شہید قاسم سلیمانی ؒ اور انگوٹھی کا واقعہ
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) ایک شہید کی چھوٹی بیٹی شہید قاسم سلیمانی ؒ کا ایک واقعے بیان کرتی ہیں
وہ کہتی ہیں آڈیٹوریم لوگوں سے بھرا ہوا تھا، مجمع کافی زیادہ تھا
اتنا مجمع ہونے کے باوجود وہاں ایک سکوت طاری تھا،
اس خاموشی کو اگر کوئی آواز چیر رہی تھی تو وہ سردار قاسم سلیمانی کی آواز تھی۔
وہ تقریر کررہے تھےاور لوگ ان کی تقریر کو دبدبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ سن رہے تھے،
تقریر کے بعد لوگ ان سے ملنے لگے۔۔۔ملنے والے بھی بہت تھے۔۔۔ میں نے بھی چاہا کہ ان سے ملوں
لہٰذا میں بھیڑ کو چیرتی ہوئی آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن میں ان تک نہیں پہنچ پائی
تھک ہار کر میں نے دور سے آواز دینا شروع کی ۔۔۔۔۔حاج قاسم۔۔۔حاج قاسم
مجھے نہیں معلوم میری آواز ان کے کانوں تک کیسے پہنچی؟
میں نے کیا دیکھا کہ وہ بھیڑ کائی کی طرح پھٹنے لگی اور حاج قاسم نے مجھے اپنے پاس بلالیا
مجھے وہاں محسوس ہوا کہ سردار شہداء کے بچوں سے کتنی محبت کرتے ہیں۔
ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں ، انہیں آغوش میں لیتے ہیں،شہداء کے چھوٹے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں
جیسے کہ وہ سارے بچے کسی اور کے نہیں بلکہ ان کے اپنے بچے ہوں،،، بالکل اپنی اولاد کی طرح
میں انہی خیالات میں گم تھی کہ میری نظر ان کے ہاتھ میں موجود انگوٹھی پر پڑی
میں نے ان سے کہا۔۔۔ آپ کی انگوٹھی کتنی پیاری ہے! کیا آپ یہ انگوٹھی مجھے دے سکتے ہیں؟
سردار مسکرائے! اور اپنے سر کو جھکا لیا
میں نے فورا دوبارہ اس انگوٹھی کا مطالبہ کردیا
تو سردار نے اپنے ہاتھ سے اس انگوٹھی کو اتارا اور کہا کہ جیسا کہ تم نے کہا کہ تم مشہد کی رہنے والی ہو
اس انگوٹھی کا ایک حق ہے، تمہیں اس حق کو ادا کرنا ہوگا
میں سوچنے لگی کہ انگوٹھی کا حق کیا ہوتا ہے؟
سردار نے کہا جب بھی مشہد میں امام علی رضا ؑ کے حرم میں جاؤتو میری شہادت کی دعا کرو
دعا کرو کہ اللہ مجھے شہادت نصیب کرے،
یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے
وہ تو آگے بڑھ گئے لیکن میں اپنی جگہ پر کھڑی ہوکر سوچنے لگی کہ سردار نے مجھ سے یہ کیا مانگ لیا؟
پھر میں اپنے آپ کو ملامت کرنے لگی کہ میں نے سردار سے یہ کیا مانگ لیا؟
میں دوڑتی ہوئی سردار کی طرف بھاگی
سردار نے مجھے آتے ہوئے دیکھا تو رک گئے
میں ان کے پاس پہنچی، میں نے اپنی سانسیں مرتب کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی
میں نے اس ہی ہانپتی آواز میں کہا۔۔۔سردار! یہ انگوٹھی میں نہیں لے سکتی
میں نے وہ انگوٹھی ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ۔۔۔ آپ اسے لے لیجیے ۔۔۔میں آپ کی شہادت کی دعا نہیں کرسکتی
آپ کو زندہ رہنا ہے۔۔۔۔مقاومت کیلیئے۔۔۔رہبر کیلیئے۔۔۔آپ کو زندہ رہنا ہے
میری باتیں سن کر شہید کے لبوں پر ہنسی آگئی
انہوں نے مجھے محبت بھری نگاہ سے دیکھا اور کہا
میری بیٹی!
اس انقلاب کو آگے بڑھانے کیلیئے۔۔۔۔اس کا علم اٹھانے کیلیئے۔۔۔بہت سے لوگ موجود ہیں
یہ ا نقلاب جاری و ساری رہے گا۔۔۔۔یہ علم ہمیشہ سربلند رہے گا
لیکن
اب مجھ میں یہ طاقت نہیں ہے کہ میں شہداء کے بچوں کو دیکھوں۔۔۔۔۔۔اور ان کی آنکھوں سے آنکھیں ملاؤں
کچھ ہی دیر بعد سردار کی گاڑی آگئی
وہ گاڑی میں بیٹھ گئے اور جاتے جاتے۔۔۔۔گاڑی سے ذرا سا سر باہر نکالااور ایک بار پھر میری طرف دیکھ کر کہا
بھولنا مت! ۔۔۔۔۔۔حرم امام رضا ؑ میں میری شہادت کی دعا ضرور کرنا۔۔۔۔ بھولنا مت!
اس کے بعد سردار کی گاڑی آگے بڑھ گئی
میں تعجب کے ساتھ اس گاڑی کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ یہاں تک کہ وہ گاڑی میری آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہوگئی
میںیہی سوچ رہی تھی کہ یہ انسان کس قدر عظیم ہے۔۔۔ جو اللہ کی راہ میں شہید ہونے کی آرزو کررہاہے
اور اس کے دل میں کس قدر شوق شہادت ہے