفوی اور دیگر بھی موجود تھے جبکہ
وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی سلمان مراد، اقبال ساندھ، ڈسٹرکٹ ایسٹ کے جنرل سیکرٹری لالہ رحیم اور دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ ملاقات میں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے سندھ سمیت ملک بھر میں سیاسی صورتحال، ملک میں مہنگائی، بیروگاری، گیس و بجلی کے بحران کے علاوہ سندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ بعد ازاں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و محنت سندھ و صدر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن سعید غنی نے کہا کہ میں مجلس وحدت مسلمین کے دوستوں کا شکر گذار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جانب سے رکھی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں ہمیں شرکت کرنا تھی لیکن کچھ مصروفیات کے باعث ہم شریک نہ ہوسکے تھے اور اسی لئے آج ہم نے ان سے ملاقات بھی کی ہے اور بلدیاتی نظام کے حوالے سے ان سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ہے اور ان کی جانب سے ہمیں اس اے پی سی میں جو فیصلے ان کے ہوئے ان کی منٹس بھی ہمیں فراہم کی ہے۔ سعید غنی نے کہاکہ ان کی جانب سے بلدیاتی نظام کے حوالے سے جو نکات اٹھائے ہیں ان میں زیادہ تر نکات سے ہم اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی شہر میں مسائل کے حل کے لئے سندھ حکومت کام کررہی ہے، انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مزید صوبے اور اس شہر میں کام کی ضرورت ہے لیکن اس وقت کراچی شہر میں بلدیاتی قانون کو جواز بنا کر کچھ سیاسی جماعتیں اپنا قد اونچا کرنے اور سیاسی پوائنٹ اسکورننگ کے لئے جو کچھ کررہی ہیں وہ دراصل حقیقی عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے کررہی ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم نے 2013 کے قانون میں ترامیم کرکے اختیارات کو مزید نچلی سطح تک منتقل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2001 کا آمر کا قانون کسی صورت بھی نافذ نہیں کیا جاسکتا، انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون پر اعتراضات کرتے ہوئے اپنے اعتراضات سڑکوں کی بجائے اسمبلی میں لائیں اور فلور پر تجاویز دیں۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علی حسین نقوی نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم نے کچھ روز قبل اے پی سی بعنوان تعمیر کراچی و تعمیر پاکستان کے عنوان سے رکھی تھی، انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تعمیر کراچی ہی تعمیر سندھ و پاکستان پے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی مضبوط ہو گا تو سندھ مضبوط اور سندھ مضبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگا۔ علی حسن نے کہا کہ ہماری اس اے پی ایس کا مقصد وفاق کی جانب سے پیش کئے جانے والے گورکھ دھندوں کو بے نقاب کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج اس ملک میں غریب بدحال ہے، ادویات کی قیمتوں میں 500 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے، بے روزگاری اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور ہمارے حکمران دعویٰ کررہے ہیں کہ ہمارے یہاں فی کس آمدنی 1600 ڈالر کو پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں بلدیاتی نظام پر پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی نیک نیتی سامنے نظر آرہی ہے اور مزید آنے والے وفد نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ جو بھی مثبت اور عوامی مفاد میں تجاویز آئیں گی انہیں وہ ضرور غور کرکے بل کا حصہ بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وفد سے جماعت اسلامی کے حوالے سے بھی کہا ہے کہ ہماری ماں بہنیں اور بھائی کئی روز سے احتجاج کررہے ہیں اس حوالے سے بھی ان سے بات چیت کی جائے، جس پر انہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس سلسلے میں ان سے مزاکرات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ یہاں بلدیاتی قانون کی آڑ میں ہورہا ہے، وہ دراصل منی بجٹ اور مہنگائی سمیت دیگر عوامی اشیوز سے توجہ ہٹانے کے لئے ہورہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ قانون میں بہتری کی گنجائش موجود ہے جنرل مشرف کا ایکٹ نافذ کرنا ممکن نہیں ہے آمرانہ طرز پر چلنا مناسب نہیں ہے۔ہے۔اس وقت سب سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ہم نے اے پی سی کی تجاویز سندھ حکومت کو دی ہے۔سندھ حکومت نے کہا ہے کہ بات ہوسکتی ہے بہتری کی گنجائش ہوتی ہیں۔