شہر قائد میں 4 افراد سمیت متعدد شیعہ جوان جبری طور پر لاپتہ
شیعہ نیوز: کراچی میں شیعیان حیدر کرار ؑ کی چادر اور چاردیواری کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے ریاستی اداروں کی وردی میں چھپی کالی بھیڑوں نے مختلف علاقوں میں خفیہ کاروائیوں کے دوران شیعہ جوانوں کو دوبارہ جبری لاپتہ کرنے کا آغاز کردیا۔ شاہ فیصل کالونی، ملیر، جعفرطیار، گلبہار اور علی بستی میں سرچ آپریشن کے دوران متعدد شیعہ جوان جبری طور پر اغواکرلئے گئے۔
تفصیلات کے مطابق قانون نافذ کرنے کے نام پر قانون کو پامال کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے بغیر کسی وارنٹ اور بغیر کسی جرم کے کراچی کے علاقے ملیر ، جعفرطیار، شاہ فیصل کالونی ، گلبہار اور علی بستی میں رات کی تاریکی میں چھاپہ مار کاروائیوں کے دوران متعدد جوانوں کوان کے گھروں سے اٹھا کر لاپتہ کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق شاہ فیصل کالونی نمبر 5 میں سادہ لباس اور باوردی سکیورٹی اہلکاروں نے کاروائی کرتے ہوئے ایک ہی گھر کے 4افراد کو ان کے گھر سے اغوا کرلیا، اغواہونے والوں میں دانیال عابدی، ان کے بہنوئی سرفراز کاظمی اور دوبھانجےفراز کاظمی اور محمد کاظمی شامل ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملیر جعفرطیار کے علاقے میں بھی کاروائی کے دوران سکیورٹی اہلکاروں نے شیعہ عزادار کامران زیدی کو اغواکرلیا ہے، جوکہ چند ماہ قبل ہی ڈھائی سالہ جبری گمشدگی کاٹ کرواپس گھرلوٹے تھے، جبکہ جعفرطیارمیں ہی ایک اور شیعہ عزادار علی رضا عرف بوبی کے گھربھی چھاپے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جوکہ کے کامران زیدی کے ہمراہ ہی بازیاب ہوئے تھے، تاہم خدا کے فضل وکرم سے وہ محفوظ رہے ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ فیصل کالونی اور ملیر جعفرطیار سوسائٹی کے علاوہ گلبہار اور علی بستی میں بھی اسی طرح کی چھاپہ مار کاروائیوں کی اطلاعات ہیں تاہم ذرائع نے جبری طور پر لاپتہ کیئے جانے والے افراد کی شناخت کے حوالے سے کوئی مصدقہ اطلاع تاحال فراہم نہیں کی ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک مرتبہ پھر بیلنس پالیسی کے تحت معروف دیوبند عالم دین ڈاکٹر عادل خان کے بہیمانہ قتل کے بعد شیعہ جوانوں کی جبری گمشدگیوں کا دوبارہ آغاز کردیا ہے جوکہ انتہائی تشویش ناک عمل ہے۔
واضح رہے کہ ملک بھرمیں متعدد اہل سنت اور دیوبند علمائے کرام کسی اور کے نہیں بلکہ ان ہی کے ہم مسلک کالعدم سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کے ہاتھوں سفاکانہ قتل کیئے گئے ہیں۔ ان کاروائیوں کے ثبوت قانون نافذکرنے والے اداروں اور ذرائع ابلاغ کے پاس موجود ہیں۔