
لبنان کی بلدیاتی انتخابات میں مقاومتی اتحاد کی کامیابی میں پنہاں کئی پیغامات
شیعہ نیوز: لبنان میں گذشتہ دنوں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں مزاحمتی جماعتوں کے اتحاد کے امیدواروں کی کامیابی نے نہ صرف میدانِ سیاست میں مقاومت کی موجودگی کو ثابت کیا بلکہ یہ کامیابی اپنے اندر کئی پیغامات کی حامل ہے کہ تمام بیرونی دباؤ اور سازشوں کے باوجود لبنانی مقاومت، عسکری میدان کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی زندہ، موثر اور عوام میں مقبول ہے۔
بلدیاتی انتخابات جو لبنان میں ہر 6 سال بعد منعقد ہوتے ہیں، اس بار تین مرتبہ مؤخر ہونے کے بعد آخرکار 9 سال بعد انتخابات منعقد ہوئے۔ آخری بلدیاتی انتخابات 2016 میں ہوئے تھے، اور 2022 میں نئے انتخابات ہونے تھے مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ مؤخر ہوتے رہے۔
ان انتخابات کو 2026 کے پارلیمانی انتخابات کا پیش خیمہ بھی قرار دیا جارہا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ گذشتہ سال شہید سید حسن نصراللہ سمیت اہم مقاومتی رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جس کے بعد یہ انتخابات مزاحمت کی سیاسی مقبولیت کی آزمائش سمجھے جارہے تھے۔ ان انتخابات میں عوام، بالخصوص مقاومت کے حامیوں کی بھرپور شرکت اس بات کی علامت ہے کہ لبنانی مقاومت اب بھی زندہ، متحرک اور فعال ہے، اور اس تحریک کو مرکز، جنوب اور مشرقی علاقوں میں واضح سیاسی مقبولیت حاصل ہے۔
بلدیاتی ادارے لبنان میں مقامی سطح پر خدمات، بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ ان کے پاس بجٹ اور اختیارات بھی واضح طور پر ہیں، جو انہیں دیگر حکومتی اداروں سے خودمختار بناتے ہیں۔ لبنان کے قانون نمبر 118 منظور شدہ 1977 کے تحت بلدیاتی ادارے مالیاتی انتظام، شہری منصوبہ بندی اور عوامی خدمات اور انسانی وسائل کی نگرانی جیسے اختیارات رکھتے ہیں، اور ان کے منتخب نمائندے اپنے علاقوں کی ترقی کے حوالے سے اہم فیصلے کرسکتے ہیں۔ اس لیے جو بھی گروہ ان بلدیاتی انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرے، وہ مقامی سطح پر زیادہ طاقت حاصل کرتا ہے، جو کہ لبنان کی مجموعی سیاست پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔
چار مراحل پر مشتمل بلدیاتی انتخابات
لبنان کے حالیہ بلدیاتی انتخابات ملک کے مختلف صوبوں میں چار مراحل میں مکمل ہوئے۔ اس انتخابی عمل نے نہ صرف سیاسی سرگرمیوں میں نئی جان ڈالی بلکہ حزب اللہ اور تحریک امل پر مشتمل مزاحمتی اتحاد کے لیے بھی ایک بڑی سیاسی کامیابی کی بنیاد رکھی۔
پہلا مرحلہ 3 مئی کو لبنان کے صوبہ جبل میں ہوا جس میں بیروت کے جنوب میں واقع ایک اہم مزاحمتی مرکز ضاحیہ بھی شامل ہے۔
دوسرا مرحلہ 11 مئی کو عکار اور شمالی لبنان میں ہوا جبکہ تیسرا مرحلہ 18 مئی کو بیروت، بقاع، بعلبک اور ہرمل کے علاقوں میں منعقد ہوا۔
چوتھا اور آخری مرحلہ 24 مئی کو جنوبی لبنان اور نبطیہ میں مکمل ہوا۔ یہ وہی علاقے ہیں جو حالیہ ایام میں اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنے ہیں اور جہاں مزاحمت کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں۔
مزاحمتی اتحاد (توسعہ و وفاداری) کی فیصلہ کن فتح
لبنان کی مزاحمتی جماعتوں حزب اللہ اور تحریک امل نے بلدیاتی انتخابات میں سیاسی اتحاد قائم کیا اور مشترکہ امیدوار کھڑے کیے۔ اس اتحاد نے نہ صرف صہیونی دھمکیوں، جنگی نقصانات اور اندرونی مخالف گروہوں کی موجودگی کے باوجود بھرپور کامیابی حاصل کی بلکہ ملک کے کئی علاقوں میں اکثریت کے ساتھ نشستیں جیت کر اپنی سیاسی طاقت کا بھی مظاہرہ کیا۔
جنوبی لبنان کے اہم مقامات جیسے صور، نبطیہ، بنت جبیل، مرجعیون میں اس اتحاد نے واضح اکثریت حاصل کی جبکہ مشرقی لبنان کے علاقوں بعلبک، ہرمل اور بقاع غربی میں بھی مکمل کامیابی حاصل کی۔
بقاع میں انتخابی کمپئن کے سربراہ حسین النمر کے مطابق مقاومتی اتحاد نے بقاع غربی کی تمام نشستیں جیت لیں اور بعلبک میں بھی مخالف دھڑوں کو مکمل طور پر باہر کردیا۔
حزب اللہ کے رکن پارلیمان علی فیاض نے کہا کہ جنوبی عوام نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ مقاومتی بلاک کے حامی ہیں۔ انتخابات کا چوتھا اور آخری مرحلہ مکمل ہونے اور حزب اللہ-امل اتحاد کی واضح فتح کے بعد لبنانی عوام نے سڑکوں پر نکل کر جشن منایا اور مزاحمتی قوتوں سے اپنی وفاداری کا مظاہرہ کیا۔
مقاومت کو سیاست سے نکالنے میں مخالفین کی ناکامی
حزب اللہ کے رہنماؤں کی شہادت اور لبنان و امریکہ میں نئی حکومتوں کے اقتدار میں آنے کے بعد مزاحمتی تحریک کو غیر مسلح کرنے اور اسے لبنان کی سیاست سے نکالنے کے عمل میں شدت آگئی تھی۔
مغربی ایشیا کے لئے امریکی نمائندے مورگن اورتگاس نے گزشتہ سال لبنان کے دورے کے دوران مداخلت پر مبنی بیان میں مطالبہ کیا تھا کہ حزب اللہ اور مزاحمتی تحریک کو لبنان کی سیاست سے الگ کیا جائے۔ تاہم مزاحمت کے حمایت یافتہ اتحاد "توسعه و وفاداری” کی کامیابی نے لبنان کے مختلف علاقوں میں ایک بار پھر مزاحمت کی عوامی مقبولیت کو ثابت کردیا اور ان بیرونی طاقتوں کی مزاحمت کو سیاست سے الگ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ یہ کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ مزاحمت نہ صرف کمزور نہیں ہوئی بلکہ اس کی عوامی حمایت پچھلے مرحلے کی نسبت بڑھ گئی ہے۔
لبنان میں موجود مزاحمت مخالف دھڑوں جیسے قوات لبنانیه اور المستقبل کے امیدوار بیرونی مالی امداد کے باوجود اس انتخاب میں قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کرسکے۔
عوام کی بھرپور شرکت پر مقاومتی قیادت کا اظہار تشکر
یہ سیاسی کامیابی ایسے وقت میں حاصل ہوئی جب جنوبی لبنان سے صہیونی قبضے کے خاتمے کی سالگرہ کے ایام نزدیک ہیں۔ اسی مناسبت سے لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری نے بلدیاتی انتخابات میں عوامی شرکت کو لبنانیوں کا سیاسی کارنامہ قرار دیا اور اسے مزاحمت کے تسلسل سے تعبیر کیا۔
اسی طرح حزب اللہ کے سربراہ شیخ نعیم قاسم نے بھی مقاومتی اتحاد کے حامیوں اور حتی کہ مخالفین کی طرف سے انتخابی عمل میں بھاری تعداد میں شرکت کو سراہا اور کہا کہ مخالف فریق بھی اس کامیاب انتخابی عمل کا حصہ تھے۔
یہ کامیابی اس وقت حاصل ہوئی ہے جب گزشتہ دو سال میں غزہ پر صہیونی حکومت کے حملوں، مزاحمتی رہنماؤں کی شہادت اور شام میں بشارالاسد حکومت کے سقوط کی وجہ سے مزاحمتی محور کو کمزور سمجھا جا رہا تھا۔ مگر سید حسن نصر اللہ اور دیگر حزب اللہ قائدین کی شہادت کے باوجود مزاحمت نہ صرف کمزور نہیں ہوئی بلکہ زیادہ مضبوط ہوکر سامنے آئی۔
اسرائیل نے جنوبی لبنان میں زمینی پیش قدمی کی کوشش کی تاہم مقاومت کی شدید مزاحمت کے باعث پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا اور آخرکار جنگ بندی قبول کرنی پڑی۔
سیاسی میدان میں بھی لبنانی عوام نے امریکہ، اسرائیل، اور ان کے حامی دھڑوں کی کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے ثابت کیا کہ مزاحمت اب بھی لبنانی عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں وسیع کامیابی نے دکھا دیا کہ مزاحمت نہ صرف جنگی میدان میں طاقتور ہے بلکہ سیاسی میدان میں بھی فیصلہ کن قوت بن چکی ہے۔