مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

غزہ پر جارحیت اور پاکستان میں بیداری

پاکستان کی سیاسی و مذہبی اعلیٰ قیادت بھی حرکت میں آئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی بیان دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب نے پہلی مرتبہ سخت موقف لیتے ہوئے اقوام متحدہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور کہا ہے کہ جب یہ عالمی ادارہ غزہ میں ظلم بند نہیں کروا سکتا تو پھر اس کا کیا فائدہ ہے؟

شیعہ نیوز: عیدالفطر کے بعد سے پاکستانی قوم ایک مرتبہ پھر جوش میں آچکی ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر غزہ میں ہونے والی خطرناک بمباری نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو یاد دہانی کروا دی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد جنگ ختم نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی قتل عام ختم ہوا تھا۔ اگرچہ غزہ کے ساتھ ساتھ اس وقت لبنان، یمن اور شام بھی امریکی اور اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن رہا ہے لیکن بہرحال پاکستان میں ایک مرتبہ پھر تمام دھڑوں نے غزہ کی بات کرنا شروع کر دی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا جو کافی عرصہ سے غزہ پر ایک طریقہ سے خاموشی اختیار کرچکا تھا، اب دوبارہ سے غزہ میں ہونے والی جارحیت کو بیان کر رہا ہے۔ ایسے ہی حالات میں جیو نیوز نامی ٹی وی چینل پر کام کرنے والے ایک زرخرید غلام نے فلسطینیوں کی مزاحمت کو دہشت گردی سے تعبیر بھی کر دیا تھا، لیکن اب چونکہ غزہ پر ہولناک بمباری سوشل میڈیا پر آشکار ہو رہی ہے تو اس طرح کے نیوز چینل بھی مجبوری میں غزہ کی خبریں دے رہے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی و مذہبی اعلیٰ قیادت بھی حرکت میں آئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی بیان دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب نے پہلی مرتبہ سخت موقف لیتے ہوئے اقوام متحدہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور کہا ہے کہ جب یہ عالمی ادارہ غزہ میں ظلم بند نہیں کروا سکتا تو پھر اس کا کیا فائدہ ہے؟ بہرحال ہر طبقہ میں ایک مرتبہ پھر بیداری آئی ہے، چھوٹے چھوٹے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، بڑی بری ریلیوں اور جلسوں کے اعلانات بھی کر دیئے گئے ہیں۔ حماس کی اپیل پر سات اپریل کو عالمی ہڑتال کے عنوان سے پاکستان کے تاجروں نے حمایت بھی کر دی ہے، اب اگرچہ مکمل طور پر یہ ہڑتال کامیاب اس معنوں میں نہیں ہوئی ہے کہ بہت سے تاجروں نے دکانیں اور مارکیٹ کھول رکھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ میں صیہونی فورسز کی بربریت جاری، خواتین اور بچوں سمیت مزید 32 فلسطینی شہید

لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں اور سیاست دانوں سمیت مذہبی رہنمائوں کو تشویش تو لاحق ہوئی ہے، لیکن اس تشویش سے بہتر ہے کہ ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس ہونا چاہیئے کہ ہم نے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سے غزہ کے معاملہ کو سردخانہ میں کیوں جانے دیا؟ آخر کیوں ہمارے احتجاج اور جلسوں میں کمی واقع ہوئی؟ آخر کیوں ہم نے امریکی و اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کم کر دیا؟ کیا غزہ جنگ بندی معاہدے کا مطلب یہ بتایا گیا تھا کہ مسئلہ فلسطین حل ہوگیا ہے۔؟ ہرگز ایسا نہیں تھا۔ آج غزہ میں ہونے والی بمباری میں انسانی اعضاء بم دھماکوں کی شدت سے ہوا میں اڑتے نظر آرہے ہیں، شاید اس لئے کہ وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ دیکھوں ہم اب بھی قتل ہو رہے ہیں اور تمھارے تعاون اور مدد کے منتظر ہیں۔

اس مرتبہ جو بیداری آئی ہے تو یہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس تحرک اور بیداری کو سست نہ ہونے دیں، اس بیداری کو مغربی ذرائع ابلاغ کے منفی پراپیگنڈا کا شکار نہ ہونے دیں ۔عوام کو حرکت میں رکھیں۔ یوتھ اور نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ بغیر کسی وقفہ کے فلسطین کے لئے احتجاجی تحریک کے دائرہ کو وسعت دیں اور اس سلسلہ کو تھمنے نہ دیں۔ عوام کے تمام طبقات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایک مشترکہ رائے عامہ ترتیب دے کر حکومت کو قائل کریں کہ حکومتیں ایسے اقدامات کی طرف جائیں، جس سے مسئلہ فلسطین کی حمایت کو زیادہ سے زیادہ تقویت حاصل ہوسکے۔ حکومتوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے موثر اور جارحانہ سفارتکاری اپنائیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد،عزاداری ونگ ایم ڈبلیوایم کے زیر اہتمام انہدام جنت البقیع اور غزہ پر اسرائیلی بربریت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ

اگرچہ پاکستان میں ایک مایوس سوچ اس لئے بھی جنم لے چکی ہے، کیونکہ پاکستان کی حکومتوں نے مسئلہ کشمیر کا سودا کر لیا ہے، کیونکہ کشمیر پر حکومت کی خاموشی اور سرد پالیسیوں نے عوام کے اذہان میں سوالات ابھار دیئے ہیں، تاہم عوام کو ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان جیسا ایٹمی ملک بھی فلسطینیوں کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ لہذا اب سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام خود متحرک رہیں اور اپنے جذبہ کو سرد نہ ہونے دیں۔ جب تک غزہ پر جارحیت بند نہ ہو پاکستان کے عوام کو بیداری کا ثبوت دینا ہوگا اور احتجاج جاری رکھنا ہوگا۔ احتجاج کی کئی ایک اقسام ہیں، جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ این جی اوز اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لئے ہر ممکنہ کوشش بروئے کار لائیں۔

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے دیگر مسلمان حکومتوں کے ساتھ مل کر فوری جنگ بندی کے لئے سفارتکاری کرے اور غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنائے۔ حکومت کو چاہیئے کہ پاکستان میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے ملک دشمن عناصر کے خلاف بھی کارروائی کرے، جو ملک کے اندر رہتے ہوئے وطن کی جڑوں اور نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی گھنائونی سازش میں مصروف ہیں۔ پس اب غزہ کے ساتھ یہ جذبہ اور یکجہتی فی الوقتی نہ ہو بلکہ غزہ پر جاری جارحیت کے خاتمہ تک بغیر کسی تعطل کے جاری رہنی چاہیئے۔

 

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button