مضامین

شیعہ سنی دہشتگردی کی اصطلاح، حقیقت یا فسانہ!

تحریر: سید منیر حسین گیلانی
(سابق وفاقی وزیر تعلیم)

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی دہشتگردی ہوتی ہے، جو کہ بالکل غلط اور حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو مخصوص مقاصد اور چند حقائق کو چھپانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس تشریح پر حیرت ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں دہشتگردی کے 115 واقعات میں ایک ہزار سے زائد شیعہ ہزارہ شہید اور 2800 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ تمام مقتولین شیعہ ہیں۔ مجھے کوئی یہ بتائے کہ کیا ان شہداء کے خاندانوں میں سے کسی نے مسلک اہلسنت کی مسجد، مدرسے، مارکیٹ، گھر یا کسی فرد پر جوابی حملہ کیا؟ ہرگز نہیں، جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب میں 1990ء کی دہائی میں ایک تکفیری گروہ کے حملوں کے جواب میں شیعہ جوان جوابی حملے کرتے رہے ہیں لیکن بزدلی کی حد تک ہزارہ ایسا نہیں کرسکے۔ دراصل شیعہ سنی فسادات کی جو بات لوگ کرتے ہیں، اس کی نوعیت فسادات جیسی ہے اور نہ ہی فرقہ وارانہ، بلکہ یہ محض دہشتگردی ہے، جس کا شکار شیعہ مکتب کے لوگ دہشتگردوں کے ہاتھوں ہو رہے ہیں۔

اہلسنت اور اہل تشیع کے درمیان برادرانہ تعلقات موجود ہیں، اگر یہ فرقہ وارانہ فسادات ہوتے تو گلی محلے میں لڑائیاں ہوتیں، مگر ایسی صورتحال پاکستان بھر میں کہیں نظر نہیں آتی، ایسے واقعات ایک منظم سازش کے تحت ٹارگٹ کلنگ اور اشتعال انگیزی ہے۔ ہاں شیعہ ہزارہ پر حملے کے بعد اگر تو شیعہ نوجوانوں نے سنی مساجد، مدارس، مزارات پر حملے کئے ہوتے تو کہہ سکتے تھے کہ دونوں مسالک کے درمیان لڑائی جاری ہے اور اسے فرقہ وارانہ رنگ دیا جا سکتا تھا۔ اس کیساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ جنگ دراصل سعودی عرب اور ایران کی ہے، جسے پاکستان کے اندر لڑا جا رہا ہے۔ یہ بھی تعصب پر مبنی تصور یا الزام ہے۔ اگر کچھ لوگ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای، آیت اللہ سیستانی، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی یا عراق سے آیت اللہ سید علی سیستانی یا حافظ بشیر حسین نجفی کی تقلید کو پراکسی وار سمجھ رہے ہیں تو یہ بہت حیرت انگیز اور خلاف حقائق سوچ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کہنے والوں کو شرعی اصطلاح تقلید اور اس کے احکامات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شیعہ مکتب میں تقلید کیا ہوتی ہے؟ اس کی شرائط اور وجوہات کیا ہیں۔؟

ان کو سمجھنا چاہیئے کہ شیعہ مجتہد اجتہاد کے ذریعے شرعی مسائل میں اپنے مقلدین کی رہنمائی کرتے ہیں، کسی دوسرے مکتبہ فکر کیخلاف اشتعال انگیزی پیدا نہیں کرتے۔ قرآن و حدیث سے شرعی مسائل اخذ کرنیوالے یہ مجتہد کسی غیر مسلم کی عبادت گاہ پر بھی حملہ کرنے کا نہیں کہتے، بلکہ اتحاد کی بات کرتے ہیں، جبکہ دوسری طرف سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں شیعہ کیخلاف کتابیں لکھوانے کیلئے وسائل مہیا کئے جاتے ہیں۔ پھر ان کتب کو سعودی عرب بھجوایا جاتا ہے، تاکہ حج کے موقع پر حجاج کرام میں تقسیم کی جا سکیں۔ اسی طرح حرم بیت اللہ میں کچھ اردو بولنے والے مولوی رکھے گئے ہیں، جو قرآن و حدیث کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کرکے شیعہ اور اہلبیت علیہم السلام کیخلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ اس لئے یہ فرقہ واریت کی جنگ نہیں، ظالموں کا مظلوموں پر حملہ ہے۔ پہلے ٹارگٹ کلنگ، ہینڈ گرنیڈ سے مساجد، مدارس، امام بارگاہوں اور گھروں پر حملے کئے جاتے تھے۔ نماز باجماعت، نماز جمعہ، عید، مجالس عزاء، عاشورہ اور چہلم کے جلوسوں پر حملے کرکے معصوم شہریوں کو شہید کیا جاتا رہا۔ خودکش حملے ہوتے رہے۔

یہ خودکش حملے پہلے تو یہ شیعوں پر شروع ہوئے پھر مارکیٹوں، حساس ادارے کے دفاتر اور حتیٰ کہ جی ایچ کیو پر بھی ہوئے اور اے پی ایس کے واقعہ نے تو پوری قوم کو رُلا کر رکھ دیا تو پتہ چلا کہ شیعہ کے علاوہ بھی کوئی دہشتگردی کا شکار ہوا ہے۔ اس کے بعد فاٹا میں فوجی آپریشن کیا گیا، لیکن پھر بھی پاراچنار، ڈیرہ اسمٰعیل خان اور کوئٹہ میں دہشتگردی جاری رکھی گئی، لیکن اس کے باوجود شیعہ نے سنی مساجد، مدارس، مزارات، یا کسی کے گھر پر حملے نہیں کئے۔ ریاست اور حکومت بھی شیعہ ہزارہ کے قتل عام پر بے بس دکھائی دیتی ہے۔ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد کرکے افغانستان سے روس کو بھگا دیا اور پوری دنیا اس کی صلاحیتوں کی معترف ہے۔ مگر یہ ایجنسی چھوٹے سے شہر کوئٹہ میں ہزارہ کا قتل رکوا سکی ہے اور نہ ہی بے گناہ شہیدوں کے قاتلوں کو بے نقاب کرسکی ہے۔ مجھے تو عمران خان کے بیان پر حیرت ہوئی اور اس کی دانشمندی پر افسوس بھی۔ کہا گیا سعودی عرب اور ایران، پاکستان میں پراکسی وار بند کریں۔

حیرت ہے کہ پراکسی وار کا الزام اگر درست ہوتا تو شیعہ مخالف فرقوں کے لوگ بھی قتل ہوتے، مگر ایسا نہیں، پراکسی وار پاکستان میں صرف ایک ملک کر رہا ہے۔ جو شیعہ کیخلاف نظریاتی طور پر پراپیگنڈہ کو پھیلا رہا ہے اور اس کے نمک خوار شیعہ کے قتل کے فتوے دیتے ہیں۔ مسلمہ اسلامی مکتبہ فکر اہل تشیع کے بارے میں تکفیری نعرے لگائے جاتے ہیں اور تقریریں کی جاتی ہیں، مگر ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں! شیعہ نے تو آج تک کسی کے کفر کا فتویٰ جاری نہیں کیا۔ اس حقیقت کو ہر ذی شعور شخص سمجھتا ہے کہ جو ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہے مسلمان ہے۔ مسلمانوں کے درمیان خلافت اور امامت کے نظریات پر تقسیم موجود ہے، اس سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔ ہاں سوائے منکرین ختم نبوت کے۔ بظاہر پڑھا لکھا طبقہ اینکر اور تجزیہ کار ایران کی طرف سے پراکسی وار کا پراپیگنڈہ کرتا ہے۔ ایک اینکر جو پہلے بیوروکریٹ تھا، کہتا ہے کہ کوئٹہ دھرنے اور شہداء کی تدفین کسی کی اپیل پر نہیں، ایران سے آرڈر پر ختم ہوئے ہیں اور یہ کہ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کے حکم سے جنازے اٹھائے گئے ہیں۔ اس لئے تاریں ایران سے ہلتی ہیں اور یہ کہ دھرنا بھی ایران کے کہنے پر طویل کیا گیا ہے۔ اس اینکر سے کہتا ہوں کہ خدا کا خوف کریں۔ جھوٹ اور بہتان کی شریعت میں بہت سزا ہے۔ آپ نے ایک دن مرنا بھی ہے۔ کیا اس دھرنے میں کسی مسلک کیخلاف نعرے بازی ہوئی یا اس میں جلاو گھیرا کیا گیا۔؟

ان کا صرف یہ مطالبہ تھا کہ وزیراعظم انہیں سکیورٹی کی یقین دہانی کروائیں اور انصاف دلائیں۔ چونکہ وزراء ہر بار آتے ہیں مگر کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن وزیراعظم کا یہ کہنا تھا انہیں بلیک میل نہ کریں، انتہائی پست ذہنیت کی علامت اور غیر ذمہ دارانہ بیان تھا۔ اس ملک میں شیعہ سنی کے حوالے سے فرقہ واریت نہیں، اس ملک میں داعش، طالبان یا القاعدہ ہو، سپاہ صحابہ یا لشکر جھنگوی بے گناہوں کا خون بہاتے ہیں۔ مگر ان کی کسی مسجد پر شیعہ نے کوئی حملہ نہیں کیا۔ تو شیعہ سنی لڑائی کیسی؟ ہم تمام مذاہب و مسالک کا احترام کرتے ہیں اور اینکر حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ لشیعہ سنی دہشتگردی کی اصطلاح، حقیقت یا فسانہ!
تحریر: سید منیر حسین گیلانی
(سابق وفاقی وزیر تعلیم)

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی دہشتگردی ہوتی ہے، جو کہ بالکل غلط اور حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو مخصوص مقاصد اور چند حقائق کو چھپانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس تشریح پر حیرت ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں دہشتگردی کے 115 واقعات میں ایک ہزار سے زائد شیعہ ہزارہ شہید اور 2800 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ تمام مقتولین شیعہ ہیں۔ مجھے کوئی یہ بتائے کہ کیا ان شہداء کے خاندانوں میں سے کسی نے مسلک اہلسنت کی مسجد، مدرسے، مارکیٹ، گھر یا کسی فرد پر جوابی حملہ کیا؟ ہرگز نہیں، جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب میں 1990ء کی دہائی میں ایک تکفیری گروہ کے حملوں کے جواب میں شیعہ جوان جوابی حملے کرتے رہے ہیں لیکن بزدلی کی حد تک ہزارہ ایسا نہیں کرسکے۔ دراصل شیعہ سنی فسادات کی جو بات لوگ کرتے ہیں، اس کی نوعیت فسادات جیسی ہے اور نہ ہی فرقہ وارانہ، بلکہ یہ محض دہشتگردی ہے، جس کا شکار شیعہ مکتب کے لوگ دہشتگردوں کے ہاتھوں ہو رہے ہیں۔

اہلسنت اور اہل تشیع کے درمیان برادرانہ تعلقات موجود ہیں، اگر یہ فرقہ وارانہ فسادات ہوتے تو گلی محلے میں لڑائیاں ہوتیں، مگر ایسی صورتحال پاکستان بھر میں کہیں نظر نہیں آتی، ایسے واقعات ایک منظم سازش کے تحت ٹارگٹ کلنگ اور اشتعال انگیزی ہے۔ ہاں شیعہ ہزارہ پر حملے کے بعد اگر تو شیعہ نوجوانوں نے سنی مساجد، مدارس، مزارات پر حملے کئے ہوتے تو کہہ سکتے تھے کہ دونوں مسالک کے درمیان لڑائی جاری ہے اور اسے فرقہ وارانہ رنگ دیا جا سکتا تھا۔ اس کیساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ جنگ دراصل سعودی عرب اور ایران کی ہے، جسے پاکستان کے اندر لڑا جا رہا ہے۔ یہ بھی تعصب پر مبنی تصور یا الزام ہے۔ اگر کچھ لوگ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای، آیت اللہ سیستانی، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی یا عراق سے آیت اللہ سید علی سیستانی یا حافظ بشیر حسین نجفی کی تقلید کو پراکسی وار سمجھ رہے ہیں تو یہ بہت حیرت انگیز اور خلاف حقائق سوچ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کہنے والوں کو شرعی اصطلاح تقلید اور اس کے احکامات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شیعہ مکتب میں تقلید کیا ہوتی ہے؟ اس کی شرائط اور وجوہات کیا ہیں۔؟

ان کو سمجھنا چاہیئے کہ شیعہ مجتہد اجتہاد کے ذریعے شرعی مسائل میں اپنے مقلدین کی رہنمائی کرتے ہیں، کسی دوسرے مکتبہ فکر کیخلاف اشتعال انگیزی پیدا نہیں کرتے۔ قرآن و حدیث سے شرعی مسائل اخذ کرنیوالے یہ مجتہد کسی غیر مسلم کی عبادت گاہ پر بھی حملہ کرنے کا نہیں کہتے، بلکہ اتحاد کی بات کرتے ہیں، جبکہ دوسری طرف سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں شیعہ کیخلاف کتابیں لکھوانے کیلئے وسائل مہیا کئے جاتے ہیں۔ پھر ان کتب کو سعودی عرب بھجوایا جاتا ہے، تاکہ حج کے موقع پر حجاج کرام میں تقسیم کی جا سکیں۔ اسی طرح حرم بیت اللہ میں کچھ اردو بولنے والے مولوی رکھے گئے ہیں، جو قرآن و حدیث کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کرکے شیعہ اور اہلبیت علیہم السلام کیخلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ اس لئے یہ فرقہ واریت کی جنگ نہیں، ظالموں کا مظلوموں پر حملہ ہے۔ پہلے ٹارگٹ کلنگ، ہینڈ گرنیڈ سے مساجد، مدارس، امام بارگاہوں اور گھروں پر حملے کئے جاتے تھے۔ نماز باجماعت، نماز جمعہ، عید، مجالس عزاء، عاشورہ اور چہلم کے جلوسوں پر حملے کرکے معصوم شہریوں کو شہید کیا جاتا رہا۔ خودکش حملے ہوتے رہے۔

یہ خودکش حملے پہلے تو یہ شیعوں پر شروع ہوئے پھر مارکیٹوں، حساس ادارے کے دفاتر اور حتیٰ کہ جی ایچ کیو پر بھی ہوئے اور اے پی ایس کے واقعہ نے تو پوری قوم کو رُلا کر رکھ دیا تو پتہ چلا کہ شیعہ کے علاوہ بھی کوئی دہشتگردی کا شکار ہوا ہے۔ اس کے بعد فاٹا میں فوجی آپریشن کیا گیا، لیکن پھر بھی پاراچنار، ڈیرہ اسمٰعیل خان اور کوئٹہ میں دہشتگردی جاری رکھی گئی، لیکن اس کے باوجود شیعہ نے سنی مساجد، مدارس، مزارات، یا کسی کے گھر پر حملے نہیں کئے۔ ریاست اور حکومت بھی شیعہ ہزارہ کے قتل عام پر بے بس دکھائی دیتی ہے۔ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد کرکے افغانستان سے روس کو بھگا دیا اور پوری دنیا اس کی صلاحیتوں کی معترف ہے۔ مگر یہ ایجنسی چھوٹے سے شہر کوئٹہ میں ہزارہ کا قتل رکوا سکی ہے اور نہ ہی بے گناہ شہیدوں کے قاتلوں کو بے نقاب کرسکی ہے۔ مجھے تو عمران خان کے بیان پر حیرت ہوئی اور اس کی دانشمندی پر افسوس بھی۔ کہا گیا سعودی عرب اور ایران، پاکستان میں پراکسی وار بند کریں۔

حیرت ہے کہ پراکسی وار کا الزام اگر درست ہوتا تو شیعہ مخالف فرقوں کے لوگ بھی قتل ہوتے، مگر ایسا نہیں، پراکسی وار پاکستان میں صرف ایک ملک کر رہا ہے۔ جو شیعہ کیخلاف نظریاتی طور پر پراپیگنڈہ کو پھیلا رہا ہے اور اس کے نمک خوار شیعہ کے قتل کے فتوے دیتے ہیں۔ مسلمہ اسلامی مکتبہ فکر اہل تشیع کے بارے میں تکفیری نعرے لگائے جاتے ہیں اور تقریریں کی جاتی ہیں، مگر ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں! شیعہ نے تو آج تک کسی کے کفر کا فتویٰ جاری نہیں کیا۔ اس حقیقت کو ہر ذی شعور شخص سمجھتا ہے کہ جو ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہے مسلمان ہے۔ مسلمانوں کے درمیان خلافت اور امامت کے نظریات پر تقسیم موجود ہے، اس سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔ ہاں سوائے منکرین ختم نبوت کے۔ بظاہر پڑھا لکھا طبقہ اینکر اور تجزیہ کار ایران کی طرف سے پراکسی وار کا پراپیگنڈہ کرتا ہے۔ ایک اینکر جو پہلے بیوروکریٹ تھا، کہتا ہے کہ کوئٹہ دھرنے اور شہداء کی تدفین کسی کی اپیل پر نہیں، ایران سے آرڈر پر ختم ہوئے ہیں اور یہ کہ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کے حکم سے جنازے اٹھائے گئے ہیں۔ اس لئے تاریں ایران سے ہلتی ہیں اور یہ کہ دھرنا بھی ایران کے کہنے پر طویل کیا گیا ہے۔ اس اینکر سے کہتا ہوں کہ خدا کا خوف کریں۔ جھوٹ اور بہتان کی شریعت میں بہت سزا ہے۔ آپ نے ایک دن مرنا بھی ہے۔ کیا اس دھرنے میں کسی مسلک کیخلاف نعرے بازی ہوئی یا اس میں جلاو گھیرا کیا گیا۔؟

ان کا صرف یہ مطالبہ تھا کہ وزیراعظم انہیں سکیورٹی کی یقین دہانی کروائیں اور انصاف دلائیں۔ چونکہ وزراء ہر بار آتے ہیں مگر کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن وزیراعظم کا یہ کہنا تھا انہیں بلیک میل نہ کریں، انتہائی پست ذہنیت کی علامت اور غیر ذمہ دارانہ بیان تھا۔ اس ملک میں شیعہ سنی کے حوالے سے فرقہ واریت نہیں، اس ملک میں داعش، طالبان یا القاعدہ ہو، سپاہ صحابہ یا لشکر جھنگوی بے گناہوں کا خون بہاتے ہیں۔ مگر ان کی کسی مسجد پر شیعہ نے کوئی حملہ نہیں کیا۔ تو شیعہ سنی لڑائی کیسی؟ ہم تمام مذاہب و مسالک کا احترام کرتے ہیں اور اینکر حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ لاعلمی کا سہارا لے کر ایسی باتیں نہ کریں، جو ظالم اور مظلوم کا فرق ہی مٹا دیں۔ یہ کہنا کہ دھرنے ختم کرنے کا حکم ایران سے آیا ہے، بھئی پاکستانی شیعہ ایران کے پابند نہیں۔ مجتہد اور رہبر ہمارے لئے شرعی حکم کیلئے اتھارٹی ہیں۔ جنہوں نے کبھی مسلمانوں کے باہمی اختلاف کی بات نہیں کی۔

کیا یہ اینکرز ہندووں کے کرک میں گرائے گئے مندر بارے بتائیں گے کہ یہ مسلمانوں نے مندر گرایا ہے، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ مندر کو شرپسندوں نے گرایا ہے، تو یہاں بھی یہی رویہ ہونا چاہیئے کہ شیعہ سنی کی لڑائی نہیں۔ شیعہ پر شرپسند اور دہشتگرد گروہ کا حملہ آور ہوتا ہے۔ کیونکہ ہندو بیچارے جوابی طور پر تو کرتے بھی کچھ نہیں۔ گرجا گھر یا قادیانیوں کی عبادت گاہ پر حملہ ہوتا ہے تو یہ نہیں کہا جاتا کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کی جنگ شروع ہے۔ اس لئے گزارش ہے کہ کسی کے بارے میں بات کرنے سے پہلے اور رائے قائم کرنے سے پہلے تحقیق ضروری ہے۔ تین دہائیوں سے پاکستان میں شیعہ قربانی دے رہا ہے۔ اربوں ڈالرز اور ریالوں کی سرمایہ کاری کی گئی، نجی عسکری تنظیمیں بنائی گئیں اور نفرت پر مبنی نعرے لگوائے گئے۔ اس لئے شیعہ سنی دہشتگردی کی بجائے، شیعہ پر ظلم کی بات کی جائے۔ شیعہ سنی اس ملک میں بھائی بھائی بن کررہ رہے ہیں، دشمن نہیں۔اعلمی کا سہارا لے کر ایسی باتیں نہ کریں، جو ظالم اور مظلوم کا فرق ہی مٹا دیں۔ یہ کہنا کہ دھرنے ختم کرنے کا حکم ایران سے آیا ہے، بھئی پاکستانی شیعہ ایران کے پابند نہیں۔ مجتہد اور رہبر ہمارے لئے شرعی حکم کیلئے اتھارٹی ہیں۔ جنہوں نے کبھی مسلمانوں کے باہمی اختلاف کی بات نہیں کی۔

کیا یہ اینکرز ہندووں کے کرک میں گرائے گئے مندر بارے بتائیں گے کہ یہ مسلمانوں نے مندر گرایا ہے، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ مندر کو شرپسندوں نے گرایا ہے، تو یہاں بھی یہی رویہ ہونا چاہیئے کہ شیعہ سنی کی لڑائی نہیں۔ شیعہ پر شرپسند اور دہشتگرد گروہ کا حملہ آور ہوتا ہے۔ کیونکہ ہندو بیچارے جوابی طور پر تو کرتے بھی کچھ نہیں۔ گرجا گھر یا قادیانیوں کی عبادت گاہ پر حملہ ہوتا ہے تو یہ نہیں کہا جاتا کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کی جنگ شروع ہے۔ اس لئے گزارش ہے کہ کسی کے بارے میں بات کرنے سے پہلے اور رائے قائم کرنے سے پہلے تحقیق ضروری ہے۔ تین دہائیوں سے پاکستان میں شیعہ قربانی دے رہا ہے۔ اربوں ڈالرز اور ریالوں کی سرمایہ کاری کی گئی، نجی عسکری تنظیمیں بنائی گئیں اور نفرت پر مبنی نعرے لگوائے گئے۔ اس لئے شیعہ سنی دہشتگردی کی بجائے، شیعہ پر ظلم کی بات کی جائے۔ شیعہ سنی اس ملک میں بھائی بھائی بن کررہ رہے ہیں، دشمن نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button