ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ پر سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا رد عمل
ترجمان افواج پاکستان کا کرم و پاراچنار بحران کو محض "قبائلی یا زمینی تنازع" کہہ کر خود کو بری الذمہ قرار دینا زمینی حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے
شیعہ نیوز: سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے ردعمل میں کہا ہے کہ آج میں کرم کے نازک حالات اور فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے اس بیان پر بات کرنے پر مجبور ہوں، جس میں کہا گیا کہ پاراچنار کے بحران کو دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا، یہ دعویٰ نہ صرف گہری تشویش کا باعث ہے بلکہ خطے میں موجود سنگین سلامتی کے چیلنجز اور انسانی مشکلات کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
اگرچہ میں اس بات سے مکمل طور پر متفق ہوں کہ کرم کے تنازع کا حل سیاسی طریقے سے نکالا جانا چاہیے، لیکن سیکیورٹی ادارے اپنی ذمہ داری سے دستبردار نہیں ہو سکتے جو کہ کمزور آبادیوں کی حفاظت ہے، خطے میں فرقہ وارانہ تشدد کی تاریخ، شدت پسند گروہوں اور سرحد پار عناصر کی شمولیت نے سلامتی کے ایسے چیلنجز پیش کیے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، سیکڑوں بے گناہ جانیں ضائع ہوچکی ہیں، جنہیں دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا، اگر کرم میں نشانہ بنا کر قتل کرنا، قتلِ عام اور منظم تشدد کو دہشت گردی نہیں سمجھا جاتا، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کیا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: بے نظیربھٹو قتل پر پورا ملک جام کرکے نظر آتش کرنے والی پیپلز پارٹی کو کراچی میں پاراچنار کی حمایت میں دھرنوں سے تکلیف
انہوں نے کہا کہ کرم کے عوام کو مسلسل نشانہ بنانا، اہم راستوں کا بند ہونا اور مقامی حکام کی جانب سے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے میں ناکامی نے پوری آبادی کو تشدد اور محرومی کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے، یہ صورتحال صرف سیاسی مذاکرات ہی نہیں بلکہ فوری اور مؤثر سیکیورٹی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے تاکہ امن اور استحکام کو بحال کیا جا سکے، میں وفاقی حکومت اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت پر زور دیتا ہوں کہ وہ اس بحران کی جڑ میں موجود زمین کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کریں۔ ان مسائل کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے یہ تنازعات شدت اختیار کر گئے ہیں اور تشدد کے محرک بن گئے ہیں، جس سے پہلے سے ہی سنگین سلامتی کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں سیکیورٹی اداروں کو اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہوتی ہے، اس بحران کو محض "قبائلی یا زمین کا تنازع” کہہ کر خود کو بری الذمہ قرار دینا زمینی حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے، فرقہ وارانہ تشدد، چاہے وہ مقامی تنازعات کی وجہ سے ہو یا بیرونی عناصر کی مداخلت سے، خطے کو غیر مستحکم کرتا ہے اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیتا ہے، کرم کے عوام انصاف، تحفظ اور پائیدار امن کے حقدار ہیں۔ یہ تمام شراکت داروں، سیاسی، انتظامی اور سلامتی اداروں کا فرض ہے کہ وہ مل کر اس مقصد کو حاصل کریں، آئیں معصوم جانوں کا مزید ضیاع اس دوران نہ ہونے دیں کہ ہم تعریفات پر بحث کریں، آئیں فیصلہ کن اور ہمدردانہ اقدامات کرتے ہوئے اس بحران کو ہمیشہ کے لیے حل کریں