مضامین

حضرت سیدہ سکینہ بنت الحسین سلام اللہ علیہا کی مختصر زندگی

حضرت سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا کی ولادت ۲۰ رجب ۵۶ ھجری میں ہوئی۔ سکینہ کے معنی ہیں قلبی و ذہنی سکون۔ پر یہ بچی سکون سے نہ رہ سکی نازونعم سے پلی، باپ کے سینے پر سونے والی اپنی پھوپیوں کی چہیتی پیاری سکینہ 4 سال ہی میں یتیمہ ہو گئیں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کے حضور سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا کا خصوصی مقام تھا اور آپ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے انتہائی انس رکھتے تھے یہاں تک کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے آپ کے بارے میں اور آپ کی والدہ محترمہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں اشعارفرمائے جن میں

لعمرک اننی لاحب دارا —- تحل بھا سکینہ والرباب

اور اس کے علاوہ بھی جب واقعہ کربلاء مقدسہ میں جب آپ کی نظر سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا پر پڑی تو آپ نے فرمایا

سیطول بعدی یا سکینہ فاعلمی —- منک البکاء اذا الحمام دھانی

فاذا قتلت فانت اولی بالذی —- تاتینہ یا خیرۃالنسوان

اور یہ سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا ہی تھیں جو کہ ظلم بنی امیہ کی عینی شاہد تھیں جو کہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر ڈھائے گئے اور اس کے ساتھ سواری امام حسین علیہ السلام کا خالی خیام میں لوٹنا تھا جس کے ساتھ ہی خیام حسینی میں "ہائے بابا!” کی صدائیں بلند ہوئیں ۔

جب اسیران کربلاء کا قافلہ روانہ ہوا تو جسد مطہر حضرت امام مظلو م علیہ السلام پر خو د کو گرادیا اور جدا نہ ہوئیں یہاں تک کہ بنی امیہ کے کارندوں نے آپ سلام اللہ علیہا کو ظلم و جبر کیساتھ جدا کیا۔

کربلا معلی کا ذکر ہو اور سکینہ کا ذکر نہ ہو یہ نہیں ہو سکتا۔ ھمارے لاکھوں سلام اس معصومہ پر جو عاشور کے دن ڈھلنے تک اپنے سے چھوٹے بچوں کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتی رہی کہ ابھی عمو پانی لائیں گے

یزید لعین کا ظلم صرف کربلا میں جاری نہیں رہا بلکہ 61 ہجری سے 64 ہجری تک یذید ملعون نے وہ ظلم کیے کہ منجنیق سے خانہ کعبہ و مسجد نبوی بر پتھر برسا کر حرمت کعبہ کو پامال کیا، اور واقعہ کربلا کے بعد محمد (ص) و آل محمد (ص) کے گھرانے اہلبیت (ع) اطہار کے خواتین و بچوں کو بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کر کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسیر بنا کر شام و کوفہ کے زندانوں اور بازاروں میں پھرا کر قید کر دیا گیا۔ ان اذیتوں سے درجنوں کمسن بچے شہید ہوئے جن میں سے ایک امام حسین علیہ السلام کی چار سالہ کمسن بیٹی حضرت بیبی سکینہ(سلام اللہ علیہا) کی شہادت بھی 13 صفر کے دن زندان شام میں ہوئی۔ حق کی راہ میں ہر سن و عمر کے افراد حتی کہ کمسن بچوں و بچیوں تک نے قربانیاں دی ہیں۔ اگر ایک طرف میدان کربلا میں امام حسین(علیہ السلام) کے چھ ماہ کے شیر خوار فرزند علی اصغر(علیہ السلام) نے یزیدی فوج کا تیر ہنستے ہوئے سہہ کر وقت کے امام حضرت سید الشہداء نواسئہ رسول ص کی اطاعت کا حق ادا کیا تو دوسری طرف امام حسین (علیہ السلام) کی کمسن بیٹی حضرت بی بی سکینہ بنت حسین(س) نے دمشق و کوفہ کے بازاروں و زندانوں اور درباروں میں حق کی خاطر قربانیاں دے کر آخر کار 13 صفر المظفر یا بعض روایات کے مطابق 10 یا 11 صفر المظفر 62 ہجری میں زندان دمشق کے خرابہ میں جام شہادت نوش کیا۔ بی بی سکینہ بنت حسین (ع) امام علی (علیہ السلام) کی پوتی اور امام حسین (علیہ السلام) کی لاڈلی بیٹی فاطمہ بنت الحسین (علیہ السلام) جو تاریخ میں سیدہ سکینہ (عیہا السلام) کے نام سے معروف ہیں اور جن کا سن مبارک صرف ۴ برس کا تھا، جب بنی امیہ کے شجرہ خبیثہ کی علامت ملعون یزید ابن معاویہ نے کربلا میں خاندان عصمت و طہارات اہل بیت آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کیا تو صرف ان کی شہادت پر اکتفا نہ کیا بلکہ محمد و آل محمد (علیھم السلام) کےمخدرات عصمت و طہارت پاک بیبیوں حتی کہ یتیم بچوں و بچیوں کو 10 محرم کے بعد قیدی بنا کر بے کجاوہ اونٹوں کے ذریعے اپنے پایہ تخت دمشق و کو فہ کے بازاروں و درباروں تک لے جایا گیا اور یہ پروپیگنڈہ تک کروایا گیا کہ نعوذ باللہ ان اہل بیت اطہار نے ملعون خلیفہ یزید ابن معاویہ کی ظالم حکومت خلاف بغاوت کی تھی، اگر کوئی اس طرح کرے گا تو اس کا بھی یہی انجام ہو گا۔

شاید یزید کو معلوم نہ تھا کہ خاندان رسالت اور عصمت و طہارت کی خواتین و بچے ہوں یا پھر ان کے گھر کی کنیز فضہ ہی کیوں نہ ہوں یہ سب مفسر قرآن ہیں۔ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت علی (علیہ السلام) کی تربیت کی وجہ سے اپنے خطبات کے ذریعے بازاروں و درباروں میں انقلاب برپا کر سکتی ہیں اور ایسا ہوا بھی، حضرت علی (علیہ السلام) کی بیٹی زینب سلام اللہ علیہا و بی بی ام کلثوم س اور امام حسین(علیہ السلام) کی کمسن بیٹی بی بی سکینہ بنت حسین علیہا السلام نے اپنے کردار و خطبات کے ذریعے یزید اور یزیدیت کو تا قیامت لعنت کا حقدار کر کے باطل کی علامت قرار دیا۔ اس کا ذکر حکیم الامت علامہ اقبال نے بھی یوں کیا۔

حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق

یک حسین رقم کرد و دیگری زینب

خطبات

بی بی سکینہ بنت حسین(سلام اللہ علیہا) نے کوفہ میں ایک ایسا عظیم خطبہ ارشاد فرمایا کہ اہل کوفہ آپ (علیہا السلام) کی بلاغت و فصاحت پر دنگ رہ گئے اس خطبہ نے لوگوں کے دلوں کو کاٹ ڈالا اور لوگ غم کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئے اس خطبہ کا لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر پڑا اور ان کو احساس ہوا کہ ان سے کتنا گناہ عظیم سرزد ہوا ہے۔ حضرت سکینہ(سلام اللہ علیہا) کے خطبے کا متن کچھ یوں ہے:

"حمد ہے اللہ کی ریت کے ذروں اور سنگریزوں کے برابر ،عرش کے وزن سے لے کر زمین تک میں اس کی حمد بجا لاتی ہوں ،اس پر بھروسہ کرتی ہوں ،گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور حضرت محمد (ص) اللہ کے عبد اور رسول ہیں اور آپ ص کی طاہر اولاد کو فرات کے کنارے پیاسا ذبح کر دیا گیا۔ اے اللہ ! تو نے اپنی مخلوق سے علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی ولایت کا عہد لیا اور ان کو اس عہد کی وصیت کی لیکن مخلوق نے تیرا یہ عہد توڑ ڈالا اور آپ امیرالمومنین (علیہ السلام) کے حق کو غصب کر لیا گیا اور آپ (علیہ الصلواۃ والسلام) کو شہید کر دیا جیسے کل انہی کے بیٹے (حضرت امام حسین(علیہ السلام) کو شہید کیا گیا۔ اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے دادا (علیہ اسلام) کو تیرے گھر میں شہید کیا گیا جس میں دیگر مسلمان بھی موجود تھے اور انہوں نے اپنی زبانوں سے ان کی مظلومی کا اقرار کیا ان پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا گیا لیکن انہوں نے تیری خاطر صبر سے کام لیا اور وہ اس حال میں دنیا سے گئے کہ ان کی حمد بیان کی گئی اور ان کے فضائل و مناقب ہر جا معروف ہیں اور کوئی بھی ان کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ اے اللہ! میرا سن بہت چھوٹا ہے اور میرے دادا کے مناقب بہت عظیم ہیں، میں اس پر ان کی تعریف کرتی ہوں۔ اے اللہ! تو جانتا ہے میرے دادا نے ہمیشہ تیری توحید اور تیرے رسول کی حفاظت کی اور آپ کو دنیا سے کوئی غرض نہ تھی۔ آپ نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تونے ان کو چن لیا اور اپنی صراط مستقیم قرار دیا۔

اے کوفیو! اے مکر و فریب اور دھوکہ دینے والو! اللہ نے ہم اہل بیت (علیھم السلام) کے ذریعے تمہارا امتحان لیا اور تم کو ہمارے ذریعے آزمایا اور ہماری آزمائش کو حسن قرار دیا۔ اللہ نے اپنا علم ہمیں ودیعت فرمایا، ہم اس کے علم کے امانتدار ہیں اور ہم ہی اللہ کی حکمت کے مخزن ہیں اور ہم ہی آسمان و زمین پر اللہ کی حجت ہیں اللہ نے ہمیں اپنی کرامت سے شرف بخشا اور ہمیں ہمارے جد حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے اپنی ساری مخلوق پر فضلیت بخشی۔ تم نے ہمیں جھٹلا کر اللہ سے کفر کیا اور تم نے ہمارا قتل حلال جانا اور ہمارے مال کو لوٹا گویا ہم اولاد رسول نہیں، کہیں اور کے رہنے والے ہیں اور جس طرح کل تم لوگوں نے ہمارے دادا کو قتل کیا تھا تمہاری تلواروں سے ہمارا خون ٹپکا ہے کیونکہ تمہارے سینوں میں ہمارا بغض و کینہ بہت عرصے سے پرورش پا رہا تھا تم نے ہمیں قتل کر کے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی اور تمہارے دل خوش ہوئے تم نے اللہ پر افتراء باندھا اور تم نے فریب کیا، اللہ فریب کرنے والوں کے فریب کو ناکام بنانے والا ہے تم نے جو ہمارا خون بہایا ہے اس سے اپنے نفسوں کو خوش نہ کرو اور جو تم نے ہمارا مال لوٹا ہے اس سے بھی تمہیں کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے کیونکہ ہمیں جو مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا ہے یہ اللہ کی محکم کتاب میں پہلے سے ہی مذکور تھا، ہم پر ظلم و ستم ڈھا کر خوش نہ ہو بےشک اللہ تکبر اور غرور کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے۔ تمہارے لیے ہلاکت ہو عنقریب تم پر لعنت اور عذاب نازل ہو گا اور وہ تمہارا مقدر بن گیا ہے اور آسمان سے کثرت کے ساتھ تم پر عذاب آئیں گے اور تم عذاب عظیم دیکھو گے اور سختی کا تلخ ذائقہ چکھو گے اللہ کی ظالمین پر لعنت ہو۔ تمہارے لیے ویل (جھنم) ہے ہم جانتے ہیں کہ کس نے ہماری اطاعت کی کس نے ہمارے ساتھ جنگ کی کون ہماری طرف خود چل کر آیا تم تو ہمارے ساتھ جنگ چاہتے تھے تمہارے دل سخت ہوگئے تمہارے جگر غلیظ ہوگئے اللہ نے تمہارے دلوں ،کان،آنکھوں پر مہر لگا دی تمہارا پیشوا شیطان ہے جس نے تمہاری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور تم ہدایت سے دور ہو گئے۔

اے کوفیو! تمہارے لیے ہلاکت ہے، رسول اللہ نے تمہارے ساتھ کیا برا کیا تھا جس کے بدلے میں تم نے اس کے بھائی اور میرے دادا علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا اور اس کی پاک عزت کے ساتھ کیا کیا؟ ہمارا قتل اور ہمیں قیدی بنا کر تم فخر کرتے ہو کیا یہ امت اس پاک گھرانے کے قتل پر فخر محسوس کرتی ہے جسے اللہ نے پاک و پاکیزہ بنایا اور ہر رجس کو ان سے دور رکھا ؟ہر شخص کو وہی ملتا ہے جسے وہ کسب کرتا ہے اور جو وہ آگے بھیجتا ہے ۔تمہارے لیے ویل ہے تم نے ہم پر حسد کیا جو اللہ نے ہمیں عظمت و فضیلت عطا کی تھی وہ تمہارے حسد کا نشانہ بنی اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے وہ صاحب فضل عظیم ہے جس کے لیے اللہ نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نور ہو ہی نہیں سکتا ۔

نبوت اور امامت کی پروردہ نے اپنے اس عظیم خطبے میں چند اہم امور پر گفتگو فرمائی:

۱۔سیدہ سکینہ نے اپنے دادا حضرت امیرالمومنین علی(علیہ السلام) کی ولایت کے عہد کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا اور آپ (ع) کے مصائب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جو حق ہے اور زمین پر مجسمہ عدل ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے گھر میں شہید کر دئیے گئے۔ امیرالمومنین (ع) وہ شخصیت ہیں جن کو اللہ نے چن لیا اور اپنی صفات و فضائل و مناقت سے آپ (ع) کو مخصوص کر دیا

۲۔ حضرت سیدہ سکینہ(علیہا السلام) نے اہل بیت(علیہم السلام) کے مصائب کا ذکر فرمایا، ان پر اللہ کا سلام ہو وہ امت کے روحانی پیشوا ہیں ان سے پوچھا جائے گا کہ کس نے ان کی نصرت کی اور کس نے دشمنی اور امت نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور جس طرح آل محمد (علیھم السلام) کا خون بہایا اور جس طرح آل محمد(علھم السلام)نے مصائب و آلام برداشت کئے ۔

۳۔ اہل بیت (علیھم السلام) پر کی جانے والی زیادتیوں کا بیان کیا کہ ظالم افراد جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، نے کتنا ظلم ڈھایا اور ان کو اللہ کے سخت ترین عذاب کی نوید بھی سنائی۔ لوگوں کے نفوس میں اس خطاب کا گہرا اثر ہوا جس سے لوگوں کے دل جلنے لگے اے طاہرین کی بیٹی! خدارا اپنے کلام کو روک دیجئے آپ نے ہمارے دلوں میں آگ لگا دی اور ہماری سانسیں ہمارے حلق میں اٹک گئی ہیں حتی کہ اس مجمعے میں موجود بعض افراد نے یزید ملعوں اور اس کے افواج کے خلاف علم جہاد اٹھا کر جام شہادت نوش کیا۔ کربلا اور معرکہ حق و باطل آج بھی ہمارے ارد گرد جاری ہے کسی شاعر نے کیا خوب کہا اسکی نشاندہی کی ہے۔

حیات الامام الحسین (ع) جلد ۳، ص۲۳۰، سیرت سیدہ زینب الکبری(ع) ، تاریخ الحسین (ع)۔

یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں محرم کے ساتھ ساتھ صفر کے مہینے میں بھی عزاداری و مجالس اور چہلم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

معرکہ حق و باطل کربلا کی ایک اہم اہمیت یہ ہے کہ اس واقعے میں بچوں،خواتین و بزرگوں حتی کہ اس وقت تک زندہ رہنے والے بعض اصحاب رسول ص جیسے بزرگ صحابی حضرت حبیب ابن مظاہر تک نے شرکت کرکے حق و حسینت کے لئے قربانیاں دی۔ یہ بات حدیث و تاریخ کی متفقہ کتب میں ملتی ہے کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زندگی ہی میں واقعہ کربلا کے پیش ہونے اور بنی امیہ و ملوکیت کے ڈکٹیٹر یزید لعین کی طرف سے امام حسین(علیہ السلام) کی شہادت کا اشارہ کیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ السلام نے اپنی زوجہ حضرت بی بی امہ سلمہ کو خاک کربلا دے کر فرمایا تھا کہ دس محرم کے دن یہ خاک سرخ رنگ میں تبدیل ہوگی اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کربلا میں میرا نواسہ سید الشہدا حضرت امام حسین تین دن کا بھوکہ و پیاسا شہید کیا جائیگا۔ تاریخ کی کتب میں زوجہ حضرت بی بی امہ سلمہ کے حوالے سے درج ہے کہ عاشورا دس محرم کو وہ مٹی سرخ رنگ خون میں تبدیل ہوئی تھی۔

تاہم تاریخ کی یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وفات کے بعد حتی کہ یزید لعین کے دور میں بعض صحابہ و تابعین نے نہ صرف محمد و آل محمد علیہم سلام کے اتباع سے انکار کیا بلکہ اہلبیتؑ کو اتنے مصائب و مظالم کا شکار کیا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔حالانکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسے حدیث ثقلین بھی کہا جاتا ہے جو صحیح مسلم سمیت صحاحہ ستہ کی اکثر کتب میں ان الفاظ کی صورت میں موجود ہے کہ، میں(رسول صلی اللہ علیہ وآؒہ وسلم) تمہارے درمیان دو گران قدر چیزیں کتاب اللہ اور اپنی عترت اہل بیت علیہم سلام چھوڑ کے جا رہا ہوں اگر میرے بعد تم نے ان کی اطاعت و اتباع کیا تو تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر روز قیامت میرے ساتھ مل جائیں گےـ کے علاوہ یہ مشہور حدیث یہ میرے دو بیٹے حسن و حسین ،حسنین علیہ سلام امام ہیں چاہے صلح کریں یا جنگ اور ان کے والد و میرے بھائی حضرت امام علی علیہ سلام ان دونوں سے افضل ہیں۔

کربلا ميں بچوں کا کردار:
جب کہ کربلا کے میدان جنگ میں چھ ماہ کے شیر خوار علی اصغر سمیت ایسے درجنوں بچوں نے حق و امام حسین علیہ سلام پر جان نچھاور کر دی یا پھر واقعہ کربلا کے بعد یزیدی فوج کی طرف سے مخدارات عصمت و طہارت سمیت قید و بند اور شام و کوفہ کے زندانوں میں مصائب و آلام کا اس طرح سے مقابلہ کیا کہ کربلا سے شام و کوفہ کے زندانوں تک بغیر کجاوہ کے اونٹوں پر لے جاتے ہوئے یا مظالم سے شہید ہوتے گئے،لیکن یزیدیت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکا کرتے گئے۔

میدان کربلا اور کربلا سے شام و کوفہ کے زندانوں تک لے جاتے ہوئے یزیدی فوج کی مظالم سے شہید ہونے والوں میں کئی بچوں میں سےچھ ماہ کے شیر خوار علی اصغر سمیت شریکتہ الحسین حضرت بی بی زینب (س) کے دو بیٹے عون و محمد کے علاوہ حضرت جعفر طیارکے نواسے اور سفیر حسین حضرت مسلم بن عقیل کے دو کمسن فرزندان کے علاوہ نواسہ رسول ص امام حسن ابن علی(علیہ السلام) کے تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن(علیہ السلام) کی لازوال قربانی شامل ہے،اسی طرح امام حسین کی چار سالہ بیٹی بی بی سکینہ بنت حسین کا یزیدی فوج کے مظالم برداشت کرتے ہوئے زندان شام دمشق میں شہادت بچوں کی قربانیوں کا درخشان باب ہے۔

میدان کربلا ميں بچوں کا کردار واضح تر کرنے کے لئے تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن (ع) کا یہ واقعہ ہی کافی ہے کہ جب امام حسین (علیہ السلام) نے تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن (علیہ السلام) سے پوچھا کہ میرے بھتیجے تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن (علیہ السلام) تم حق کی راہ میں موت کو کیسے پاتے ہو تو تیرہ سالہ کمسن فرزند قاسم ابن حسن (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں موت کو شہد سے زیادہ شیرین پاتا ہوں۔ اسی طرح امام حسین کے اٹھارہ سالہ کڑیل جوان نے اسی طرح کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جب ہم حق پر ہے تو اس کی پرواہ نہیں کہ موت ہم پر پڑے یا ہم موت پر۔۔یہ گھرانہ آل محمد(ص) کی تربیت ہی کا اثر تھا اور امام حسین (ع) فرماتے تھے کہ میں ظالموں کے ساتھ رہنے اور ان کی بادشاہت یا ڈکٹیٹر شپ ماننے کی بجائے شہادت کو ترجیح دیتا ہوں۔کیونکہ ذلت ہم اہلبیت (ع) سے دور ہے۔

میدان کربلا میں بچوں بزرگوں اور خواتین کا نمایاں کردار ہمیں آج کی کربلا یا دور حاضر میں اپنا کردار ادا کرنے کا سبق دیتے ہیں۔

یزید کا دربار اور حضرت سکینہ بنت حسین(سلام اللہ علیہا) کا خواب:
شام میں پیش آنے والے عجیب اور غریب واقعات میں سے ایک شہزادی حضرت سکینہ کا وہ خواب ہے جو آپ نے یزید کے دربار میں دیکھا تھا۔

حضرت سکینہ نے دربار شام میں یزید سے فرمایا: میں نے ایک خواب دیکھا ہے اگر تو سنے! تو میں بیان کروں ، یزید سننے کے لئے تیار ہو گیا،آپ نے فرمایا : کل رات جیسے ہی میں نماز ، دعا اور تعقیبات سے فارغ ہوئی اچانک مجھے بابا کی یاد ستانے لگی میں بہت روئی اور روتے روتے میری آنکھ لگ گئی ،میں نے خواب میں دیکھا :گویا آسمان کے تمام دروازے میرے لئے کھول دئے گئے ہیں اور میں ایک ایسے نور کے بقعہ میں ہوں جس کا نور آسمان سے زمین تک پھیلا ہوا ہے۔

اس کے بعد میں نے اپنے باپ کو جنت کے ایک باغ میں پایا اور وہاں ایک خادم کو دیکھا جو اس باغ میں تھا جیسے ہی میں باغ میں داخل ہوئی ایک عالی شان محل میرے سامنے تھا جیسے ہی میں نے داخل ہونے کا قصد کیا میرے ساتھ پانچ افراد اور داخل ہونے لگے میں نے خادم سے پوچھا:یہ محل کس کا ہے ؟ خادم نے جواب دیا: یہ تمہارے بابا کا محل ہے جو اللہ نے انہیں ان کے عظیم صبر کے بدلے میں عطا فرمایا ہے۔

میں نے اس سے دوسرا سوال کیا: یہ پانچ با جلالت و با عظمت افراد کون ہیں جو میرے ساتھ وارد قصر ہونا چاہتے ہیں ؟ اس نے ہر ایک کی طرف اشارہ کر کے مجھے بتانا شروع کیا :یہ پہلے !ابو البشر حضرت آدم ہیں ،یہ حضرت نوح ہیں ،یہ تیسرے حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں ،اور یہ چوتھے حضرت موسیٰ کلیم اللہ ہیں میں نے اس سے پوچھا کہ یہ بزرگ کون ہیں ؟ کہ جو اپنی داڑھی پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور آثار غم و حزن ان کے چہرے سے ظاہر ہیں ، اور مسلسل جن کی آنکھوں سے آنسو نکل کر رخساروں پر بہہ رہے ہیں؟ اس نے جواب دیا: آقا زادی! ان بزرگ کو نہیں پہچانتی ؟ میں نے کہا :نہیں ، اس نے کہا :یہ تمہارے جد اللہ کے رسول حضرت محمّد مصطفی(ص) ہیں جو حضرت امام حسین(ع) سے ملاقات کے لئے آئے ہیں

حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کہتی ہیں:کہ میں دوڑتی ہوئی اپنے جد کے قریب گئی اور ان کے سامنے یہ بین کرنے لگی ،”یاجدّاہ قتلت و اللہ رجالنا و سفکت و اللہ دماءنا و ھتکت حریمنا و حملنا علی الاقطاب من غیر قطاع و نصاب الی یزید”

اے نانا خدا کی قسم ہمارے مردوں کو مار ڈالا گیا ، ہمارے خون کو بہایا گیا ، ہماری بے حرمتی کی گئی اور ہم کو برہنہ پشت اونٹوں پر سوار کر کے شام تک لایا گیا، یہ سن کر پیغمبر نے مجھے اپنی آغوش میں لیا اور آدم و نوح و ابراہیم اور موسیٰ کی طرف رخ کر کے فرمایا” اما ترون ماصنعت امتّی بولدی من بعدی "کیاتم نے نہیں دیکھا میری امّت نے میرے بعد میرے نور نظر کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ خادم نے کہا : سکینہ بی بی خاموش ہو جائیں !تم نے اپنے نانا کو بہت غم زدہ اور محزون کر دیا ہے۔

اس کے بعد اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اس قصر کے اندر لے گیا جہاں میں نے ان پانچ عورتوں کو دیکھا جن کا وجود نور خدا سے منّور تھا ان کےدرمیان ایک معظمہ کو دیکھا جو ہر اعتبار سے ممتاز تھیں بال پریشان، سیاہ لباس میں ملبوس اور ایک خون بھرا کرتا ہاتھوں میں لئے ہوئے تھیں، جب وہ اٹھتی تھیں تمام عورتیں ان کے احترام میں کھڑی ہو جاتی تھیں میں نے خادم سے سوال کیا یہ کون ہیں ؟ خادم نے مجھ سے ان سب کا تعارف کرایا: یہ خاتون مریم ہیں ،یہ خدیجہ ،یہ ہاجرہ ،اور یہ سارہ ہیں اور یہ خاتون کہ جن کے ہاتھوں میں خون بھرا کرتا ہے یہ جنّت کی تمام عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ زہرا ہیں یہ سن کر میں اپنی دادی کے پاس گئی اور کہا:”یاجدّتا،قتل و اللہ ابی و اتمت علی صغر سنّی "دادی جان ! خدا کی قسم، ظالموں نے میرے بابا کو قتل کر کے مجھے اس کم سنی میں ہی یتیم کر دیا، میری دادی نے میرے یہ بین سن کر مجھے اپنی آغوش میں لے لیا اور آہ و بکا کر نے لگیں اب کیا تھا وہ عورتیں بھی رونے لگیں اور بصد احترام عرض کی: اے سیّدہ عالمیان! صبر کرو! خدا تمہارے اور یزید کے درمیان فیصلہ کرے گا۔

اسکے بعد صدّیقہ طاہرہ نے مجھ سے فرمایا: کفّی صوتک یا سکینہ فقد قطعت نیّاط قلبی ھذا قمیص ابیک الحسین لایفارقنی حتّی القی اللہ بہ۔

"میری لاڈلی سکینہ ! اب نہ رونا تیری صدائے گریہ نے مجھے ہلاکر رکھ دیااور دیکھ یہ تیرے بابا حسین کا خون بھرا کرتا ہے اسے اس وقت تک ہاتھوں سے نہ چھوڑوں گی جب تک خدائے واحد سے ملاقات نہ کر لوں۔

1: بحارالانوار،ج۴۵ ص۱۴۰۔۱۴۱،باب ۳۹

2: مثیر الاحزان،ابن نما الحلی،ص۱۰۴۔۱۰۵

3: الملہوف علی قتلی الطفوف،ص۱۸۸۔۱۸۹

4: العوالم،عبداللہ البحرانی،ص۴۴۰

5: منتھی الآمال ،القمّی،ج۲ ص۱۰۰۴۔۱۰۰۶

13 صفر 61 ہجری، شہادتِ بی بی سکینہ بنتِ حسین(سلام اللہ علیہا):
حبیبِ خدا، رحمت العالمین، محمد مصطفٰی (ص)ص کے چھوٹے اور لاڈلے نواسے ، علی و فاطمہ (س) کے دل کا چین، نورِ عین شافیِ محشر حضرت امام حسین (ع) نے فرمایا کہ سکینہ میری نمازِ شب کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ۔

بی بی سکینہ (س) ۲۰ رجب ۵۶ ھجری میں اس جہانِ فانی میں متولد ہوئیں سکینہ کے معنی ہیں قلبی و ذہنی سکون۔ پر یہ بچی سکون سے نہ رہ سکی ناز و نعم سے پلی، باپ کے سینے پر سونے والی اپنی پھوپیوں کی چہیتی پیاری سکینہ 4 سال ہی میں یتیم ہو گئی۔

کربلا کا ذکر ہو اور سکینہ کا ذکر نہ ہو یہ نہیں ہو سکتا۔ ہمارے لاکھوں سلام اس معصومہ پر جو عاشور کے دن ڈھلنے تک اپنے سے چھوٹے بچوں کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتی رہی کہ ابھی چچا پانی لائیں گے۔ معصوم کو کیا خبر تھی کہ اس کے چچا عباس تو آج نہر کے کنارے اپنے بازو کٹائیں گے۔

عصرِ عاشور سے پہلے جنابِ عباس (ع) کی شہادت کے بعد سکینہ خاموش ہوگئی اور پھر موت کے وقت تک پانی نہ مانگا کیونکہ سکینہ کو آس تھی کہ چچا عباس ہی پانی لائیں گے تاریخ گواہ ہے کہ شہادتِ جنابِ عباس علمدار (ع) کے بعد العطش العطش (ہائے پیاس ہائے پیاس) کی صدائیں نہیں آئیں۔

مقتل میں لکھا ہے کہ جب ۱۱محرم 61 ھجری کو آلِ اطہار کو پابندِ سلاسل کر بازاروں سے گزارا گیا تو اس معصوم کو سب سے زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام اور ۔۔۔۔ پھر زندانِ شام کہ آخری آرامگاہ بھی وہی قیدخانہ بن گیا۔۔۔۔

ایک روز جب بی بی سکینہ اپنے بابا کو بہت یاد کررہی تھیں اور بہت آہ و بکا کیا ۔۔۔۔۔ تمام بیبیاں رو رہی تھیں یزید نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ کیا معاملہ ہے اس کو بتایا گیا کہ حسین ابنِ علی (ع) کی چھوٹی بچی اپنے بابا کو یاد کر کے رو رہی ہے ۔۔۔ یزید ملعون نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ اس کو کس طرح خاموش کیا جائے یزید کو بتایا گیا کہ اگر سرِ حسین (ع) زندان میں بجھوادیں تو یہ بچی خاموش ہوجائے گی ، پھر ایسا ہی ہوا سرِ امام حسین(ع) زندان میں لایا گیا ۔۔۔ اک حشر برپا ہوا ، تمام بیبیاں احتراماً کھڑی ہوگئیں۔

سید سجاد ، عابدِ بیمار طوق و زنجیر سنبھالے بابا حسین کے سر کو لینے آگے بڑھے سکینہ کی گود میں جب بابا کا سر آیا بے چینی سے لرزتے ہونٹ امامِ عالی مقام کے رخسار پر رکھ دیے ، کبھی ماتھا چومتی کبھی لبوں کا بوسہ لیتیں روتی جاتیں اور شکوے کرتی جاتیں۔

بابا ۔۔۔ بابا مجھے طمانچے مارے گئے ۔۔۔۔بابا میرے کانوں سےگوشوارے چھینے گئے ۔۔۔۔ میرے کان زخمی ہوگئے میرے دامن میں آگ لگی بابا نہ آپ آئے نہ عمو آئے نہ بھائی اکبر آئے ۔۔۔۔ بابا ہمیں بازاروں میں گھمایا گیا بابا اس قید خانے میں میرا دم گھٹتا ہے ۔۔۔۔ پیاسی سکینہ روتی رہی ہچکیوں کی آواز بتدریج ھم ہوتی گئی ۔۔۔ پھر

بالآخر خاموشی چھاگئی ۔۔۔۔۔۔ سید سجاد کھڑے ہو گئے پھوپی زینب کو سہارا دیا اور بلند آواز میں فرمایا: انا للہِ وانا الیہِ راجعون

سکینہ ہمیشہ کے لیئے خاموش ہو گئی شام میں یزید کے محل کے ساتھ اس چھوٹے سے قید خانہ میں ہی اس معصوم بچی کو اسی خون آلود کرتے میں دفنا دیا گیا جو لوگ شام میں زیارات کے لیے جاتے ہیں اس بی بی کے مزار پر ضرور دیا جلاتے ہیں۔

اے پروردگار اس معصوم سکینہ (س)کی یتیمی کے صدقے کسی بچی کو اس کم سنی میں یتیم نہ کرنا ۔۔آمین۔۔

یارب کوئی معصومہ زنداں میں نہ تنہا ہو
پابند نہ ہوں انہیں رونے پہ نہ پہرا ہو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button