مضامینہفتہ کی اہم خبریں

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، ان کے جیسا کوئی ایک

پروردگار پیغمبر آخر ؐ پر نازل کردہ اپنی پاک کتاب قرآن مجید میں فرماتا ہے: "وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ”، "اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہو جاتے ہیں، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔” (سورہ آل عمران:169) شہادت عربی زبان میں حضور اور مشاہدہ کے معنی میں ہے۔ اس اعتبار سے شہادت نام رکھنے کی کچھ وجوہات ذکر ہوئی ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں: "رحمت الہیٰ کے فرشتے اس کی فداکاری اور جانبازی کے گواہ ہیں۔”، "خدا اور فرشتے اس کے بہشت میں داخل ہونے کی گواہی دیں گے اور وہ اپنے پرودگار کے نزدیک زندہ اور حی ہے۔”، "وہ ایسی چیزوں کو مشاہدہ کرتا ہے، جو دوسرے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔”، "قیامت کے دن شہید دوسروں کے اعمال پر شاہد ہے۔”

آیات اور روایات میں شہادت کے لئے کچھ آثار ذکر ہوئے ہیں، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: زندہ رہنا: قرآنی آیات کی روشنی میں، جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہ مرتے نہیں ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔ شفاعت کا حق: شہید قیامت کے دن انبیاؐ اور علماء کے ساتھ شفاعت کریں گے۔ گناہوں کی مغفرت: امام باقرؑ سے منقول ایک روایت میں منقول ہے کہ جب شہید کے بدن سے خون کا پہلا قطرہ جاری ہوتا ہے، اس کے حق الناس کے علاوہ باقی تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ شہید پر باقی حق الناس کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ اگر اس کے ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی ہے تو اللہ اس حق کو جبران کرتا ہے اور حق والا اس سے راضی ہو جاتا ہے۔ بہشت میں داخلہ: قیامت کے دن جو سب سے پہلے بہشت میں داخل ہوگا، وہ شہید ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں شہداء کے مقام و مرتبہ کے بارے بیان ہوئی ہیں۔

اسی وجہ سے حق کے پیروان و طرفداران اس مقام و مرتبہ کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں، اللہ کی خوشنودی، اس کے دین اور اسلامی سرزمین کے دفاع و بقاء کیلئے راستہ طے کرتے ہوئے اس مقام و مرتبہ کو پانے کی خواہش و تڑپ ہر ایک کو ہوتی ہے۔ بعض لوگ اسے معیار اور میرٹ سے ممکن بناتے ہیں، یعنی ان کا اخلاص، ان کا کام، ان کی جدوجہد، ان کا چلنا، پھرنا، ان کے شب و روز، ان کے معاملات اس معیار و میرٹ پر ہوتے ہیں کہ پروردگار انہیں اس انعام سے نوازتا ہے، یہ خاصان خدا ہوتے ہیں، ان پر پروردگار کی نوازشات کی بارش ہوتی ہے، ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں راسخ ہو جاتی ہے۔

گذشتہ چالیس برس میں پاکستان کے طول و عرض میں مکتب جعفری سے تعلق رکھنے والے، آل محمد ؑکے پروانوں نے ہزاروں کی تعداد میں دشمنان محمد و آل محمد ؑ، نواصب، خوارج کے حملوں میں اپنے پاک لہو کے نذرانے پیش کیے ہیں اور اپنے پاک لہو سے اس مکتب کے چراغ کو روشن رکھا ہے، اس کی لو کو بجھنے نہیں دیا، یہ پاک لہو پہچان کیساتھ بہایا گیا ہے، اس کی پہچان کرنے والوں نے انہیں کربلا سے متمسک پا کر بہایا ہے، اس کو بہانے والوں نے ان شہداء کے جرم کی فہرست میں فقط میدان غدیر میں رسول خدا ؐکی دی گئی صدا اور پیغام ولایت پر لبیک کہتے ہوئے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب ؑکی ولایت کے اقرار کو قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی شہادت کسی بھی میدان جنگ میں شہید ہونے والوں سے کم نہیں۔ ان کا درجہ کسی بھی جنگ جو اسلامی سرزمین، دین و مذہب کی بقاء و دفاع کیلئے لڑی جائے، سے کم نہیں ہے۔

پاکستان میں دشمنان اہلبیت، نواصب و خوارج نے گذشتہ چالیس برس سے تسلسل کیساتھ دشمنان اسلام یہود و ہنود و نصاریٰ کیساتھ ساز باز کرکے ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے، ان کے اشاروں پہ ناچتے ہوئے ایک الگ انداز و رنگ کا میدان جنگ بنایا اور اس میں بے گناہ، بے قصور لوگوں کو شہید کیا، ہزاروں بچوں کے سروں سے ان کے والدین کا سایہ چھینا، خواتین کے سروں سے ان کے سر کا تاج چھینا، والدین کے ارمانوں و امنگوں کا قتل کیا، قوم و ملت کے نگینوں اور قیمتی ترین مربی و مہربانوں کو چھینا، ملت کی تعمیر، ترقی، تہذیب، تعلیم میں اپنا تن، من، دھن نچھاور کرنے والوں کو چھینا اور ایک ایک شخص کے قتل سے کبھی ایسا محسوس ہوا کہ پوری ملت و مکتب یتیم ہوگیا ہے، ہم نے ان چالیس پینتالیس برسوں میں ایسا بارہا محسوس کیا۔

ساتویں مارچ کی دم صبح بھی ہم نے ایسا ہی محسوس کیا تھا، جب لاہور میں یتیم خانہ چوک کے پاس ملت میں روح کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر محمد علی نقوی کو ان کے ایک ساتھی تقی حیدر کیساتھ سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ وہ ایک مسیحا تھے اور اس وقت بھی اپنے مریضوں کی مسیحائی کا فریضہ سرانجام دینے جا رہے تھے، ساتویں مارچ کی دم صبح فقط سیدہ زہراء نقوی، سید سلمان نقوی، سید دانش نقوی، سید موسیٰ نقوی نے یتیمی کی دستار نہیں باندھی، اس قوم کے ہر باشعور نوجوان کو یتیمی کا احساس ہوا تھا، ہر فعال تنظیم کارکن کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا تھا، مقاومت اسلامی و مزاحمت اسلامی سے خود کو مرتبط رکھنے والے ہر مخلص برادر و خواہر، حریم اہلبیت ؑکے دفاع کا علم اٹھانے والے ہر جانباز نے اس لہو کے بہنے پر اپنے سر کو دیواروں سے ٹکرایا تھا کہ ان کا واحد آسرا ان سے چھن گیا تھا۔

ہر ایک احساس کرتا تھا کہ جس شمع کو ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اب تک روشن رکھا ہوا تھا، وہ شمع اب تیز ہواءوں کی زد پر آجائے گی اور تیز آندھیاں اب اس چراغ کو بجھا دیں گی۔ دشمن کامیاب ہو جائے گا، اس لیے کہ ان کے جیسا تو کوئی ایک بھی نہ تھا، یہ سب جانتے تھے، پہچانتے تھے اور اس کا ادراک و احساس سب کو تھا۔ اگرچہ ان کے پاک لہو سے اس چراغ کی لو کو تیز ہونا چاہیئے تھا، جسے انہوں نے اپنی زندگی دی تھی، مگر تمام تر احساسات و جذبات کے باوجود شاید ایسا نہیں ہوا۔ ہم محروم رہ گئے، ہمیں تسلیم کرنا چاہیئے کہ ہم سب مل کر بھی ایک ڈاکٹر جیسا نہیں بن سکے۔ اس کی وجہ کیا ہے، اس بارے بحث و مباحثہ ہوسکتا ہے، مگر میں یہی محسوس کرتا ہوں، بے شک ہم ان کی برسی مناتے ہیں، ان کو آئیڈیالایز کرتے ہیں، ان سے محبت اور اس کی تجدید کا عہد کرتے ہیں، مگر اس حقیقت کو کسی بھی طور رد نہیں کیا جا سکتا کہ "سب مل کر بھی ایک نہیں بن سکے۔” شہید تو یہ کہہ گئے کہ۔۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

مگر ان کے جیسا کوئی ایک بھی نہ ہوا۔۔۔ سب اپنی اپنی انجمن سجائے ہوئے ہیں، جو انجمن آرائی شہید کرتے تھے، وہ اب کہیں دکھائی ہی نہیں دیتی، وہ اعتماد، وہ یقین کس پر کیا جائے، ایسا تو کوئی نہیں۔۔۔
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے
ان کے جانے کے بعد پتا پتا، ڈالی ڈالی، بوٹا بوٹا بکھر گیا، جیسے وہی تھے ملت کا بھرم، ملت کی یکجہتی، ملت کا اتحاد، ملت کا وقار، ملت کا شرف، تاریخ سامنے ہے کہ ان کے جانے کے بعد ہم سے یہ سب کچھ چھن گیا، روٹھ گیا، ناجانے کیوں یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید ہم نے ان کی قدر نہ کی اور ہم سے سب کچھ جاتا رہا، یہ ان کی عظمت و شرف ہے کہ انتیس برس گزر جانے کے بعد بھی ہم ان کی خوشبو محسوس کرتے ہیں، مگر ان کے جیسا کسی کو نہیں پاتے۔۔
رونق تو وہی ہے پھر بھی جیسے
اک شخص کی شہر میں کمی ہے

تحریر: ارشاد حسین ناصر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button