زندگی گزارنے کے لیے بہترین نمونہ رسول اللہ ص کی زندگی ہے: ایرانی صدر
ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے خورشید میڈیا فیسٹیول کے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ ہمیں اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں پیغمبر اسلام کی پیروی کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ انسان رول ماڈل کی تلاش میں ہیں اور زندگی گزارنے کے لیے بہترین نمونہ رسول اللہ ص کی زندگی ہے۔
صدر رئیسی نے کہا کہ پیغمبر اکرم ص کی زندگی کے درخشاں پہلووں میں سے ایک پہلو عورتوں اور حقوق نسواں کی طرف آپ کی خصوصی توجہ ہونا ہے۔ یہ توجہ اس حد تک خوشگوار ہے کہ خداوند متعال نے حضرت زہرا جیسی خاتون کو کوثر اور تمام بھلائیوں کے مظہر کے طور پر متعارف کرایا ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پیغمبرانہ روایت اور پیغمبر کی تعلیمات پر توجہ دینا ایک اہم اصول ہے کہا کہ اسلامی انقلاب میں خواتین کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ انقلاب کی فتح میں، دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں، دفاع مقدس میں، تعمیرات اور کھیلوں کے میدانوں میں خواتین کا کردار نمایاں اور قابل تعریف ہے۔
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مغرب کا خواتین سے متعلق نقطہ نظر انہیں ایک آلے کےطور پر تشہیر کا ذریعہ بنانا ہے لیکن اسلامی نقطہ نظر سے جس طرح خدا نے مردوں کے لیے صلاحیتیں فراہم کی ہیں اسی طرح خواتین میں بھی صلاحیت موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مغربی معاشروں کے برعکس جو خواتین کو ایک آلہ کار کے طور پر دیکھتے ہیں یا کچھ رجعت پسندانہ خیالات جو یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کو گھر میں رہنا چاہیے، خواتین کے بارے میں اسلامی جمہوریہ کا نظریہ ایک تیسرا اور ترقی پسند نظریہ ہے کیونکہ خواتین معاشرے میں بہت سے اہم امور کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
آیت اللہ رئیسی نے خواتین کے بارے میں مغربی نقطہ نظر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مغرب والے خواتین اور خواتین کے حقوق کو آزاد ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جب کہ حقیقت میں وہ خواتین کے انسانی حقوق کے لئے بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور مغرب دفاعی پوزیشن میں ہے۔ اسے جواب دینا ہوگا کہ وہ کس طرح انسانی حقوق کو تباہ کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغرب میں خواتین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک طویل فہرست ہے، جس میں فلسطینیوں کے ساتھ 70 سالوں سے جاری ظلم و ستم اور افغانستان میں 20 سال تک جو بربریت اور جرائم امریکیوں نے انجام دئے جس کے نتیجے میں 35 ہزار افغانستانی بچے معذور ہوئے۔
افغانستان میں امریکی موجودگی کا جنگ، خونریزی اور تباہی کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلا
صدر رئیسی نے کہا کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مغربی ممالک کے پاس جامع طاقت ور میڈیا ہے جس کی وجہ سے ان کی آواز عالمی ایوانوں میں گوجتی ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا آزاد، مستقل میڈیا اور آپ صحافی مل کر حقائق کو کھول کر بیان کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے آپ صحافیوں کی ہم آہنگی اور یکجہتی کے ذریعے حل کیا جاسکتا اور اسے دنیا بھر میں پورے زور و شور کے ساتھ اٹھایا جا سکتا ہے۔ لہذا اپنے آپ اور آزاد میڈیا کو بالکل بھی کم نہ سمجھیں۔
صدر رئیسی نے مزید کہا کہ مغربی میڈیا ہاوسز اور ذرائع ابلاغ کا تسلط یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ صحیح خبر دے رہے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ جب کہ آپ کے لیے ضروری ہے کہ مختلف مقامات پر بیداری اور امید افزائی کے لیے کام کریں اور درست، موثر اور شفاف خیالات کی ترجمانی کریں۔
انہوں نے تاکید کی کہ بیانئے کی جنگ میں صحیح اور بروقت بیانیہ جو ادراک کو تشکیل دیتا ہے بہت اہم ہے خاص طور پر نوجوان نسل میں۔
صدر مملکت نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہم فلسطینی صحافی کی حمایت کرتے ہیں جس نے صیہونیوں کے قتل اور جرائم کی خبریں پھیلانے کے لیے اپنا خون بہایا، کہا کہ مغرب والے دنیا کی آنکھوں کے سامنے معاہدے لکھتے ہیں اور پھر پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
آیت اللہ رئیسی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور مغربی ممالک میں آج کل ہونے والے بہت سے جرائم کو برملا کرنے کے لئے آپ صحافیوں کا اتحاد اور تعاون بہت ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغرب والے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر نہایت بے شرمی کے ساتھ اسے آزادی اظہار اور انسانی حقوق کا نام دیتے ہیں، وہ ہماری مقدس ترین کتاب قرآن مجید کی توہین کر رہے ہیں جو آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی خود مغربی تعریف کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
صدر رئیسی نے کہا کہ وہ بنی نوع انسان کے تمام عقائد اور مقدس کتابوں کی توہین کرتے ہیں۔
انہوں نے کانفرنس میں موجود غیر ملکی صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اور یہ صورت حال آپ اور آزاد میڈیا اور ہم سب کے فرائض منصبی اور مشن کو مزید سنگین بنا دیتی ہے۔
آیت اللہ رئیسی نے مزید کہا کہ صحیح کام یہ ہے کہ خبر کو درست انداز میں لوگوں تک پہنچایا جائے اور کرائے کے جبر نگاروں اور غلط رپورٹوں کی تشہیر نہ کی جائے تاکہ لوگوں کے اذہان میں فہمی پیدا نہ ہو۔ لوگوں کو تجزیہ و تحلیل کی صلاحیت بڑھانی چاہئے، پیغمبر اکرم (ص) اور اسی طرح امام صادق (ع) اور ہمارے مکتب کی دیگر بزرگ شخصیات لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دینے کے ہی دنیا میں تشریف لائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے مذہبی رہنماوں کہ ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ لوگ غور و فکر سے کام لیں، جب کہ مغربی معاشروں میں وہ لوگ فکری آذادی نہیں چاہتے، بلکہ ایک ایسی فکر چاہتے ہیں جو ان کے زیر اثر ہو اور آزاد نہ ہو۔
صدر رئیسی نے کہا کہ مغرب اپنے میڈیا کی مدد سے جعلی خبریں اور الزامات انسانی معاشروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے جب کہ میڈیا انسانی معاشرے تک حقائق کو پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن امریکہ اور مغرب نہیں چاہتے کہ لوگوں تک حقائق پہنچیں، وہ لوگوں کی لاعلمی اور جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جابرانہ تسلط کو دوام دینا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغرب والے چاہتے ہیں کہ انسانی معاشروں میں استدلال اور شعور کے بجائے جہالت کو فروغ ملے اور طلباء، ماہرین تعلیم اور عوام کو تجزیہ و تحلیل کی طاقت حاصل نہ ہوجائے۔
آیت اللہ رئیسی نے مزید کہا کہ ہمارے شہداء یہی چاہتے تھے کہ لوگ اپنے تجزیے کی قوت میں اضافہ کریں اور حق و باطل میں تمیز کریں۔ حق کو غلط سے الگ کرنا اور انسانی حقوق کے حقیقی حامی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے سے ممتاز کرنا سیکھیں۔
ابراہیم رئیسی نے مقبوضہ فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے کہا: آپ دیکھتے ہیں کہ فلسطین کے بارے میں کتنے معاہدوں پر مغربیوں کی حمایت سے دستخط ہوئے اور دشمنوں اور غاصبوں نے ان تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کی جب کہ یہ تمام معاہدے امریکیوں کی آنکھوں کے سامنے ہوئے۔
صدر رئیسی کے بیانیے کی جنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ حکایات کی جنگ میں ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ صحیح بیانیہ ہو اور بروقت معلومات فراہم کی جائیں تاکہ لوگوں اور نوجوان نسل میں صحیح ادراک پیدا ہو، اس لیے واقعات کو درست طریقے سے بیان کرنا بہت ضروری ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ ہم صہیونیوں کے قتل کی رپورٹنگ کرنے پر فلسطین میں جاں بحق ہونے والی خاتون صحافی کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس خاتون کی بھی حمایت کرتے ہیں جسے جرمنی میں عدالتی ٹرائل کے دوران اپنے حجاب اور اپنی اقدار کے تحفظ کے باعث قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ہم میڈیا میں لکھنے والی باخبر خاتون کی حمایت کرتے ہیں اور آج میڈیا سمیت مختلف شعبوں میں کام کرنے والی تمام خواتین کو سپورٹ کیا جانا چاہیے۔
صدر رئیسی نے اعتراف کیا کہ ہمارے انقلاب کے بانی اور انقلاب کی موجودہ قیادت نے ہمیں جو کچھ سکھایا وہ یہ ہے کہ آزاد اور مستقل افکار معاشرے میں موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
آخر میں صدر ابراہیم رئیسی نے تاکید کی کہ اگرچہ میں آپ کی تمام باتیں سننے کے لئے فرصت نہ کر سکا لیکن اسی محدود فرصت کو بھی غنیمت سمجھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آج کی یہ نشست، درست اور آزادانہ رپورٹنگ کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔