
یمن سے شکست خوردہ تل ابیب، یمنی مقاومت کے مقابلے میں صہیونی منصوبے خاک میں مل گئے
شیعہ نیوز: واشنگٹن کی طرح اسرائیل بھی یمنی فوج کے حملے روکنے میں ناکام؛ صنعاء نے بحری و فضائی محاذ پر بھی نئی عسکری برتری قائم کردی۔
رپورٹ کے مطابق یمنی فوج کی جانب سے ہونے والے میزائل حملوں کو روکنے میں صہیونی حکومت کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یمن کی جانب سے اسرائیل کے خلاف غزہ کی حمایت میں جاری حملے تسلسل سے جاری ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں صہیونی آبادکار مختلف اوقات میں بار بار پناہ گاہوں کی طرف بھاگنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
یمنی میزائل حملے اسرائیلی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا رہے ہیں، خصوصا اس وقت جب بیشتر بین الاقوامی ایئرلائنز نے تل ابیب کے بن گوریان ایئرپورٹ کے لیے پروازوں کی معطلی کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : رہبر معظم کی توہین عالم اسلام کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے، علامہ عارف واحدی
نقصانات کی شرح کم کرنے کے لیے صہیونی حکومت کی کوشش ہے کہ یمنی میزائلوں کو اپنے اہداف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دے، جبکہ یمن اپنے میزائل سسٹمز کو مسلسل جدید بنا رہا ہے اور امریکی و اسرائیلی دفاعی نظاموں کو چکمہ دینے کے لیے ان کا عملی میدان میں تجربہ کر رہا ہے۔
زمینی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یمنی میزائل متعدد بار امریکی و اسرائیلی دفاعی نظاموں کو کامیابی سے چکمہ دے چکے ہیں۔ صنعاء نے اعلان کیا ہے کہ ان کے فوجی ماہرین کی موجودہ کوششیں خاص طور پر ہائپرسونک میزائلوں کی صلاحیت بڑھانے پر مرکوز ہیں۔
دوسری طرف صہیونی دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی دفاعی نظام مکمل اور ناقابل شکست نہیں ہوتا۔ چند میزائلوں کا ہدف تک پہنچ جانا ہی اسرائیل کو زبردست نقصان پہنچا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے یمنی حملوں سے نمٹنے کے لیے ایک کثیر الجہتی دفاعی نظام قائم کر رکھا ہے، جس میں اسرائیلی "حیتس” اور امریکی "تھاڈ” جیسے دفاعی نظام شامل ہیں جو خلا کی سطح پر کام کرتے ہیں، مگر یمن کی جانب سے تل ابیب کے بن گوریان ایئرپورٹ پر کیے گئے کئی میزائل حملوں نے ان نظاموں کی کمزوری کو بے نقاب کر دیا ہے۔
صہیونی حکومت اپنی انٹیلیجنس اور معلوماتی صلاحیت بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ یمن میں ممکنہ فوجی اہداف کی فہرست تیار کی جاسکے۔
عبری ویب سائٹ والا کے مطابق، اسرائیلی انٹیلیجنس ادارے دن رات اس کوشش میں ہیں کہ یمن میں ایسا فوجی اہداف کی فہرست تیار کی جاسکے جسے کسی بڑے حملے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
صہیونی ماہرین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن جیسی عظیم انٹیلیجنس طاقت جب یمن سے درکار معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہی، تو تل ابیب بھی ہرگز اس میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
صہیونی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اکتوبر 2023 میں غزہ پر جنگ سے قبل یمن سے معلومات حاصل کرنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا، بلکہ ان کا فوکس حماس، حزب اللہ اور ایران پر مرکوز تھا۔ تاہم صہیونی انٹیلیجنس ماہرین اعتراف کرتے ہیں کہ اکتوبر 2023 سے اب تک کا عرصہ یمن سے معلومات اکٹھی کرنے کے لیے کافی تھا، لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔
یہ ماہرین مزید بتاتے ہیں کہ یمن کے خلاف امریکہ اور مغرب کی دس سالہ طویل جنگ کے دوران بھی معلومات جمع کرنے کی کوششیں ناکام رہیں، اور یمنی مزاحمتی قوتوں نے امریکہ اور برطانیہ کے کئی جاسوسی نیٹ ورکس کو تباہ کر دیا۔
اسرائیل کی تیسری کوشش یہ ہے کہ وہ امریکہ پر دباؤ ڈالے تاکہ واشنگٹن یمن کے ساتھ طے شدہ جنگ بندی معاہدے کو توڑ کر براہ راست مداخلت کرے۔ اب تک یہ کوشش بھی ناکام رہی ہے، کیونکہ امریکہ مختلف اسٹریٹیجک اور سیاسی وجوہات کی بنیاد پر یمن کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریزاں ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب خطے میں حالات شدید کشیدگی اختیار کرچکے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یمن کے ساتھ جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا۔ یہی امر صہیونی حلقوں میں شدید مایوسی کا باعث بنا ہے، کیونکہ وہ اس معاہدے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی اخبار ہِل (The Hill) نے لکھا ہے کہ یمنی عوام نے شدید بمباری کے باوجود مزاحمت جاری رکھی، اور امریکہ نے تقریبا تمام عسکری راستے آزما لیے لیکن جو جنگ بندی عمل میں آئی، وہ خود امریکہ و اسرائیل کے لیے ایک متضاد اور پیچیدہ صورتحال پیدا کر گئی، کیونکہ اس کے ذریعے تل ابیب عملی طور پر علاقائی منظرنامے سے خارج ہو گیا اور واشنگٹن-تل ابیب کے دیرینہ اتحاد میں دراڑیں پڑ گئیں۔
اخبار کا کہنا ہے کہ امریکہ کا یمن سے متعلق نرم رویہ ممکنہ طور پر موجودہ حالات اور درپیش مصلحتوں پر مبنی ہے، جن میں چین کا ابھرتا ہوا خطرہ اور عرب ممالک کے ساتھ واشنگٹن کے علاقائی تعلقات شامل ہیں، جو مشرق وسطیٰ میں نئے تنازعات کے آغاز سے بچنا چاہتے ہیں۔