سعودی عرب کو یمن میں اپنی شکست تسلیم کر لینا چاہیئے، امریکی اسٹراٹفور
شیعہ نیوز : امریکی ریاست ٹیکساس کے اندر سال 1996ء میں وجود میں آنے والے تحقیقاتی ادارے اسٹراٹفور (Stratfor) نے یمن پر مسلط کردہ 5 سالہ سعودی جنگ کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سعودی حکومت کے لئے حاصل شدہ چند ایک کامیابیوں کو کھوئے بغیر اس جنگ سے باہر نکلنے کی فرصت تقریبا ختم ہوتی جا رہی ہے جبکہ کسی ’’معین شدہ ابتدائی ہدف‘‘ کے حصول کے بغیر دی گئی ہلاکتوں کی ایک بڑی تعداد اور آسمان کو چھوتے اخراجات؛ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب امریکہ کے اندر نئی آنے والی حکومت سعودی ولی عہد کی سیاست کے ساتھ سازگار نہیں، ان سب حقائق نے مل کر ریاض کے لئے شکست تسلیم کرتے ہوئے یمنی جنگ سے باہر نکل جانے کو ناگزیر بنا دیا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک کے مطابق ریاض نہ صرف حوثیوں کو صنعاء سے باہر نکال کر وہاں منصور ہادی کو بٹھانے میں بری طرح ناکام ہوا ہے بلکہ اس نے اپنی فورسز اور فوجی سازوسامان کے حوالے سے بھی شدید نقصان اٹھانے کے ساتھ ساتھ ڈیموکریٹس اور امریکی کانگریس کا غضب بھی کما لیا ہے جو ریاض کو حاصل واشنگٹن کی حمایت ختم کرنے کے لئے بارہا ووٹ ڈال چکے ہیں جبکہ اسی دوران سعودی حکومت نے خطے کے اندر اپنی حمایت بھی کھو ڈالی ہے درحالیکہ کہ متحدہ عرب امارات سمیت یمنی جنگ میں شریک کئی ایک سعودی اتحادیوں نے خود کو یمن سے باہر نکال لیا ہے۔ اسٹراٹفور کا لکھنا ہے کہ تعز، مآرب اور الحدیدہ کے محاذ جنگ پر سعودی اتحاد کی پیشقدمی نہ ہونے کے برابر رہی ہے درحالیکہ حوثیوں کی جانب سے کی جانے والی حالیہ پیشقدمی نے علاقے پر تسلط برقرار رکھنے کے حوالے سے سعودی اتحاد کا کام تمام کر کے رکھ دیا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک کا لکھنا ہے کہ سعودی فوجی اتحاد کا کسی بھی دوسری چیز سے بڑھ کر ہوائی حملوں اور یمن کے سرحدی محاصرے پر تکیہ ہے جس کی قیمت غیر فوجی شہری ادا کر رہے ہیں جبکہ ہونے والی بمباری سے اس ملک کے غریب ترین باسیوں کی خوراک اور ایندھن کے رستے کٹنے کے علاوہ کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا۔
رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں براجمان ہو جانے کے بعد سعودی حکومت اور امریکہ کے باہمی تعلقات خراب ہو جائیں گے جس کے باعث ریاض واشنگٹن کے شدید دباؤ میں آ جائے گا، مزید برآں یہ کہ اس بات کی توقع بھی بالکل نہیں کہ جو بائیڈن سعودی حکومت کو ملنے والی امریکی امداد کے کانگریس کی جانب سے کاٹ دیئے جانے کو روک پائے بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب وہ خود بھی قبل ازیں یمن میں سعودی عرب کی فوجی مداخلت کی بارہا مذمت کر چکا ہے۔
اسٹراٹفور کا لکھنا ہے کہ درحقیقت 20 جنوری کے روز، بائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں داخل ہو جانے کے بعد اس کی حکومت یمنی جنگ میں اپنی مشارکت کو انتہائی تیزی کے ساتھ کم کر دے گی جس کے باعث سعودی حکومت ہوائی و زمینی حملوں میں ملنے والی امریکہ کی لاجسٹک و انٹیلیجنس امداد سے ہاتھ دھو بیٹھے گی جبکہ ریاض ٹرمپ حکومت کی سالہا سال سے جاری بےدریغ امداد کے بعد اٹھائے جانے والے اس فیصلے کو اپنے اوپر ’’یمنی جنگ سے باہر نکلنے کے لئے امریکی سفارتی دباؤ ‘‘ کا آغاز قرار دیتے ہوئے اپنے عالمی روابط میں تنوع پیدا کرنے کا فیصلہ کر لے گا۔ اس تھنک ٹینک کے مطابق اسی طرح سعودی حکام ایران کے حوالے سے جوبائیڈن کے رویے، اس کے دوبارہ سے ایرانی جوہری معاہدے میں شامل ہو جانے اور سعودی عرب میں انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزیوں کے حوالے سے بائیڈن کے رویے پر بھی انتہائی پریشان ہیں خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب جمال خاشگی کے بہیمانہ قتل کے حوالے سے جوبائیڈن نے قبل ازیں واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ سعودی عرب کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جانا چاہیئے۔
اسٹراٹفور نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان استوار دفاعی و اقتصادی تعلقات "بنیادی” نوعیت کے ہیں جبکہ عالمی بازار میں تیل کی گرتی قیمتوں اور امریکہ میں راک آئل نکالنے میں تیزی کے باعث سعودی تیل کی ضرورت میں کمی واشنگٹن کو اس کام میں مدد فراہم کرے گی کہ وہ سعودی حکومت کے حوالے سے متعدد دوسرے اختیارات کے بارے بھی سوچنا شروع کر دے۔ رپورٹ کے مطابق حوثی اس کوشش میں ہیں کہ سعودی حکومت پر زیادہ سے زیادہ بالادستی حاصل کر لیں اور آئندہ ہونے والے ممکنہ مذاکرات کے پیش نظر اپنی اس بالادستی کو زیادہ سے زیادہ علاقوں پر اپنا کنٹرول بحال کر کے زیادہ سے زیادہ موثر بنا لیں۔
امریکی تھنک ٹینک کا لکھنا ہے کہ حوثیوں کو یقین حاصل ہے کہ وہ محاذ جنگ پر ایک کمزور دشمن کے ساتھ روبرو ہیں لہٰذا سعودی حکومت پر یمنی جنگ سے باہر نکلنے کے حوالے سے امریکی دباؤ پڑنے کے ساتھ ہی لگتا ایسا ہے کہ ریاض (ممکنہ مذاکرات میں) حوثیوں کو پوری مراعات دینے پر مجبور ہو جائے گا درحالیکہ ٹرمپ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ حوثیوں کو دہشت گرد قرار دے ڈالے جبکہ اس کام کے بعد ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا معاہدہ کرنے کی ریاض کی صلاحیت بھی ختم ہو جائے گی اور امکان اس بات کا ہے کہ حوثیوں کی جانب سے بھی کسی بھی قسم کے مذاکرات کے آغاز میں ’’دہشت گردی کی فہرست سے ان کے نام کے نکالے جانے‘‘ کی شرط عائد کر دی جائے گی۔