سعودی بادشاہت کے تکبر کی ناک یمن کی خاک پہ رگڑی جا رہی ہے، ناصر شیرازی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی کا سعودی یمن تنازع پر انٹرویو پیش خدمت ہے۔
سوال: سعودی عرب نے دولت اور طاقت کے بل بوتے پہ یمن پر جو جنگ مسلط کی، اس میں سعودی اہداف کیا تھے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔ حرمین شریفین بھی سعودی عرب میں ہیں، عمرہ، حج کی وجہ سے سعودی عرب کو کافی آمدن ہوتی ہے۔ بلیک گولڈ یعنی کہ تیل کی سب سے زیادہ پیداوار اسی ملک کی ہے، جس کے باعث دنیا میں پیسے کے اعتبار سے جو سب سے زیادہ مضبوط بادشاہت تھی تو وہ سعودی عرب تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیاروں کا خریدار ملک بھی ہے۔ سعودی عرب کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ بہت مضبوط اتحاد ہے۔ یمن جنگ میں بھی دونوں کا باقاعدہ اشتراک تھا۔
یمن دنیا کا اور خطے کا غریب ترین ملک ہے۔ پہلے یمن دو حصوں میں تقسیم تھا۔ پھر دونوں حصے اکھٹا ہوئے۔ شمالی یمن اور جنوبی یمن۔ ایک حصہ اس کا صحراوں پہ مشتمل ہے۔ دنیا میں القاعدہ عراق کے بعد القاعدہ یمن خطرناک ترین برانچ سمجھی جاتی تھی۔ یمن کے اندر جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، ان میں حوثی ایک باقاعدہ عوامی جمہوری سسٹم کے خواہش مند تھے، جبکہ ہادی المنصور جسے اس شرط پہ حکومت سونپی گئی تھی کہ وہ دو سال کے اندر انتخابات کرائے گا اور اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کرے گا۔ منصور ہادی نے یہ نہیں کیا اور اپنی حکومت کو دوام دینے کی کوشش کی۔ جس پہ حکومت کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوئے۔ جنہیں بزور طاقت دبانے کی کوشش کی گئی، مگر منصور ہادی حکومت عوام کو دبانے میں ناکام رہی۔ عوامی مظاہروں پہ منصور ہادی بھاگ کر سعودی عرب چلا گیا اور سعودی عرب نے منصور ہادی حکومت کے قیام کیلئے یمن پہ جنگ مسلط کر دی۔ یمن میں حوثی بنیادی طور پہ اہلسنت کے ساتھ اتحاد رکھتے ہیں۔شافعی اور حوثی یمن کی ساٹھ فیصد آباد ی کی نمائندگی رکھتے ہیں۔
یمن جنگ میں صرف سعودی عرب کو شکست نہیں ہوئی ہے بلکہ جو سولہ رکنی اتحاد ہے، امریکہ اس اتحاد کا حصہ ہے، ان کی فیولنگ وغیرہ امریکہ ہی کرتا ہے، ملٹری ایڈوائزر امریکی ہیں، یہ سب بدترین شکست کا شکار ہوئے ہیں، خطے کے اندر امریکہ جو اہداف اپنے غیر مسلم چہرے کی وجہ سے حاصل نہیں کر سکتا، وہ تمام اہداف امریکہ سعودی عرب کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔
ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ اگر جمہوری طریقہ بھی اپنایا جائے تو انہی کی حکومت بنے گی۔ فوج کی اکثریت بھی ان کے ساتھ تھی۔ سعودی عرب جو کہ پہلے سے ہی یمن پہ اپنے اثر اور حاکمیت کو خطرے میں دیکھ رہا تھا۔ اس نے پہلے سے ہی کئی جنگیں شروع کی ہوئی تھیں۔ سعودی عرب سے ملحقہ یمن کا علاقہ حوثی قبائل کا ہے۔ اس اعلانیہ جنگ سے قبل بھی سعودی عرب نے حوثیوں پہ کئی حملے کئے ہیں، جو کہ کئی کئی ماہ جاری رہے ہیں۔ تاہم سعودی عرب نے دیکھا کہ حوثی یمن میں حکومتی سطح پہ فعال ہو رہے ہیں تو پھر اس کے بعد اعلانیہ جنگ مسلط کر کے سعودی عرب نے بھیانک حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ سعودی عرب نے اس جنگ میں ہدف یہ رکھا کہ تین ماہ کے اندر منصور ہادی حکومت کو دوبارہ قائم کرنا ہے اور یمن میں حوثی کردار کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے اور منصور ہادی حکومت کے ذریعے یمن کو پھر سے اپنے تابع رکھنا ہے۔
سوال: یمن کیخلاف جارحیت کرنیوالے اتحاد کتنے ہیں اور سعودی عرب کو یمن سے اتنی مزاحمت کا اندازہ تھا۔؟
سید ناصر شیرازی: سعودی عرب کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ یمن کے اندر سے مزاحمت اتنی شدید ہو سکتی ہے۔ یمن پہ حملہ آور دو طرح کے اتحاد قائم ہیں۔ ایک سولہ ملکی اتحاد ہے، جس میں بیشتر مغربی ممالک ہیں۔ دوسرا اتحاد چالیس ملکی اتحاد ہے کہ جس میں مسلم ممالک شامل ہیں، اس کو اسلامک الائنس کا نام دیا گیا ہے اور اس کی عسکری کمانڈ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے پاس ہے۔ ان دونوں اتحادوں نے یمن کے حوالے سے ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ انہوں نے یمن پہ کارپٹڈ بمباری کی ہے، یہاں سے اندازہ لگائیں کہ اقوام متحدہ میں یمن میں ہونے والے جانی و مالی نقصان سے متعلق عظیم تباہی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ عصر حاضر میں انسانی ہاتھوں سے جو بھیانک ترین تباہی پھیلی ہے وہ یمن میں آل سعود کے ہاتھوں پھیلی ہے اور عالمی و جنگی قوانین کی جتنی دھجیاں یمن میں اڑائی گئی ہیں بلکہ اڑائی جا رہی رہیں، وہ کہیں اور دیکھائی نہیں دیتیں۔ جمہوریت کے نام نہاد متوالے یہاں جمہوری نظام کے لیے آگے نہیں آتے۔
جنگوں میں جن ہتھیاروں پہ پابندی ہے، ان کا نہ صرف یمن میں استعمال جاری ہے، بلکہ ان غیر قانونی ہتھیاروں کی باقاعدہ خرید و فروخت جاری ہے اور یہ ہتھیار بیچنے والے اور خریدنے والے بھی وہی ممالک ہیں کہ جو ظاہراً ان ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف شور مچاتے ہیں۔ یمن اس وقت بدترین قحط کا شکار ہے، وہاں غذا نہیں ہے، دوا نہیں ہے۔ وہاں زندگی کی بنیادی ضرورت میسر نہیں ہیں۔ بچوں کو غذا اور دوا کی قلت کا اس حد تک سامنا ہے کہ دنیا میں بھوک اور متعددی امراض کے ہاتھوں مرنے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد یمن کے اندر ہے اور یہ سب اس جنگ کی وجہ سے ہے۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ سعودی عرب کو یمن کے اندر اتنی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور ننگے پاؤں پھرنے والے یہ لوگ سعودی عرب کے اندر اس حد تک گھس جائیں گے کہ وہ جنگ جسے تین مہینوں میں سعودی عرب جیتنا چاہتا ہے، کئی سالوں پہ محیط ہو جائے گی اور اس جنگ کے نتیجے میں صورتحال یہ ہوجائے گی کہ یمن کے اندر حوثی مضبوط ترین پوزیشن میں ہوں گے، سیاسی لحاظ سے بھی، عسکری لحاظ سے بھی، یہاں تک کہ نظم اور استحکام کے حوالے
ایران نے مظلوموں کی حمایت کی ہے۔ ان کی اقتصادی، سیاسی حمایت کی ہے اور عین ممکن ہے کہ انہیں تکنیکی تربیتی مدد بھی فراہم کی ہو مگر یہ درست ہے کہ سعودی عرب کو جتنا بھی ردعمل مل رہا ہے وہ یمن کی زمین سے آرہا ہے اور وہ یمنی ہی دے رہے ہیں۔ حوثیوں نے اگر انقلاب اسلامی ایران سے امداد لی بھی ہے تو وہ انہوں نے اپنے خلاف ہونے والی بدترین دہشتگردی اور بدترین جارحیت کے خلاف لی ہے، جو ان کا بنیادی حق ہے اور انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
سے بھی، ان کے علاقے مستحکم اور پرامن ہوں گے۔
سوال: جنگ زدہ یمن میں حوثی مجاہدن کے زیرکنٹرول علاقے اور منصور ہادی کے زیراثر علاقوں کے حالات میں کیا فرق ہے؟
سید ناصر شیرازی: آج حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں استحکام ہے، جبکہ جہاں منصور ہادی یا سعودی اثر زیادہ ہے، یعنی عدن وغیرہ میں امن و امان کی بدترین کیفیت ہے۔ مختلف گروہوں کی وہاں آپس میں مسلسل لڑائی چل رہی ہے۔ تازہ لڑائی جو ابھی وہاں پہ جاری ہے۔ وہ دو گروہوں کے مابین ہے۔ ایک گروہ کو متحدہ عرب امارات سپورٹ کرتا ہے کہ جن کو علیحدگی پسند کہا جاتا ہے، یہ گروہ عدن میں ایک علیحدہ حکومت قائم کرنے کا خواہشمند ہے۔ دوسرا بڑا گروہ منصور ہادی کا ہے، جسے سعودی عرب کنٹرول کر رہا ہے۔ وہ مشترکہ حکومت کا قائل ہے، یہ سعودی گروہ بھی اس لیے مشترکہ حکومت کا قائل ہے، کیونکہ انہیں یہ اندازہ ہے کہ اگر حکومتیں دو ہو گئیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نادرن یمن سو فیصد حوثیوں کے زیر کنٹرول ہے اور سعودی عرب کی سرحد کے اوپر صورتحال مزید خراب رہے گی۔ یہ وہ کیفیت ہے کہ جس میں یمنیوں نے ایک بڑی جنگ لڑی ہے۔ یمن کی مزاحمت میں موجود لوگوں کا واحد راستہ جو سمندر سے انہیں ملاتا ہے وہ حدیدہ کا ہے۔ اس اتنے بڑے پورے اتحاد نے کوئی تین مرتبہ یہاں جنگ کرنے اور اسے اپنے زیر کنٹرول کرنے کی کوشش کی، مگر انہیں منہ کی کھانا پڑی اور حوثیوں نے انہیں ایک انچ بھی اندر داخل نہیں ہونے دیا زمین، فضائی اور بری تینوں لحاظ سے یہ بڑے حملے تھے اور اس پورے خطے میں اس طرح کا اتنا بڑا حملہ پہلے کبھی نہیں ہوا ہے مگر اس کے باوجود حوثیوں کو کامیابی ملی جبکہ حملہ آور اتحاد کو منہ کی کھانا پڑی۔
سوال: سعودی اتحاد کیخلاف برسرپیکار حوثیوں کے عزم و ارادے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکی مزاحمت کامیاب رہیگی؟
سید ناصر شیرازی: عبدالمالک الحوثی نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ لوگ ہمیں تکبر سے ڈرانا چاہتے ہیں، ہمیں دبانا چاہتے ہیں، مگر یہ لوگ ہمیں شعب ابی طالب میں بھی نہیں دبا سکے تھے اور اگر یہ لوگ ہمیں اپنی طاقت سے ڈرانا چاہتے ہیں اور طاقت سے دبانا چاہتے ہیں تو یہ لوگ ہمیں کربلا میں بھی اپنی طاقت سے نہیں دبا سکے تھے۔ حوثیوں نے نہ صرف سعودی اتحاد سے اپنے علاقے، اپنی زمین کو بچایا ہے، وہاں استحکام رکھا ہے، انہوں نے سعودی عرب کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں کی وجہ سے اسے کٹہرے میں بھی کھڑا کیا ہے اور ساتھ اپنی جنگی استعداد کا بھی بھرپور اظہار کیا ہے اور یہ اظہار بھی سعودی عرب کے اندر اس کے حساس مقامات پہ کیا ہے۔ حوثیوں نے جو کہا، وہ کرکے دیکھایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ائیرپورٹس کو نشانہ بنائیں گے وہ انہوں نے کرکے دیکھایا۔ حوثیوں نے اعلان کیا کہ آپ نے جو کرائے کے قاتل بلائے ہوئے ہیں، ہم انہیں نشانہ بنائیں گے، انہوں نے یہ بھی کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سعودی اتحاد نے یمن پہ حملوں اور جارحیت کا سلسلہ بند نہ کیا تو وہ بڑی جوابی کارروائی کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کر دیکھایا۔ حوثیوں کے ایک حملے کے نتیجے میں سعودی عرب کی پچاس فیصد تیل کی پیداوار رک گئی۔ اس ایک جوابی کارروائی کے نتیجے میں دنیا میں تیل کی قیمتوں میں بدلاو آیا اور ایک ہی دن میں دنیا کو سپلائی ہونے والے تیل میں
یمنی ایران کی رہبریت، ایران کی لیڈر شپ اور عالمی استعمار کے مقابلے میں ایران کے قیام سے متاثر ہیں اور نظریاتی طور پر وہ ایران کے بہت قریب آچکے ہیں۔ جب نظریاتی تعلق قائم ہو جائے تو پھر باقی چیزیں کافی آسان ہو جاتی ہیں۔ اب تو حوثیوں نے سعودی عرب سے اتنا اسلحہ اور جنگی ساز و سامان حاصل کر لیا ہے کہ وہ کئی سالوں تک لڑنے کی پوزیشن میں ہیں اور اس کیلے وہ تیار بھی ہیں۔
بیس فیصد کمی واقع ہو گئی۔
یہ اس ایک بڑی جوابی کارروائی کا نتیجہ تھا کہ جس کے بارے میں حوثیوں نے پہلے ہی اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے یہ بھی دیکھایا کہ وہ زمینی سطح پہ بھی اتنے طاقتور ہیں کہ حملہ آور فوج کے خلاف بھرپور کارروائی کرسکتے ہیں۔ ابھی تازہ کارروائی کی ویڈیوز جاری ہو چکی ہیں۔ جس میں حوثیوں نے دنیا کے مختلف ممالک سے بلائے گئے کرائے کے قاتلوں کے علاوہ بڑی تعداد سعودی فوجیوں کو گرفتار کیا ہے اور بڑی تعداد سعودی قیمتی گاڑیوں کی ہے جو تباہ ہوئے ہیں۔ حملہ آور اتحاد کے تین بریگیڈ کم از کم تباہ ہوئے ہیں۔ فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جو بیلنس آف پاور ہے وہ اس وقت یمنیوں کے ہاتھ میں ہے، کیونکہ حوثیوں کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ سعودی عرب جو کہ سیاحت کو فروغ دینا چاہتا ہے، مذہبی اثر سے نکال کر آزاد ملک بنانا چاہتا ہے۔ اسے اس وقت نہ ہی مذہبی حلقوں کی پذیرائی حاصل ہے اور خاشقجی قتل کے بعد اور یمن بحرانوں کے بعد نہ ہی اسے آزاد دنیا سے تائید و حمایت مل رہی ہے، داخلی سطح پہ شاہی خاندان کے ناروا سلوک اور مذہبی طبقے کو سائیڈ لائن کرنے کی وجہ سے، اہل تشیع کے ساتھ بدسلوکی کے باعث سعودی حکومت داخلی و خارجی سطح مسلسل تنہائی کی جانب گامزن ہے۔ سعودی حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ یمنیوں کی اس جاری مزاحمت کے مقابلے میں کھڑی ہو سکے۔
سوال: متحدہ عرب امارات دوران جنگ سعودی عرب کا ساتھ کیوں چھوڑ رہا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: یمنی اس جنگ میں اس حد تک ثابت قدم رہے ہیں کہ سعودی عرب کے حلیف اسے دوران جنگ ہی چھوڑنا شروع ہو گئے ہیں، اسی وجہ سے متحدہ عرب امارات نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ہے۔ یو اے ای کو بھی یہ خبر ہو چکی ہے کہ اگر ان کے ملک میں بھی یمنیوں نے اس طرز کی کوئی کارروائی کر دی کہ جیسی انہوں نے سعودی عب میں انجام دیں ہیں تو انہیں شدید مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یو اے ای کو اندازہ ہے کہ ان کے ملک میں جو یورپی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے افراد کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے، ایک واقعہ کے بعد ہی سب کے سب واپس چلے جائیں گے، کیونکہ اگر امن نہیں ہو گا تو یہاں کوئی نہیں رہیگا۔ یواے ای اس وقت پیچھے ہٹ چکا ہے۔ عدن کے اندر دونوں گروہوں کے مابین تصادم ہے اور الائنس میں سعودی عرب اور یواے ای کے مابین بھی تصادم ہے۔ یمن جغرافیائی لحاظ سے بہت اہم ہے۔ دنیا کے پینسٹھ فیصد آئل کا راستہ یہی ہے۔ سب سے بڑی تجارتی گزرگاہ ہے۔ یورپ اور ایشیا کے مابین مختصر ترین راستہ ہے۔ یمن میں حوثی حکومت کا مطلب اس اہم ترین راستے پہ ان کا تصرف ہے، جو سٹریٹجک حوالے سے بہت اہم ہے۔
عالمی طاقتوں کے اس جنگ میں مفادات ہیں۔ آرامکو پہ جو حملہ حوثیوں نے کیا ہے، بحرین میں موجود امریکی بحری بیڑا اس سے محض پچاس کلومیٹر دور ہے۔ یہ ایک واضح اور کھلا پیغام اس بیڑے کو بھی ہے کیونکہ وہ بیڑا اس حملے کی نشاندہی کرنے میں یا اسے روکنے میں ناکام ہوا ہے۔ اس سے پہلے جو حملے سعودی عرب میں کئے گئے تھے، جن میں ایک بیلسٹک میزائل حملہ اور دوسرا ڈرون اٹیک، وہ عرب امارات سے تقریباً ایک سو کلومیٹر دور تھا۔ گویا یہ واضح اور کھلا پیغام یو اے ای کیلئے بھی تھا کہ ایک سو کلومیٹر مزید آگے جانا تو کوئی بڑی بات نہیں
عصر حاضر میں انسانی ہاتھوں سے جو بھیانک ترین تباہی پھیلی ہے وہ یمن میں آل سعود کے ہاتھوں پھیلی ہے اور عالمی و جنگی قوانین کی سب سے زیادہ دھجیاں یمن میں اڑائی جا رہی ہیں، یہاں جمہوری نظام کے لیے کوئی آگے نہیں آتا، جنگوں میں جن ہتھیاروں پہ پابندی ہے، ان کا نہ صرف یمن میں استعمال جاری ہے بلکہ ان غیر قانونی ہتھیاروں کی باقاعدہ خرید و فروخت جاری ہے۔
ہے۔ حوثیوں نے یہ اظہار کیا ہے کہ یو اے ای بھی ان کی رینج میں ہے اور اگر یو اے ای نے یہ خیانتیں جاری رکھیں تو حوثی اس کے خلاف بھی بڑا اقدام کریں گے۔ اب دنیا بھی اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ حوثی بڑا اقدام کر بھی سکتے ہیں اور انہوں نے کئے بھی ہیں۔ یمن میں سعودی اتحاد کو بالآخر پیچھے ہٹنا پڑے گا ورنہ سعودی عرب کی اقتصادی صورتحال بری طرح تباہ ہوچکی ہے اور آئندہ کچھ عرصے میں بدترین اقتصادی مشکلات کا شکار ہوجائے گا مگر ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ سعودی بادشاہت کے تکبر کی ناک یمن کی خاک پہ رگڑی جارہی ہے اور آپ اسے عصر حاضر کا معجزہ قرار دے سکتے ہیں۔
سوال: حوثیوں کو ایران کی جانب سے کتنی مدد حاصل ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: ساری صورتحال میں کہا جارہا ہے کہ یمن کے حوثی بنیادی طور پر ایران سپانسرڈ ہیں۔ ایران کے ساتھ ان کا جغرافیائی لنک نہیں ہے اور نہ ہی ان کے لیے آسان ہے کہ سمندری محاصرہ توڑ کر وہ ان تک پہنچے۔ حوثیوں کے پاس زمینی راستے دو ممالک سے ہیں، ایک سعودی عرب سے اور دوسرا عمان سے۔ ظاہر ان دونوں ممالک سے ایران کی حوثیوں تک رسائی انتہائی مشکل ہے۔ ہوائی اڈے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ ایران کے پاس نہ زمینی راستہ ہے اور نہ سمندری کہ حوثیوں تک رسائی حاصل کرے۔ اس صورتحال میں ایران کو اگر یمن میں حوثیوں تک رسائی ملی بھی ہے، تو اس میں بڑی وجہ سعودی عرب کی حماقت ہے اور بدترین ظلم و طاقت کا استعمال ہے کہ جس کے نتیجے میں یمنیوں کا ایران کی جانب جھکاؤ ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یمنی ایران کی رہبریت، ایران کی لیڈر شپ اور عالمی استعمار کے مقابلے میں ایران کے قیام سے متاثر ہیں اور نظریاتی طور پر وہ ایران کے بہت قریب آچکے ہیں۔ جب نظریاتی تعلق قائم ہو جائے تو پھر باقی چیزیں کافی آسان ہو جاتی ہیں۔ اب تو حوثیوں نے سعودی عرب سے اتنا اسلحہ اور جنگی ساز و سامان حاصل کر لیا ہے کہ وہ کئی سالوں تک لڑنے کی پوزیشن میں ہیں اور اس کیلے وہ تیار بھی ہیں۔
سوال: کیا سعودی عرب یمن میں حوثی حقیقت کو تسلیم کرلے گا۔؟
سید ناصر شیرازی: اب سعودی عرب کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ کمپرومائز کی جانب آئے، مذاکرات ہوں اور سعودی عرب طاقت کے استعمال کی حماقتوں سے آئندہ کیلئے باز رہے۔ اگر چہ سعودی عرب کی پوری کوشش ہو گی کہ اس جنگ کے بعد بھی یمن اندرونی عدم استحکام کا شکار رہے۔ البتہ یہ طے ہے کہ آئندہ یمن کے امور میں حوثیوں کا کلیدی و بنیادی کردار ہو گا۔ یہ وہی حوثی ہیں کہ جو الموت امریکہ، الموت اسرائیل کے قائل ہیں۔ جو نظریاتی فکری لحاظ سے انقلاب ایران کے بہت قریب ہیں اور اس سے رہنمائی لیتے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ ہیں اور اس کشیدگی میں سعودی عرب واضح شکست کھا چکا ہے۔ ایران کا اثر و رسوخ اس لحاظ سے خطے میں مسلسل بڑھ رہا ہے کہ ایران نے مظلوموں کی حمایت کی ہے۔ ان کی اقتصادی، سیاسی حمایت کی ہے اور عین ممکن ہے کہ انہیں تکنیکی تربیتی مدد بھی فراہم کی ہو مگر یہ درست ہے کہ سعودی عرب کو جتنا بھی ردعمل مل رہا ہے وہ یمن کی زمین سے آرہا ہے اور وہ یمنی ہی دے رہے ہیں۔ حوثیوں نے اگر انقلاب اسلامی ایران سے امداد لی بھی ہے تو وہ انہوں نے اپنے
حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں استحکام ہے جبکہ جہاں منصور ہادی یا سعودی اثر زیادہ ہے، یعنی عدن وغیرہ میں امن و امان کی بدترین کیفیت ہے، مختلف گروہوں کی وہاں آپس میں مسلسل لڑائی چل رہی ہے۔ تازہ لڑائی دو گروہوں کے مابین ہے، ایک گروہ کو متحدہ عرب امارات سپورٹ کرتا ہے کہ جن کو علیحدگی پسند کہا جاتا ہے، یہ گروہ عدن میں ایک علیحدہ حکومت قائم کرنے کا خواہشمند ہے۔ دوسرا بڑا گروہ منصور ہادی کا ہے، جسے سعودی عرب کنٹرول کر رہا ہے۔
خلاف ہونے والی بدترین دہشتگردی اور بدترین جارحیت کے خلاف لی ہے، جو ان کا بنیادی حق ہے اور انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
سوال: یمن کے تناظر میں ایران کے سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ معاملات کونسی سمت اختیار کریں گے۔؟
سید ناصر شیرازی: ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں جو کشیدگی اور تناؤ تھا وہ اب سعودی عرب کو بالآخر جھکنے پہ مجبور کر رہا ہے۔ جیسا کہ ابھی سعودی عرب نے کہا بھی ہے کہ مذاکرات شروع کئے جائیں تو مذاکرات کیلئے مسئلہ یمن ہی ہے۔ سعودی عرب موجودہ اقتصادی صورتحال کو مزید برقر ار رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسے بہت زیادہ فنڈنگ کرنا پڑ رہی ہے، کرائے کی جو فوج اس نے منگوائی ہوئی ہے، اس پہ بھی اس کو بہت زیادہ اخراجات کرنے پڑ رہے ہیں اور ان کے مطالبات بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ خطرے کی اس بجتی ہوئی گھنٹی اور تیزی سے کم ہوتے اتحادیوں کے باعث سعودی عرب مذاکرات کی راہ تلاش کر رہا ہے۔ سعودی عرب پہ عالمی پریشر بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ جمال خاشقجی والا مسلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ اس کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ وہ بیک چینل ڈپلومیسی کو استعمال کرکے ایران کے ساتھ معاملات کو تھوڑا بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ مکمل طور پر تمام معاملات درست شائد نہ ہوں مگر کم از کم یمن کی حد تک معاملات بہتر ہوں اور آہستہ آہستہ سعودی عرب اس حقیقت کو قبول کر لے کہ یمن کے اندر آئندہ فیصلہ سازی حوثیوں کے ہاتھ میں ہے۔
سعودی عرب، ایران امریکہ تعلقات کا مستقبل بھی یہ ہے کہ اس خطے میں جو یمن جنگ ہوئی ہے۔ اس میں صرف سعودی عرب کو شکست نہیں ہوئی ہے، بلکہ جو سولہ رکنی اتحاد ہے، امریکہ اس اتحاد کا حصہ ہے، ان کی فیولنگ وغیرہ امریکہ ہی کرتا ہے، ملٹری ایڈوائزر امریکی ہیں۔ وہ بدترین شکست کا شکار ہوئے ہیں۔ امریکہ اس خطے کے اندر سعودی عرب کے اوپر کافی انحصار کرتا ہے۔ خطے کے اندر امریکہ جو اہداف اپنے غیر مسلم چہرے کی وجہ سے اسلامی ممالک سے حاصل نہیں کر سکتا، وہ تمام اہداف امریکہ سعودی عرب کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ امریکہ یمن پہ براہ راست حملہ نہیں کر ے گا۔ امریکہ نے عراق اور شام میں جو کام کئے ہیں وہ امریکہ کیلئے بہت مشکل ہیں مگر وہی اہداف، وہی کام اس نے سعودی عرب کے ذریعے انجام دیئے ہیں۔ خواہ وہ داعش کی صورت میں ہو۔ دہشتگردوں کی صورت میں یا کسی اور صورت میں۔ خطے میں امریکی اوزار کا اگر کوئی کام کررہا ہے تو وہ آل سعود ہیں۔
یمن کے تناظر میں جہاں تک ایران امریکہ تعلقات کی بات ہے تو ایران نے بہت کامیابی کے ساتھ سفارتی جنگ بھی جیتی ہے اور عسکری جنگ بھی جیتی ہے۔ عسکری جنگ سے مراد یہ ہے کہ ایران نے ثابت کیا ہے کہ اس کی جنگی استعداد، جدید عسکری ٹیکنالوجی پہ عبور اور اس کا ماہرانہ استعمال، ایران کے مخالفین کے اندازوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ایران نے سیاسی اور عسکری دونوں حوالوں سے اپنی مہارت کا بہت عمدگی کے ساتھ اظہار کیا ہے۔ وہ امریکی ڈرون کہ جو مالیت کے اعتبار سے صرف دو تیار کئے گئے اور ان میں سے ایک کی مالیت ایرانی فوج کے ایک سالہ بجٹ کے برابر ہے، اس ڈرون کو نہ صرف ایران نے بڑی مہارت کے ساتھ پکڑا ہے بلکہ اس کے بعد آنے والے ردعمل کو بھی اپنی صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر استعمال کیا ہے۔