مقالہ جات

شام میں سعودی عرب کی منصوبہ بندی

 

تحریر: ہدیٰ یوسفی

بشار الاسد کے زوال اور دمشق میں تحریر الشام کے اقتدار نے شام کو علاقائی اور بین الاقومی کھلاڑیوں کے درمیان ایک جغرافیائی سیاسی شطرنج میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس صورت حال میں سعودی عرب کا کردار دو متضاد قطبوں کے درمیان ڈانواں ڈول ہے۔ سعودی عرب ایک طرف بڑی احتیاط سے دمشق کی نئی حکومت کے قریب پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ تحریر الشام کی حکمت عملی اور سمتیں ابھی تک ابہام میں گھری ہوئی ہیں۔ دوسری طرف اسے خدشہ ہے کہ اس کی خاموشی یا بے عملی سے شام میں طاقت کا خلا پیدا ہو جائے گا، جسے ترکی، ایران، قطر اور اسرائیل جیسے حریف بہت جلد پُر کرلیں گے۔ یہ تضاد بشار الاسد کے بعد کے شام میں ریاض کے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔

اس تناظر میں، سعودی عرب شام کے معاملات میں رہنے، تبدیلیوں پر نظر رکھنے اور شام کے مستقبل کی مساوات میں خود کو ایک ناگزیر کھلاڑی کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا ریاض دمشق حکومت کے ساتھ مل کر بالواسطہ طور پر اپنے حریفوں کو مضبوط کرنے سے روک سکتا ہے۔؟ اس میدان کو عبور کرنے کے لئے آل سعود کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ قدم قدم پر بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں۔ آج شام میں ایک کثیر الجہتی منظرنامہ ہے، جس میں ہر کھلاڑی اپنے اپنے ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے طاقت کے ایک حصے پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس میدان میں سعودی عرب بیک وقت کئی محاذوں پر سرگرم عمل رہنے پر مجبور ہے۔

انقرہ نے سیریئن نیشنل آرمی (SNA) کی حمایت سے نہ صرف شمالی شام کے اہم علاقوں بشمول عفرین، حلب اور فرات شیلڈ پر کنٹرول حاصل کرکے اپنی سرحدوں پر ایک بفر زون بنا لیا ہے بلکہ اپنی پراکسیوں کے ذریعے شام کے جغرافیہ کے قلب تک اپنا اثر و رسوخ بڑھا دیا ہے۔ اس حکمت عملی نے شمال میں طاقت کا توازن ترکی کے حق میں تبدیل کر دیا ہے۔ مشرقی شام میں سعودی عرب کی موجودگی شام کے علاقوں خاص طور پر دیر الزور اور رقہ کے عرب آبادی والے علاقوں میں اس کے اثر و نفوذ میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ ریاض اچھی طرح جانتا ہے کہ شام کا ہر مربع میٹر علاقہ جو ترکی کے جھنڈے کے نیچے آرہا ہے، اس میں سعودی عرب کا روایتی اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے۔

اسرائیل اور اس کی توسیع پسندانہ کوششیں بھی سعودی بادشاہت کے خدشات میں شامل ہیں۔ شامی ٹھکانوں پر اسرائیل کے بار بار فضائی حملوں نے دمشق کے 70 سے 80 فیصد دفاع کو تباہ کر دیا ہے۔ ادھر گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ اور اس علاقے میں صیہونی آباد کاروں کی تعداد میں اضافہ تل ابیب کی سلامتی اور توسیع پسندانہ اہداف کی تکمیل کا ایک اہم عنصر بن چکا ہے۔ سعودی عرب کے لیے، ان اقدامات کا مطلب شام کی سرحدوں پر تنازعات کے خاتمے کے خطرے کو بڑھانا اور مزاحمتی بیانئیے کو تقویت دینا ہے۔ سعودی عرب، ایران اور قطر کو بھی اپنے حریف کے طور پر دیکھتا ہے۔

سعودی عرب کی حکمت عملی، اقتصادیات اور سفارتکاری کا امتزاج
ریاض نے اس صورت حال میں اقتصادی، قبائلی اور سلامتی پر مبنی سہ جہتی حکمت عملی اپنائی ہے۔ سعودی عرب معیشت کو نرم ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 12 سال کی خانہ جنگی نے شام کو ایک ایسے ملک میں تبدیل کر دیا ہے، جسے بڑے پیمانے پر مالی حمایت کی ضرورت ہے۔ اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ریاض نے تعمیر نو میں حصہ لینے کے فراخدلانہ وعدوں کو دمشق میں عبوری حکومت کا تعاون حاصل کرنے کے لیے ایک آلے میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس حکمت عملی کے دو اہم فوائد ہیں: پہلا یہ کہ ریاض تعمیر نو کے عمل میں ایک ناگزیر کھلاڑی بننا چاہتا ہے اور دوسرا یہ کہ شام کی دہشت گرد حکومت کی بین الاقوامی قانونی حیثیت کو اپنے مفادات سے منسلک کرنا چاہتا ہے۔

دوسری طرف، شام کے مشرقی علاقوں میں خاص طور پر دیر الزور، حسکہ اور رقہ میں عرب قبائل اس مساوات میں اہم کھلاڑی بن گئے ہیں۔ ان قبائل کے رہنماؤں سے براہ راست رابطہ قائم کرکے اور مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کرکے ان علاقوں میں سعودی عرب غیر رسمی ہی سہی لیکن طاقتور اثر و رسوخ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سعودی عرب کی سکیورٹی ڈپلومیسی ایک مضبوط راستے پر چل رہی ہے۔ ایک طرف، ریاض شام میں ایک جامع عبوری قومی حکومت کے قیام کی حمایت کرتا ہے، جو کردوں کے مسئلے کو پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرے اور دوسری طرف، وہ بالواسطہ طور پر ترکی اور ایرانی اثر و رسوخ کے مخالف گروہوں کی حمایت کرتا ہے۔ یہ دوہری سفارت کاری شام میں "طاقت کا کنٹرول شدہ توازن” بنانے کے لیے ریاض کی کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔ ایسا توازن جو کسی بھی مدمقابل کو مکمل برتری حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

ان تمام کوششوں اور منصوبوں کے باوجود، سعودی عرب کو اپنے راستے میں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے، جو ساختی نوعیت کی ہیں۔ شام کی عبوری جولانی حکومت کے ساتھ قلیل مدتی روابط سفارتی ہتھکنڈوں کی گنجائش پیدا کرسکتے ہیں، لیکن طویل مدت کے لئے اس حکومت کو مضبوط کرنا مستقبل میں ریاض کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن سکتا ہے۔ میڈیا اور لابیز کی بدولت قطر، ریاض کے لیے ایک قسم کی پراکسی وار ہے۔ اگرچہ ریاض کو خلیج تعاون کونسل میں اعلیٰ سیاسی اور اقتصادی حمایت حاصل ہے، لیکن قطر الجزیرہ جیسے بین الاقوامی میڈیا کا استعمال کرکے اور سول سوسائٹی کے اداروں میں سرمایہ کاری کرکے شام میں ہونے والی پیش رفت میں اپنے بیانیے کو غالب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

نتیجہ
بشار الاسد کے بعد کے شام میں سعودی عرب کو ایک ایسے کھلاڑی کی طرح عمل کرنا ہے، جو ایک ساتھ کئی محاذوں پر مقابلے کرسکے۔ ایک طرف اسے شام کی تعمیر نو کے ایک ناگزیر حامی کے طور پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے دمشق کی نئی حکومت کا ساتھ دینا ہوگا اور دوسری طرف شمال پر غلبہ حاصل کرنے کی ترکیہ کی کوششوں، گولان میں اسرائیل کی توسیع پسندی اور قطر کے ممکنہ کردار پر وہ آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔ ریاض کی قبائلی اثر و رسوخ اور سکیورٹی ڈپلومیسی کی موجودہ حکمت عملی شام کے مخصوص بحران کی وجہ سے سو فیصد کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button