مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

سعودی عرب امریکہ کے لئے دودھیا گائے تو امارات دودھیہ بکری ہے، انصاراللہ

شیعہ نیوز : یمن کی عوامی اور مزاحمتی تحریک انصاراللہ کے سیکریٹری جنرل نے یمن کے انقلاب کی سالگرہ کے حوالے سے یمنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے یمن کے معاملات میں امریکہ کی بڑھتی مداخلت پر کڑی نکتہ چینی کی۔

المسیرہ کی رپورٹ کے مطابق سید عبدالملک الحوثی نے 21 ستمبر 2014 میں یمن میں عوامی انقلاب کے حوالے سے اپنے خطاب میں کہا کہ اس انقلاب کا مقصد یمن کی آزادی و استقلال تھا۔

انہوں نے آزادی اور خود مختاری کو انقلاب کا اعلیٰ ترین ہدف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان اہداف سے قبل یمنی عوام استعمار کی سازشوں اور پسماندگی میں گھر کر زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔

انصاراللہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے خطاب میں یمن کے اندر بڑھتی امریکی مداخلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام اس خیال میں تھے کہ یمن کے عوام امریکی مداخلتوں اور اپنی آزادی اور خود مختاری کا دفاع نہیں کر سکیں گے۔

عبدالملک الحوثی نے کہا کہ اگر سعودی عرب، امریکہ کے لئے دودھ دینے والی گائے ہے تو متحدہ عرب امارات اس کے لئے دودھ دینے والی بکری ہے، سعودی عرب، امارات اور بحرین کے تمام اقدامات نہ صرف امریکہ و اسرائیل کے مفاد میں ہیں بلکہ خود ان کیلئے بھی سیاسی اور اسٹریٹیجک غلطی ہیں۔

سید عبدالملک الحوثی نے سعودی و اماراتی حکومتوں کو ’’احمق‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ ممالک یمن پر جارحیت کا مکمل خرچ برداشت کریں جبکہ تمام کے تمام اقدامات امریکی مفاد کے لئے اٹھائے جائیں۔

انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب، امارات، بحرینی آل خلیفہ اور سوڈان کے تمام کے تمام اقدامات نہ صرف امریکہ و اسرائیل کے فائدے میں ہیں بلکہ خود ان کے لئے دنیا و آخرت میں بُرے انجام کے حامل بھی ہیں۔

سید عبدالملک الحوثی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ وہ (اسرائیل دوستی کے) اس گھناؤنے اقدام کو ’’صلح‘‘ کا عنوان دیتے ہیں، گویا کہ بحرینی عوام پر ظلم و ستم روا رکھنے والی آل خلیفہ کی حکومت نے اسرائیلی چوکیوں کے خلاف شدید کارروائی شروع کر رکھی تھی یا وہ قدس کی جنگِ آزادی میں شریک تھی اور گویا کہ امتِ مسلمہ کے خلاف نت نئی سازشیں کرنے والی اماراتی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ شدید جنگ چھیڑ رکھی تھی اور اب ٹرمپ نے مداخلت کرتے ہوئے صورتحال کو پر امن بنا دیاہے۔

انہوں نے اپنی گفتگو میں سوال اٹھایا کہ کیا وائٹ ہاؤس کے اندر بیٹھ کر (اسرائیل کے ساتھ) دوستی معاہدوں پر دستخط کرنے والوں نے خود سے پوچھا ہے کہ کیا انہوں نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر ’’اسرائیل کو صلح پر مجبور‘‘ کیا ہے؟ درحالیکہ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طاقت ان معاہدوں کی موجب بنی ہے۔

انصاراللہ یمن کے سربراہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ (غاصب صیہونی دشمن کے ساتھ) دوستی کے حامی ممالک دو عرب و مسلمان ممالک کے درمیان اتحاد کو جرم اور حرام سمجھتے ہیں، درحالیکہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد ایک (دینی) فریضہ ہے جبکہ انصاراللہ اور مزاحمتی محاذ، امریکی استکبار اور اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں واحد موقف کی حامل متحدہ امتِ مسلمہ کے اٹھ کھڑے ہونے کو (دینی و اخلاقی) وظیفہ سمجھتے ہیں۔

انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں جارح سعودی فوجی اتحاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے گذشتہ 2,000 روز سے مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے درحالیکہ ہم نہ صرف مزید 2,000 روز کے لئے بھی مزاحمت کرنے کو تیار ہیں بلکہ اس کے بعد کے دو ہزار روز اور اس کے بعد کے دو ہزار روز کے لئے بھی مکمل طور پر تیار ہیں اور اپنے خون کے آخری قطرے تک مزاحمت جاری رکھیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button