
میدان جنگ سے میدان سیاست تک کامیابی و کامرانی
تحریر: علی احمدی
لبنان کی وزارت داخلہ نے حال ہی میں منعقدہ لوکل الیکشن کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے بیانیے میں کہا گیا ہے: اس الیکشن میں ٹرن آوٹ یوں رہا: بیروت 20 فیصد، بقاع 43 فیصد، ہرمل 90 فیصد اور بعلبک 47 فیصد۔ العہد نیوز ویب سائٹ نے بھی لبنان کے لوکل الیکشن کے ابتدائی نتائج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بقاع صوبے کے تمام حلقوں میں حزب اللہ لبنان سے وابستہ "ترقی اور وفاداری” اتحاد کی فتح کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح صوبہ ہرمل اور زحلہ علاقے کے دیہاتوں میں بھی ترقی اور وفاداری اتحاد کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اس اتحاد میں امل تحریک اور مائیکل عون کی قومی آزاد تحریک بھی شامل ہیں۔ ان علاقوں میں سمیر جعجع کی پارٹی کے امیدواروں کو حزب اللہ لبنان کے مقابلے میں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
لبنانی اخبار الاخبار کے مطابق حزب اللہ لبنان اور امل تحریک نے بعلبک اور اس کے مضافات میں اسلامی مزاحمت کے دشمنوں کو الیکشن میں شدید شکست دی ہے۔ بقاع میں حزب اللہ لبنان کے مسئول حسین النمر نے اس بارے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ترقی اور وفاداری اتحاد کی لسٹ میں شامل تمام امیدوار کامیاب ہو گئے ہیں۔ المنار چینل کی رپورٹ کے مطابق اس لسٹ میں شامل امیدواروں نے 6 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے تمام نشستیں اپنے نام کر لی ہیں۔
دشمنوں کی سازشیں ناکام ہو گئیں
لبنان کے حالیہ لوکل الیکشن میں حزب اللہ لبنان اور اس کے اتحادیوں نے ایک بار پھر دشمنوں کی سازشوں اور منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے اور شاندار فتح حاصل کر لی ہے۔ اسلامی مزاحمت کے دشمن بعض غیر ملکی قوتوں کی حمایت سے لبنانی عوام میں اختلاف اور تفرقہ ڈال کر حزب اللہ لبنان کو شکست دینے کے درپے تھے لیکن انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔
عوام کی جانب سے الیکشن میں بڑی تعداد میں شرکت اور حزب اللہ لبنان کو ووٹ دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرونی اور اندرونی سازشیں اسلامی مزاحمت پر عوام کا اعتماد ختم کرنے میں ناکامی کا شکار ہوئی ہیں۔ اس الیکشن میں دشمن کی حکمت عملی مذہبی اور سیاسی اختلافات کو ہوا دے کر اور حزب اللہ لبنان کے خلاف بڑے پیمانے پر منفی پروپیگنڈہ انجام دے کر عوام میں حزب اللہ کی حمایت کم کرنے پر استوار تھی۔ دوسری طرف لبنانی عوام نے اعلی درجہ بصیرت کا مظاہرہ کیا اور ان تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ اس الیکشن کے نتائج نہ صرف حزب اللہ لبنان اور اس کے اتحادیوں کے لیے سیاسی فتح ہیں بلکہ خطے میں امریکی صیہونی منصوبے پر کاری ضرب بھی ہیں۔ اس کامیابی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ لبنان میں اسلامی مزاحمت کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور دشمن کی سازشیں اسے کمزور نہیں کر سکتیں۔
حزب اللہ لبنان کا ناقابل تزلزل چہرہ
جنوبی لبنان اور بقاع کے علاقے میں حزب اللہ لبنان کی مقبولیت کے گہرے تاریخی، سماجی اور سیکورٹی اسباب پائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ حزب اللہ نے جنوبی لبنان پر صیہونی رژیم کے فوجی قبضے کے بعد 1980ء اور 1990ء کے عشروں میں بے مثال مزاحمت کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں اسرائیل وہاں سے نکل جانے پر مجبور ہو گیا۔ لہذا جنوبی لبنان کے شہریوں کی اکثریت اپنی آزادی اور خودمختاری کو حزب اللہ لبنان کا تحفہ سمجھتے ہیں۔ اس تاریخی کردار نے حزب اللہ لبنان کو قومی سلامتی اور ملکی سالمیت کی علامت بنا دیا ہے۔ مزید برآں، حزب اللہ لبنان نے جنوبی لبنان کے محروم علاقوں میں وسیع سماجی اور فلاحی نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے جن کے ذریعے ضرورت مند شہریوں کی مدد اور دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ حزب اللہ لبنان سے وابستہ اداروں جیسے شہید فاونڈیشن اور جہاد البناء فاونڈیشن عوام کے حقیقی معنوں میں مددگار ہیں۔
خون شہداء سے مزاحمت کے درخت کی آبیاری
حزب اللہ لبنان کے اعلی سطحی کمانڈرز جیسے عماد مغنیہ، مصطفی بدرالدین اور دیگر معروف شخصیات کی شہادت نے نہ صرف اس تحریک کو کمزور نہیں کیا بلکہ اسے جہاد اور مزاحمت کا راستہ جاری رکھنے کی زندہ علامت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان شہداء کے خون نے مقدس آگ کی مانند نئی نسل میں انقلابی جذبہ بھر دیا ہے۔ اسی طرح سید حسن نصراللہ اور شیخ نعیم قاسم کی حکمت آمیز قیادت نیز شہادت پسندانہ مکتب اس بات کا باعث بنی ہے کہ ہر شہید کے خون سے دسیوں نئے مجاہد سامنے آ جائیں۔ آج ہم ایسے مجاہد لبنانی جوانوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو زیادہ مضبوط ارادے اور جذبے سے اسلامی مزاحمت کی صف میں حاضر ہیں۔ شیخ صفی الدین اور دیگر شہداء کمانڈرز نے ایسا ورثہ چھوڑا ہے جو قبرستان میں نہیں بلکہ میدان جنگ اور انقلابی جوانوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
لبنان میں وحدت کا راز
لبنان مختلف اقوام، مذاہب اور سیاسی گروہوں کا پیچیدہ مرکب ہے اور مغربی ایشیا کا ایسا ملک ہے کہاں سب سے زیادہ ثقافتی تنوع پایا جاتا ہے۔ لبنان میں شیعہ، سنی، مارونی مسیحی، دروزی اور دیگر مذہبی اقلیتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے ہر ایک خاص تشخص کی حامل ہے۔ ایسے حالات میں حزب اللہ لبنان نے اس سماجی حقیقت کو اچھی طرح درک کرتے ہوئے نہ صرف اہل تشیع مسلمانوں بلکہ تمام لبنانی شہریوں اور قومی سالمیت کے دفاع کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ حزب اللہ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلامی مزاحمت ایک قومی ادارہ ہے اور تمام تر مذہبی، سیاسی اور قومی تقسیم بندیوں سے بالاتر ہے۔ حزب اللہ لبنان نے مزاحمتی نظریے اور سیاسی افادیت میں امتزاج کے ذریعے ملک کے تمام گروہوں سے رابطہ برقرار کر رکھا ہے اور ان کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔