
استنبول کے میئر کی گرفتاری، کردوں کا کردار اور اردگان کے سامنے آنے والے چیلنجز
شیعہ نیوز: ترکی کی عدالت کی طرف سے استنبول کے میئر کی گرفتاری نے اس ملک کے لیے ایک سنگین چیلنج پیدا کر دیا ہے، جو کہ کردوں کے مسئلے اور PKK کے ساتھ امن مذاکرات سے جڑا ہوا ہے۔
اردگان اور ان کی اتحادی قوم پرست جماعتیں گزشتہ کئی دہائیوں سے کردوں کو سیاسی اور سماجی میدان سے باہر کرنے کے لیے مختلف تدابیر استعمال کر رہی ہیں، یہاں تک کہ پڑوسی ممالک میں بھی کردوں کی نسلی اور قومی شناخت سے انکار ایک پالیسی کا حصہ رہا ہے۔
تاہم، اب اردگان حکومت میں کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے قید رہنما عبداللہ اوکلان کی رہائی اور PKK کے دیگر رہنماؤں کی ترکی واپسی کے حوالے سے بات کرنا کوئی جرم نہیں رہا۔ اردگان اور حکومت دونوں کردوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ PKK اور اردگان کی حکومت کے درمیان امن عمل کے آغاز کے چند ہفتوں بعد، یہ واضح ہوگیا ہے کہ ان کا مقصد ترکی میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنا اور پیپلز ریپبلک پارٹی (CHP) کو کردوں کے اتحادی کے طور پر الگ کرنا تھا، جو 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سے ایک اہم سیاسی قوت بن چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : لبنان پر صیہونی حملے ختم ہونے تک جنگ جاری رہے گی، رہنما حزب اللہ
یہ سوال اب کچھ حد تک واضح ہو گیا ہے کہ اردگان کو اچانک اوکلان کی رہائی کا خیال کیوں آیا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق، ترکی میں حالیہ پیش رفت کے حوالے سے دو ممکنہ آپشنز سامنے آتے ہیں:
پہلا امکان: اگر اردگان اور انقرہ حکومت PKK کو کانگریس منعقد کرنے پر راضی کر لیتی ہے اور اوکلان کو جلد آزاد کر کے اس پارٹی کو تحلیل اور غیر مسلح کر دیتی ہے، تو داخلی طور پر اوکلان کی حمایت سے کرد (ڈی ایچ ای پی) اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP) کے اتحادیوں کا جرگہ تشکیل پائے گا، جس سے ترک اپوزیشن کو شکست ہو جائے گی اور اکرم امام اوغلو، دیمرٹاش اور اوکلان کی طرح کئی رہنما طویل عرصے تک جیل میں رہ سکتے ہیں۔ تاہم، PKK کے اس اعلان کو دیکھتے ہوئے کہ ترک فوج کے مسلسل حملوں کی وجہ سے اس کے رہنماؤں کے لیے میٹنگ کا انعقاد ممکن نہیں ہے، اور اس نے اردگان کو خبردار کیا ہے کہ اگر وعدے پورے نہ کیے گئے یا اوکلان کو رہا نہ کیا گیا تو کانگریس کا انعقاد اور ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ منسوخ کر دیا جائے گا، یہ آپشن فی الحال غیر سنجیدہ نظر آتا ہے۔
دوسرا امکان: یہ امکان تب مضبوط ہوتا ہے جب ترکی میں مظاہرے مزید شدت اختیار کرتے ہیں اور آنے والے دنوں میں جاری رہتے ہیں۔ ترکی میں سکیورٹی اور سیاسی چیلنجوں کی وجہ سے کردوں سمیت دیگر گروہ سڑکوں پر آ سکتے ہیں، جس سے ملک میں مزید انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر انقرہ میں فیصلہ ساز طاقت بحران کا شکار ہو جاتی ہے، تو قندیل پارٹی، جو اوکلان کے حکم کو نافذ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور اس وقت ترکی کے اندرونی تناؤ پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہی ہے، امن مذاکرات کو غیر ضروری سمجھ سکتی ہے۔ اس صورت میں، مذاکرات کی ناکامی کی وجہ سے یہ امکان ہے کہ کرد اور پیپلز ریپبلک پارٹی کے حامی اور ملک کی دیگر اپوزیشن تحریکیں ترکی کی حکمران جماعت کے خلاف صف آراء ہوں گی، اور اردگان کے اقتدار کو ایک سنگین چیلنج کا سامنا ہوگا۔