مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

تکفیریوں کے کارڈ سے امریکہ کا کھیل

تحریر: علی احمدی

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے منگل 20 مئی کے دن خبردار کیا کہ شام میں محض چند ہفتے بعد ممکن ہے کہ بھرپور پیمانے پر خانہ جنگی کا آغاز ہو جائے۔ مارکو روبیو نے سینیٹ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے مزید کہا: "ہماری تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ درپیش چیلنجز کے باعث شام کی نگران حکومت نہ چند ماہ بلکہ محض چند ہفتے ہی چل سکے گی اور اس کے خاتمے پر اس ملک میں شدید خانہ جنگی اور ٹوٹ پھوٹ شروع ہوسکتی ہے۔” دوسری طرف دہشت گرد گروہ داعش کے بچے کھچے عناصر اور ھیئت تحریر الشام کے پرانے اتحادیوں نے شام میں ابو محمد الجولانی کے برسراقتدار آنے کے بعد اس ملک کے وسیع علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت سے ان کے اختلافات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے غیر ملکی دہشت گرد عناصر کو ابو محمد الجولانی کی سربراہی میں موجودہ نگران حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانا شروع کر دیا ہے۔ ابو محمد الجولانی ھیئت تحریر الشام کا سربراہ بھی ہے۔ دوسری طرف مغربی حکمران دمشق کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ غیر ملکی دہشت گرد عناصر کو اپنے ملک میں پناہ دینے سے گریز کریں۔ ایسے میں شام میں موجود غیر ملکی دہشت گرد عناصر کا مسئلہ ایک شدید بحران کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور نگران حکومت اسے حل کرنے سے عاجز ہوچکی ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ مندرجہ بالا حالات کے پیش نظر آئندہ چند ہفتوں میں شام میں مختلف دہشت گرد گروہوں اور تکفیری دھڑوں کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہو جائیں گی، جن کے باعث یہ ملک ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے خطرے سے بھی روبرو ہوسکتا ہے۔

داعش کی جانب سے جولانی کو غدار قرار دینا
ھیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کی سربراہی میں موجودہ نگران حکومت اس وقت تشکیل پائی، جب سابق صدر بشار اسد کو ملک سے نکال باہر کر دیا گیا۔ صدر بشار اسد حکومت کے خاتمے میں کچھ علاقائی اور مغربی حکومتوں نے خفیہ کردار ادا کیا تھا جبکہ غیر ملکی دہشت گرد عناصر نے اس میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت شام کی نگران حکومت شدید تضادات کا شکار ہوچکی ہے۔ ابو محمد الجولانی جو کسی زمانے میں خود کو ایک "مجاہد” کے طور پر پیش کرتا تھا، آج مغرب نواز رجحانات کی جانب یوٹرن لے کر مغربی طاقتوں کو خوش کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس یوٹرن کے بعد کابینہ میں بے پردہ خواتین کی شمولیت، شراب کی خرید و فروش کی اجازت اور حتی ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات جیسے اقدامات انجام پائے ہیں۔

یہ تمام اقدامات حتیٰ ھیئت تحریر الشام کے شدت پسند عناصر کی جانب سے اصل اہداف سے غداری قرار پا رہے ہیں۔ اسی طرح ابو محمد الجولانی نے غیر ملکی وار لارڈز کو مختلف حکومتی عہدے عطا کیے ہیں، جس کے باعث شام کے عوام بھی اس پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ شام کے مقامی عناصر ابو محمد الجولانی پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ طاقت کے حصول کے لیے غیر ملکی عناصر کا سہارا لے رہا ہے۔ جولانی کے ان اقدامات نے نہ صرف نگران حکومت کو ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ داعش جیسے شدت پسند گروہوں کو اکسا کر خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہونے کا باعث بنے ہیں۔ جولانی نے اپنے سکیورٹی سیٹ اپ میں غیر ملکی مسلح عناصر کو باقی رکھا ہے، جن میں چینی اویغور قابل ذکر ہیں، جو اس کے شخصی محافظوں میں شامل ہیں۔ اس طرح عدم استحکام کو فروغ ملا ہے۔

اندرونی تنازعات میں داعش کا کردار
شام میں خطرناک ترین گروہ کے ناطے داعش اندرونی تنازعات میں اہم کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔ اس گروہ نے ھیئت تحریر الشام سے علیحدگی اختیار کر لینے کے بعد اپنے میگزین میں جولانی پر غداری اور مغربی طاقتوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا ہے اور اسے "کافر” اور "ٹرمپ کا بندہ” قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ داعش نے بڑے پیمانے پر نئے افراد بھرتی کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جس سے اس کے خطرناک عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ داعش غیر ملکی دہشت گرد عناصر جن کی تعداد 1500 سے 6000 کے درمیان ہے، کو جولانی کے خلاف اکسا رہی ہے اور یوں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کا مقدمہ فراہم کر رہی ہے۔ یہ گروہ جولانی کی مغرب نواز پالیسیوں کے خلاف غیر ملکی دہشت گرد عناصر کی ناراضگی سے بھرپور فائدہ اٹھا کر انہیں دمشق کے خلاف بغاوت پر اکسانے میں مصروف ہے۔

امریکہ اور داعش میں گٹھ جوڑ
موجودہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ براہ راست داعش کی حمایت نہیں کرتا، کیونکہ یہ گروہ بدستور خطے میں اس کے مفادات کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ بالواسطہ طور پر داعش کو جولانی پر دباو ڈالنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ نے شام پر پابندیاں ختم کرنے کو غیر ملکی دہشت گرد عناصر کو ملک سے نکال باہر کرنے سے مشروط کیا ہے۔ یوں اس نے جولانی رژیم کو بہت سخت دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ جولانی اقتدار میں باقی رہنے کے لیے ہمیشہ اس کا محتاج رہے۔ امریکہ دوسری طرف شام میں داعش کے خطرے کو بڑا کرکے دکھا رہا ہے، جبکہ اس کے خاتمے کے لیے کوئی موثر اقدام بھی انجام نہیں دیتا۔ اس کا مقصد شام میں ایک مضبوط مرکزی حکومت تشکیل پانے کو روکنا ہے۔ داعش کی حمایت کا آخری مقصد اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button