
سعودی عرب کے دروازے اسرائیلی شہریوں کے لئے کھل گئے
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) اسرائیل نے کاروباری مقاصد کے لیے اپنے شہریوں کو سرکاری طور پر سعودی عرب جانے کی اجازت دے دی ہے۔
اسرائیلی وزیر داخلہ الریح دیری نے اتوار کو پہلی مرتبہ سعودی عرب جانے کے لیے حکم نامے پر دستخط کردیے ہیں۔ جس کے تحت اسرائیلی شہری سعودی عرب کا کاروباری اور مذہبی جگہوں کا دورہ بھی کرسکیں گے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل اپنے شہریوں کو بھی کاروباری اجلاسوں میں شرکت یا سرمایہ کاری کے مقاصد کے لیے نوّے روز تک سعودی عرب میں جانے کی اجازت دے گا۔
تاہم وزارت داخلہ نے وضاحت کی ہے تجارتی ویزے پر سفر کرنے والوں کے پاس سعودی عرب میں داخلے کے لیے وہاں کے کسی سرکاری ذریعے کا جاری کردہ دعوت نامہ ہونا چاہیے۔
وزیر داخلہ آریے دیری کے دفتر کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس دعوت نامے میں کسی بھی اسرائیلی بزنس مین یا سرمایہ کار کے لیے سعودی عرب میں اس کے آئندہ میزبان کی طرف سے یہ بھی لکھا ہونا چاہیے کہ میزبان نے اپنے ایسے کسی بھی اسرائیلی مہمان کی آمد اور اس کے لیے سعودی عرب میں انٹری ویزا سے متعلق تمام انتظامات کر لیے ہیں۔
صیہونی اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیلی حکومت کا آج کا یہ نیا اقدام اس بتدریج مکمل کیے جا رہے عمل کا حصہ ہے، جس کا حتمی مقصد اسرائیل اور خلیج کی عرب ریاستوں کے مابین معمول کے باہمی تعلقات کا قیام ہے۔
میڈیا رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب دونوں کا ہی مشترکہ مفاد اس بات میں ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران اور ایران کے ذریعے ممکنہ شیعہ مسلم اثرورسوخ کا راستہ روکا جائے۔ اب تک اسرائیل کے صرف عرب مسلم شہریوں کو ہی یہ اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اگر حج یا عمرے جیسے مسلم مذہبی فرائض پورا کرنا چاہیں، تو وہ سعودی عرب کا سفر کر سکتے ہیں۔
اسرائیل میں 1954ء میں منظور کیا جانے والا ایک قانون ایسا بھی ہے، جو اسرائیلی شہریوں کو متعدد عرب اور مسلم ریاستوں کا سفر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
تل ابیب سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق آج تک جن اسرائیلی کاروباری شخصیات نے سعودی عرب کے دورے کیے ہیں، جو کہ اب ایک مسلسل زیادہ ہوتا ہوا عمل بن چکا ہے، انہوں نے زیادہ تر ایسا خفیہ طور پر ہی کیا ہے۔
دنیا کے بہت سے دیگر مسلمان ممالک کی طرح اب تک متعدد عرب ریاستوں نے بھی نہ تو اسرائیل کے ریاستی وجود کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیا ہے اور نہ ہی ان کے اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات ہیں۔
اب تک صرف دو عرب ممالک ایسے ہیں، جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ امن معاہدے طے کر رکھے ہیں۔ یہ ممالک مصر اور اردن ہیں، جن کے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ امن معاہدے بالترتیب 1979ء اور 1994ء میں طے پائے تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل شام میں انتشار کے معاملے پہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب آئے اور سابق وزیر شہزادہ بندر بن سلطان کے ذریعے سعودی عرب اسرائیل روابط میں تیزی آئی جبکہ شاہ سلمان کے دور بادشاہت بالخصوص شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد نامزد ہونے کے بعد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان غیر اعلانیہ تعاون شروع ہوا، جس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور سعودی عرب و اسرائیل کے درمیان تعاون اور تعلقات کی ایک بڑی وجہ خطے میں ایران کے بڑھتے کردار کو روکنے کی ناکام خواہش ہے۔
سعودی اور اسرائیلی حکام کے مابین در پردہ ہونے والی ملاقاتوں سے پردہ اٹھنے کے بعد اب دونوں ممالک کے حکام نے عوامی سطح پر دوروں اور سفر کی اجازت بھی دیدی ہے۔