پاکستانی شیعہ خبریںہفتہ کی اہم خبریں

ڈاکٹر محمد علی شہید، ان کہی کہانیاں

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) برادر عزیز ڈاکٹر سید محمد علی نقوی کی شہادت کو چھبیس برس بیت گئے۔ وہ ہر روز یاد آتے ہیں۔ ان کے بارے میں کچھ لکھا، کچھ کہا لیکن سب کچھ لکھا جا سکتا ہے نہ کہا جا سکتا ہے۔ ان کے دشمن اور مخالفین ہم نے ہمیشہ باہر تلاش کیے ہیں، لیکن داخلی دشمنوں کی بھی کمی نہ تھی۔ ایسا نہ تھا کہ داخلی طور پر سب راستے ہموار تھے، سب ان کے ساتھی اور معاون تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ داخلی دشمنوں، مخالفوں اور حاسدوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ان میں سے بھی کچھ ظاہر تھے اور کچھ پردے کی اوٹ میں۔ ان میں ’’تنظیمی‘‘ بھی تھے اور غیر تنظیمی بھی۔ شیخیوں اور غالیوں کے خلاف معرکے میں بھی ڈاکٹر محمد علی صف اوّل کے سپاہی تھے۔ صحیح عقائد کی ترویج و تبلیغ کے لیے ضروری کتابوں اور لٹریچر پر مشتمل ایک بیگ انہوں نے تیار کر رکھا تھا۔ جب کبھی اس حوالے سے کسی کو جواب دینے، قائل کرنے یا تبلیغ کے لیے جاتے تو وہ بیگ کندھے پر ڈال لیتے۔ میں ان کی اس حالت میں روانگی پر کبھی نعرہ مستانہ بلند کرتا: ’’عقیدے ٹھیک کروالو‘‘ اور وہ ہنستے ہوئے روانہ ہو جاتے۔

ایک صاحب جو ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد ہر جگہ ان کے ’’دیرینہ ساتھی‘‘ کی حیثیت سے خطاب کرتے رہے اور اب بھی موقع جانے نہیں دیتے، ڈاکٹر صاحب کو بہت چرکے لگا چکے ہیں۔ ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہے چونکہ ڈاکٹر صاحب اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ ہم اپنے حصے کی سہی ہوئی اذیتیں انہیں معاف کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ مولانا سید صفدر حسین نجفی مرحوم نے قومی ترقی کا ایک جامع منصوبہ تیار کرنے کے لیے فرمایا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کے لیے پہلے مرحلے پر قومی اعداد و شمار کی جمع آوری اور آبادی کا تخمینہ لگانے کے لیے ایک فارم تیار کیا۔ ملک بھر میں اپنے ساتھیوں کو اس کام پر لگا دیا۔ ہم سب اس مہم کا حصہ تھے، شب و روز صرف کرکے ایک جامع منصوبہ تیار کیا گیا۔

جس صاحب کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے، وہ مرکزی کمیٹی میں شامل تھے۔ وہ اس منصوبے کے اہم کاغذات اور ایک کاپی لے کر غائب ہوگئے۔ اس کا انہوں نے کیا کیا، اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں، یہاں نہیں تو دوسرے جہان میں دیں گے، لیکن ڈاکٹر صاحب شہید اس پر بہت رنجیدہ ہوئے۔ ان کی بے وفائی کا تمام عمر ڈاکٹر صاحب کو قلق رہا۔ منصوبہ بہرحال اچھے انداز سے آیۃ اللہ طاہری خرم آبادی مرحوم اور مولانا سید صفدر حسین نجفی مرحوم کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ انہوں نے منصوبے اور پریزینٹیشن کو بہت پسند کیا۔ راقم ان تمام مراحل میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ساتھ تھا۔ کتنا مشکل ہے، ان سب حقائق کو بیان کرنا لیکن بیان نہ کرنا بھی مشکل ہے۔ بقول بلھے شاہ:
منہ آئی بات نہ رہندی اے
جھوٹھ آکھاں تے کجھ بچ دا اے
سچ آکھاں بھانبڑ مچ دا اے
جی دُونہاں گلاں تو جچ دا اے
جچ جچ کے جیبھا کہندی اے
منہ آئی بات نہ رہندی اے

ایک ’’بڑے راہنماء‘‘ کی خدمت میں حاضر تھا، جن کے ذمہ شہید کی مظلومانہ شہادت کے حقائق کا سراغ لگانا اور بے رحم قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہونا چاہیئے تھا، بڑی بے نیازی سے اس سانحے پر تبصرہ کر رہے تھے ’’دو ایجنسیوں کی جنگ تھی، ایک کامیاب ہوگئی۔‘‘ یہ تبصرہ نہیں تھا، میرے سینے میں اتر جانے والا تیر تھا، جو اب بھی پیوست ہے لیکن کیا کہوں، بقول شاعر
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے نا گفتہ رہ گئے

ڈاکٹر محمد علی شہید ہی نہیں اور بھی اہم شخصیات کی زندگی کے اگر سب روشن پہلو ہی بیان کیے جائیں تو حقیقت یہ ہے کہ وہ نمونہ قرار نہیں پا سکتیں، کیونکہ ان کی زندگی سے سیکھنے کے لیے انہیں پیش آنے والی ناہمواریوں اور مشکلات کو جاننا اور سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اگر تمام راستے ہموار ہوں تو پھر کسی کی کامیابی کو بڑی کامیابی کیسے کہا جا سکتا ہے۔ کسی شخص کی ذات کے جوہر کھلتے ہی تب ہیں، جب یہ بات سمجھ آ جائے کہ اس نے داخلی اور خارجی مشکلات کو کیسے کیسے عبور کیا ہے۔ اس میں ظاہر ہے مشکل مقام آتے ہیں۔ اس حوالے سے شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کی شخصیت بھی پیش نظر رہنا چاہیئے۔

ڈاکٹر محمد علی شہید کی شہادت کے بعد کتنے ہی لوگ ہیں، جو ان کی شخصیت پر ایسے اظہار خیال کر رہے ہوتے ہیں، جیسے ان کو بہت جانتے ہیں اور ان کے بہت قریب رہے ہیں۔ کسی ایک پروگرام میں، میں اور برادر عزیز نثار علی ترمذی اجتماع کے آخر میں دیوار کے ساتھ لگے کھڑے تھے اور سٹیج پر ڈاکٹر محمد علی شہید کے حوالے سے ایک صاحب خوب شعلہ بیانی فرما رہے تھے۔ ہم دونوں جانتے تھے کہ انہیں ایک مرتبہ بھی ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا موقع نہیں ملا۔ ان پر بھی آفرین ہے، جو ایسے لوگوں سے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، جو ان سے کبھی نہ ملے ہوں اور انہیں جاننے والوں کو دیوار سے لگائے رکھتے ہیں۔ شاید دنیا کی تاریخ ایسے ہی سانحات سے بھری ہوئی ہے۔

خدا جانے ان چند سطور کی کیا قیمت چکانا پڑے گی، حالانکہ میری یاد نگری میں کتنی ان کہی کہانیاں ابھی باقی ہیں جو سلگ رہی ہیں۔ بہرحال اسے چھوڑیئے ایک مختصر سی نظم ملاحظہ کیجیئے جس کا عنوان ہے ’’گزرتے لمحے‘‘:
گزرتے لمحے نہ زخموں کا بن سکے مرہم
گزرتے لمحوں نے دیکھا ہے کچھ فزوں ہی ہوا
مرا یہ درد جدائی، ترے بچھڑنے کا غم
***
جب آسماں پہ سیاہی کا زور گھٹتا ہے
میں دیکھتا ہوں کہ سرخی ابھرنے لگتی ہے
کسی کے زینہ اترنے کی چاپ سنتا ہوں
دھمک کے ساتھ صدا لا الہ کی آتی ہے
کسی کا ہاتھ ہے سینے پہ اور بلاتا ہے
طلوع صبح کا عرصے سے ہے یہی عالم
گزرتے لمحے نہ زخموں کا بن سکے مرہم
***
میں سن رہا ہوں کوئی کہہ رہا ہے یہ پیہم
تمھیں اے درد کے مارو! ابھی تو کرنا ہے
گئے دنوں کی بہاروں کا کچھ سوا ماتم
***

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button