مضامینہفتہ کی اہم خبریں
سید باقر صدر، صدی کا نابغہ
تحریر: سید عباس حسینی
اپنے جد بزرگوار حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے جوار، کاظمین شہر میں 1934 میں آپ کی ولادت ہوئی۔ بچپن میں ہی یتیمی کا روگ سہنا پڑا، چونکہ ابھی آپ بچپن کی بہار سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوئے تھے کہ والد محترم سید حیدر صدر داغ مفارقت دے گئے۔ آپ کی والدہ اور بھائی سید اسماعیل صدر کا آپ کی تربیت میں اہم کردار رہا۔ بچپن میں ہی آپ کی ذہانت زبان زد عام تھی، جس کی دلیل یہ ہے کہ جب آپ کو اسکول میں داخل کرایا گیا تو سال کے وسط میں اساتذہ اس نتیجے پر پہنچے کو بچے کو اگلی کلاس میں بھیج دیا جائے۔ اور پھر اگلے ایک سال میں آپ نے تیسری اور چوتھی کلاس کا بھی کورس مکمل کر لیا۔
جب سید کی عمر دس گیارہ سال تک پہنچی تو اپنے آپ کو فیملی کے اندر دو راستوں کے درمیان پایا۔ کچھ کا خیال تھا سید باقر صدر کو بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیج دیا جانا چاہیے۔ جبکہ خود سید دینی تعلیم اور حوزہ علمیہ میں داخل ہونے کے متمنی تھے۔ تین دن کی بھوک ہڑتال کے ذریعے سے آپ نے اپنا مطالبہ منوایا اور سب لوگ اس بات پر راضی ہوگئے کہ سید کو حوزہ علمیہ بھیج دیا جائے۔ 1946 میں (آپ کی عمر 12 سال بنتی ہے)۔ آپ اپنے بھائی سید اسماعیل صدر کے ساتھ ہجرت کر کے کاظمین سے نجف اشرف تشریف لائے۔ اس دور میں آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ حوزے کی اکثر کتابیں بغیر استاد کے خود سمجھ سکتے تھے۔ سید باقر صدر دن میں سولہ گھنٹے تحصیل، مطالعے اور تفکر میں مشغول رہتے۔ کورس کی کتابوں کے علاوہ اخبار اور رسالوں کا مطالعہ بھی آپ کا شوق تھا۔ اکثر آپ امیر المومینؑ لائبریری اور نجف کی شوشتری لائبریری میں مصروف مطالعہ ہوتے۔
شیخ محمد رضا آل یاسین اور سید خوئی کے درس خارج سے استفادہ کیا۔ فقہ اور اصول کے درس خارج کو دس سال کی مختصر مدت میں ختم کیا۔ علماء نے واضح طور پر بیان کی ہے کہ ۲۲ سال کی عمر میں باقر صدر مسلم مجتہد تھے۔ جب آپ کی کتاب "فدک فی التاریخ” سید عبد الحسین شرف الدین تک پہنچی اور انہوں نے کتاب کو پڑھا تو فورا بے اختیار بول پڑے، خدا کو گواہ مان کر کہتا ہوں کہ آپ مجتہد ہیں۔ یاد رہے جس وقت یہ کتاب لکھی گئی ہے اس وقت شہید کی عمر صرف 20 سال تھی۔ سید خوئی نے آپ کو 22 سال کی عمر میں اجتہاد کا اجازہ عطا کیا۔ ایسا ہونا تشیع کی تاریخ کا نادر موقع ہے۔ ۲۶ سال کی عمر میں سید باقر صدر نے خود اصول کا درس خارج دینا شروع کیا اور پھر دو سال بعد فقہ کا بھی درس خارج بھی پڑھانا شروع کیا۔ اسی دوران آپ نے بہت سارے اچھے شاگرد تربیت کیے جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے تھا۔
1962 میں سید موسی صدر کی ہمشیرہ کے ساتھ آپ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ آپ کی اہم تالیفات میں ہمارا فلسفہ، ہمارا اقتصاد، استقرا کی منطقی بنیادیں، اسلام میں بغیر سود کے بینک، قرآنی مکتب، ائمہ اہل بیت ؑاور دوسری دسیوں کتابیں اور لیکچرز ہیں۔ آپ نے فقہ، اصول، تفسیر، فلسفہ، عقائد، تاریخ، اقتصاد وغیرہ کے موضوعات پر مفید تحریریں لکھیں۔ سید محمد باقر صدر نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس موضوع میں تقلید کی بجائے جدید نظریات پیش کیے۔ آپ نے اسلام کے اقتصادی، معاشرتی، فکری نظام کو قرآن وحدیث اور عقلی بنیادوں پر بیان کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام پر کاری ضربیں لگائیں اور ان کے مقابلےمیں اسلام کے خالص نظام کو بیان کیا۔ آپ تصنیفات آج بھی محققین کے مطمع نظر اور بہت ساری یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔
علمی میدان کے علاوہ آپ نے عملی طور پر سیاسی اجتماعی میدان میں بھی قدم رکھا۔ 1957 میں عراق کے اندر "الدعوہ اسلامی پارٹی” کی بنیاد رکھی اور وہاں کے مظلومین کے اجتماعی سیاسی حقوق کے حصول کے لیے میدان میں اترے۔ آہستہ آہستہ اس پارٹی کی جڑیں معاشرے میں مضبوط ہونے لگیں اور حکومت وقت اسے اپنے لیے خطرہ محسوس کرنے لگی۔ اسی دوران آپ نے اپنے ایک مشہور فتوے میں عراق کی بعث پارٹی میں شمولیت کو حرام قرار دیا جس سے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ ایران میں اسلامی انقلابی کی کامیابی کے بعد آپ نے فورا اس انقلاب کی تائید کی اور مبارکباد پیش کی، جس سے بعثی حکومت مزید طیش میں آگئی۔ حکومت کی طرف سے کئی بار مختلف پرکشش آپشنز آپ کے سامنے رکھے گئے لیکن آپ نے ہمیشہ انکار کیا۔ عراقی ایجنسیز کی طرف سے کہا گیا کہ آپ صرف چند جملےامام خمینی اور انقلاب اسلامی کے خلاف لکھ لیں، آپ کو قید سے چھوڑ دیا جائے گا۔ لیکن اس جری سید نے کچھ بھی لکھنے سے انکار کرتے ہوئے کہا: میں شہادت کے لیے آمادہ ہوں۔ انسانیت اور دین کے خلاف میں ایک بھی قدم نہیں اٹھا سکتا۔
کئی بار آپ کونظر بند، کئ بار قید کرنے اور مختلف قسم کے ٹارچر اور سزاوں کے باوجود جب آپ کے پائے استقامت میں کسی قسم کی لغزش نہیں دیکھی اور آپ نے بعث پارٹی کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تو صدام لعین نے فیصلہ کیا کہ آپ کو اب راستے سے ہٹانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اس طرح اس عظیم اسلامی مفکر کو 9 اپریل 1980 کو بغداد میں نہایت جسمانی اذیت کے بعد گولی مار کر شہید کیا گیا۔ آپ کو نجف اشرف وادی السلام میں لے جا کر دفنایا گیا۔ جہاں کچھ عرصے تک کے لیے دادا امیر المومنین کی طرح آپ کی قبر بھی عام لوگوں کے لیے مجہول رہی۔ پھر وہاں سے کچھ مومنین نے (1994 میں) آپ کی لاش کو موجودہ قبر اور ضریح میں منتقل کیا جہاں آپ ابدی نیند سو رہے ہیں۔
آپ کے ساتھ ساتھ صدام نے آپ کی بہن سیدہ بنت الہدی کو بھی شہید کیا۔ اس وقت صدام کا یہ جملہ مشہور تھا: میں وہ غلطی نہیں کروں گا جو یزید نے کی تھی۔ حسین کو قتل کر کے زینب کو زندہ چھوڑ دیا اور پھر زینب نے یزید کو رسوا کر دیا۔ میں بھائی کے ساتھ بہن کو بھی موت کے گھاٹ اتاروں گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا ۔ نہایت بے دردی کے ساتھ اس کنیز زینبؑ کو مارا گیا، جن کی لاش کا آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ کہاں پھینکا گیا ہے اور اپنی دادی زہراء ؑ کی طرح آج تک مجہول القبر ہیں۔ خداوند متعال اس شہید بہن بھائی کو، حسینؑ اور زینبؑ کے ساتھ محشور فرمائے۔ آمین!