مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

وہ کمانڈر، جس نے مزاحمت کو ایک مکتب میں تبدیل کردیا

سید حسن نصر اللہ شہید ہوگئے لیکن ان کا راستہ پہلے سے زیادہ طاقت اور عزم کے ساتھ جاری رہے گا۔ وہ جو ظلم اور قبضے کے خلاف استقامت کی علامت تھے، ایک دائمی میراث چھوڑ کر گئے ہیں جو دنیا کے تمام آزاد منش اور مزاحمت پسندوں کے لیے باعثِ ترغیب ہے۔ مزاحمتی محاذ اور حزب اللہ لبنان، ناقابل شکست جذبے اور پختہ عزم کے ساتھ، جلد ہی اس عظیم کمانڈر کے خون کا بدلہ لیں گے اور ان کے راستے کو جاری رکھتے ہوئے دشمنوں کو سخت شکست سے دوچار کریں گے۔ نصر اللہ کا نام اور راستہ ایک درخشاں مشعل کی طرح، مزاحمت کے مستقبل کو روشن کرتا رہے گا۔

شیعہ نیوز: شہید سید حسن نصر اللہ کی سب سے اہم کامیابیوں میں سے ایک دشمن کی جارحیت کا مقابلہ کرنا اور ایسی کارروائیوں کی منصوبہ بندی وترتیب تھی جن کی بدولت دشمن کی سازشیں ناکام ہوئیں۔ شہید سید حسن نصر اللہ، مزاحمتی محاذ کے نمایاں کمانڈروں میں سے ایک تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد، اسلامی اقدار کے دفاع اور اسلام دشمن عناصر کے مقابلے میں گزاری۔ وہ ایک نہ تھکنے والے حوصلے اور مزاحمت کے راستے پر پختہ ایمان کے ساتھ، خطے کی تبدیلیوں میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے اور بالآخر اسی راہ میں اپنی جان قربان کر دی۔

جدوجہد کا آغاز اور انقلابی شخصیت کی تشکیل
سید حسن نصر اللہ نوجوانی ہی سے ظلم اور غاصبانہ تسلط کے خلاف جدوجہد میں دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ انقلابی اور اسلامی تحریکوں کے دائرے میں پروان چڑھے اور جلد ہی مزاحمت کے سرگرم چہروں میں شامل ہو گئے۔ ان کا مضبوط ایمان، دینی تعلیمات پر عبور اور سیاسی حالات کی گہری سمجھ بوجھ، یہ وہ چیزیں تھیں جنہوں نے انہیں اس میدان کے مؤثر ترین رہنماؤں میں سے ایک بنا دیا۔

مزاحمتی محاذ میں کردار
سید حسن نصر اللہ نے اپنی سرگرمیوں کے دوران، مزاحمتی فورسز کی تنظیم میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک باصلاحیت کمانڈر کے طور پر، انہوں نے دشمنوں کے مقابلے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائی۔ ان کا مزاحمت کے بارے میں نظریہ صرف عسکری محاذ تک محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے اس تحریک کے ثقافتی، میڈیا اور سماجی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا اور ان شعبوں کو تقویت دے کر، مزاحمت کو ایک وسیع اور متحرک تحریک میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔

غاصبوں کے خلاف جنگ اور خطرات کا مقابلہ
سید حسن نصر اللہ کی نمایاں کامیابیوں میں سے ایک دشمن کی جارحیت کا مقابلہ کرنا اور ایسی کارروائیاں ترتیب دینا تھا، جن کی بدولت دشمنوں کی سازشیں ناکام ہوئیں۔ وہ خطے کی صورتحال کا درست ادراک رکھتے ہوئے ہمیشہ محاذ جنگ میں صف اول میں رہے اور کبھی بھی دباؤ اور دھمکیوں کے آگے پسپائی اختیار نہیں کی۔ ان کی موجودگی مجاہدین کے لیے حوصلے کا باعث بنتی اور ان کے مزاحمتی عزم کی گہرائی کو ظاہر کرتی تھی۔

ایک شاندار سفر کا نقطہ عروج
انجام کار، سید حسن نصر اللہ نے جہاد اور استقامت کے سفر کو جاری رکھتے ہوئے شہادت کا بلند مقام حاصل کیا۔ ان کی شہادت صرف ایک اختتام نہیں تھی بلکہ مزاحمت کی روح اور اسلامی بیداری کے فروغ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ ان کی شہادت پر عوام اور مزاحمتی محاذ کے رہنماؤں کا شدید ردعمل، ان کے عظیم مقام و مرتبے کی دلیل ہے۔

شہید سید حسن نصر اللہ کی دائمی میراث
اگرچہ “سید المقاومة” کی شہادت مزاحمتی محاذ کے لیے ایک بڑا نقصان ہے لیکن ان کی فکر اور نظریات ہمیشہ مجاہدین کے لیے مشعل راہ رہیں گے۔ وہ ظلم کے خلاف ڈٹے رہے اور عزت و خودمختاری کے پیغامبر بنے۔ ان کا نام ہمیشہ مزاحمت کے عظیم کمانڈروں میں درج رہے گا۔ ان کی شہادت نے مزاحمت کے راستے کو مزید روشن اور مجاہدین کے حوصلے کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔

شہید نصر اللہ کا راستہ عزم پیہم کے ساتھ جاری رہے گا
سید حسن نصر اللہ شہید ہوگئے لیکن ان کا راستہ پہلے سے زیادہ طاقت اور عزم کے ساتھ جاری رہے گا۔ وہ جو ظلم اور قبضے کے خلاف استقامت کی علامت تھے، ایک دائمی میراث چھوڑ کر گئے ہیں جو دنیا کے تمام آزاد منش اور مزاحمت پسندوں کے لیے باعثِ ترغیب ہے۔ مزاحمتی محاذ اور حزب اللہ لبنان، ناقابل شکست جذبے اور پختہ عزم کے ساتھ، جلد ہی اس عظیم کمانڈر کے خون کا بدلہ لیں گے اور ان کے راستے کو جاری رکھتے ہوئے دشمنوں کو سخت شکست سے دوچار کریں گے۔ نصر اللہ کا نام اور راستہ ایک درخشاں مشعل کی طرح، مزاحمت کے مستقبل کو روشن کرتا رہے گا۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button