مضامینہفتہ کی اہم خبریں

ادیان الہیٰ میں قربانی کا تصور اور شخصیت امام حسین۴

تحریر: محمد حسین بہشتی

مسلمان اپنی نذر کو پورا کرنے یا خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جس جانور کو ذبح کرتے ہیں، اسے مسلمان مذہبی اعتبار سے خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کسی حلال جانور مثدلاً بھیڑ، بکری، گائے یا اونٹ وغیرہ کو قربانی، نذر یا صدقہ کی نیت سے  ذبح کرتے ہیں۔

وفد يناه بذبح عظیم
قربانی: دس ذالحجہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد میں ہر مسلمان اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق کسی حلال جانور کو قربانی کی نیت سے ذبح کرتا ہے اور اس کا گوشت اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں اور فقراء میں تقسیم کرتا ہے۔ یہ خالصتاً سنت ابراہیمی علیہ  السلام کی پیروی ہے، جو کہ قربۃ الی اللہ کی جاتی ہے، لہذا اس پر یہ لفظ قربانی اطلاق ہوتا ہے۔
نذر: مسلمانوں کے درمیان یہ مرسوم ہے کہ وہ اپنی حاجت روائی کیلئے جس حلال جانور کو راہ خدا میں ذبح کرتے ہیں، اس کو نذر کہتے ہیں۔ مثلاً کوئی مسلمان نذر کرتا ہے کہ اگر میرا بچہ بیماری سے نجات حاصل کرکے تندرست اور صحت یاب ہو جائے تو میں خدا کی خوشی کے لئے تین دن روزے رکھوں گا۔ یا فلاں جانور کو راہ خدا میں ذبح کرکے اس کا گوشت فقراء میں تقسیم کروں گا۔

عقیقہ: کسی مسلمان کے ہاں بچہ یا بچی پیدا ہو جائے تو اس کی صحت و سلامتی کے لئے بکرا وغیرہ ذبح کیا جائے، وہ عقیقہ کہلاتا ہے، اس کی خاص شرائط ہیں، جو فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔
صدقہ: اگر کوئی مصیبت اور بلا ٹلنے کے لئے بکرا اور بھیڑ وغیرہ کا گوشت یتیم، فقیر اور فقراء میں تقسیم کیا جائے، اسے صدقہ کہا جاتا ہے۔ یہ تینوں رسمیں شرعی لحاظ سے اسلامی معاشرے میں موجود ہیں اور بعض کو تو بڑے زور و شور سے منایا جاتا ہے۔ قربانی یا ذبیحہ کا تصور دوسرے ادیان میں بھی موجود ہے، خصوصاً ادیان الہیٰ جس میں کرسچن، یہودی، زرتشتی وغیرہ میں یہ رسم مختلف طریقوں سے مناتے ہیں۔

پرانے ادیان: گذشتہ زمانوں میں مختلف قبیلوں میں مختلف طور طریقوں، عقیدوں اور فکروں پر مشتمل حیوانوں اور انسانوں کی قربانی کرنے کے واقعات موجود تھے۔ قربانی کے حوالے سے گذشتہ زمانوں کے لوگ مختلف افکار اور خیالات سے پر ہیں۔ مثلاً سورج، آسمان، زمین، آفتاب، برف و باراں وغیرہ کی پوجا کرتے تھے۔ مختلف افکار و نظریات، مثلاً خدا کی ناراضگی سے بچنے کے لئے اور اس سے مدد و نصرت طلب کرنے کے واسطے انسان کی قربانی اس خدا سے دوستی و محبت کے بناء پر کی جاتی تھی اور اس کی خوشنودی اور تقرب حاصل کرنے کے لئے ذبح کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بیماریوں کے عام ہوتے وقت، قحطی کے موقعے پر اور مختلف امتحانوں میں کامیابی کے لئے اجتماعی عبادت گاہوں اور مذہبی مجالس کی جگہوں کی طہارت اور پاکیزگی کے لئے، بلاؤں اور وباوں، مشکلوں کے ٹلنے کے لئے، بڑے بڑے ہنگامی حالات سے نجات پانے کے لئے، گناہوں کے کفارہ کے لئے انجام دیا جاتا تھا۔

زرتشت سے پہلے قربانی کا تصور موجود تھا۔ آفتاب و مہتاب پرستی اور میتراسیم کے آئین و دین کے زمانے میں قربانی کا سلسلہ موجود تھا۔ یہ گروہ "بہار گاؤ” کے موقعے پر اپنی عبادت گاہوں (معبد) میں قربانی دیا کرتے تھے۔ اس دور میں "اہورا مزدا” اور "عناصر چهارگانه” سورج، چاند، پانی اور مٹی کو بھی مقدس سمجھتے تھے۔ ان کے لئے بھی فدیہ اور قربانی دیا کرتے تھے۔ البتہ قربانی کے طریقے مختلف تھے۔ کوئی آگ میں جلا کر کرتا تھا، کوئی صحراء میں زندہ چھوڑ جاتا، کوئی کسی گودال میں گرا کر اور کوئی جانوروں کی دم کاٹ کر اپنی اپنی قربانی کو انجام دیتا تھا۔

یہود: دین یہود کے اوائل میں قربانی کا تصور موجود ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے، کیونکہ اس میں تحریف ہونے کی وجہ سے اس بارے میں ہمارے پاس کوئی منابع موجود نہیں ہیں۔ حال حاضر میں جو معلومات ہمارے پاس ہیں، وہ موجودہ یہودیوں کے ذریعے سے ہیں۔ تورات سفر خروج باب ۲۳ میں ہم پڑھتے ہیں کہ: جناب ہارون نے گوسالہ بنایا اور اس کے لئے ایک قربان گاہ بنائی اور بلند بلند کہنا شروع کیا، کل عید ہے، خدا کے واسطے گوسالہ کے لئے عبادت کریں اور بنی اسرائیل کو بھی اس کی عبادت کے لئے کہا گیا ہے، پس یہ لوگ ہارون۴. کہ حضرت هاروان۴ کا)

درج باب نمبر ۵ میں ہم پڑھتے ہیں: ”چلئے ہم صحراء میں جا کر یہودہ خدا کا قرب حاصل کرتے ہیں اور وہاں پر قربانی دیتے ہیں، تاکہ کہیں ہم لوگ وباء اور تلوار کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں۔” جو کچھ ہم تورات میں مطالعہ کرتے ہیں، اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ قربانی کرنا دین یہود کا ایک حصہ ہے۔ شریعت حضرت موسی۴ میں قربانی کے لئے ایک خاص نظم یا طریقہ کار موجود تھا۔ اس کے علاوه اس میں کوئی خاص بات یا طریقہ کار نظر نہیں آتا ہے۔ کاہن لوگ خود یہ قربانی ذبح کرتے تھے، یہ لوگ اس زمانے میں دینی ذمہ دار یا عالم کے طور پر مانے جاتے تھے اور دینی شعائر کو انجام دیتے تھے۔ جب حضرت موسی۴ کوہ طور پر گئے اور وہاں سے جو حکم اور لوح موصول ہوتی تو بنی اسرائیل نے قربان کا سلسلہ منظم اور مرتب طریقے سے انجام دینا شروع کیا۔

مسیحیت: دین مسیحیت میں قربانی ایک امر واجب سمجھتے ہیں۔ نصاریٰ اپنی قربانی فقط  "لوجہ اللہ” کرتے ہیں اور خدا کی خوشنودی کے لئے قربانی کو نابود یعنی ختم کر دیتے تھے اور اس طریقے سے اپنے اوپر خدا کی حکومت کے مکمل ہونے کا اعتراف کرتے تھے۔ بعض مسیحیوں کے نزدیک قربانی تو صرف ایک سے زیادہ نہیں ہے، وہ ہے جسد اور خون حضرت عیسی۴، لیکن پروٹسٹنٹ قربانی کو آخری قربانی تصور کرتے ہیں۔ نصاریٰ قربانی کو ذبح کرتے وقت حضرت عیسی۴ کا نام لیتے ہیں پھر قربانی کو ذبح کرتے ہیں۔

زرتشت: گاتاہا کی گواہی پر ہر قسم کے جانور کو ذبح کرنا اور ہر قسم کا معبد بنانا حرام سمجھتے تھے، کیونکہ ان کے اعتقاد کے مطابق یہ حیوانات انسان کے لئے غذا فراہم کرتے ہیں۔ اس کے لئے کام آتے ہیں، لہذا اس کا احترام کرنا چاہیئے۔  زرتشت گاہی مکمل اور واضح طور پر اعلان کرتا ہے، نفرین اور لعنت ہے اے مزداء (شیطان) تم پر کہ تم ہوا کے ذریعے جانوروں کو پریشان کرتے ہو اور جانوروں کی کئی طور طریقوں سے قربانی کرتے ہو۔ چونکہ زرتشتوں سے پہلے جو کئی خدا کو مانتے تھے۔ مختلف طور پر دونوں سے جانوروں کو ذبح کرتے یا ان کی قربانی دیتے تھے۔ زرتشت نے آکر ایک منظم طریقے سے کئی قسموں کے رسم و رواج کو ختم کر دیا، جس میں قربانی کے مختلف طریقے بھی شامل تھے اور ایک نئے آئین اور دین کی بنیاد ڈالی۔ لیکن زرتشت کی رحلت کے بعد اس کے ماننے والوں نے اپنی پریشانیوں اور دوسرے اغراض و مقاصد کے لئے پھر سے قربانی دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

زرتشت ماہ پرستی کے سخت مخالف تھے، لیکن اس کے بعد دوبارہ ماہ پرستی کا سلسلہ شروع ہوا اور جانوروں کو بھی قربانی کرنے کی رسم و رواج شروع ہوئی۔ ایران میں رہنے والے زرتشت بھیڑ کو قربانی کے لئے ذبح کرتے تھے۔ زرتشتوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ زرتشت خود ایک خدا پرست شخص تھا، جس نے اپنے زمانے میں بہت بڑا روحانی انقلاب برپا کرکے لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دی تھی، لیکن بعد میں لوگ پھر اپنے رسم و رواج کی طرف پلٹ گئے تھے۔ اس مختصر سے مطالعے کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ قربانی کا جو تصور اسلام کے اندر ہے، وہ باقی تمام ادیان کے مقابلے میں بہت ہی اعلیٰ و ارفع مقاصد اور بہترین نیت پر مبنی ہے۔ دین مقدس اسلام میں قربانی صرف حاجیوں کے اوپر عید قربان کے دن واجب ہے یا جس دن نذر اور قسم کھائی ہو، اس وقت ان کے اوپر قربانی دینا واجب ہو جاتی ہے۔ باقی تمام موارد میں من جملہ عقیقہ وغیرہ میں مستحب ہے۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ تاکید بھی ہوئی ہے کہ قربانی کا گوشت بیچارے اور فقیر و فقراء کے درمیان تقسیم کیا جائے، تاکہ یہ گراں قدر چیز فضول طور پر ضائع اور برباد نہ ہو جائے، جیسا کہ دوسرے ادیان میں ہے کہ وہ قربانی کو جلاتے ہیں یا صحرا میں یا کھائی وغیرہ میں گرا دیتے ہیں اور یہ چیز اسراف میں شامل ہے، جو کہ بہت بڑا گناہ ہے۔ بہرحال اسلام کے اندر قربانی کی اہمیت نہایت ہی بلند و بالا ہے۔ یہاں پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تمام ادیان سے اسلام وہ بہترین دین ہے، جس میں قربانی ایک مقدس چیز شمار ہوتی ہے، جس میں خود خدا، دین اسلام اور کتاب خدا کو زندہ رکھنے کے لئے قربانی کا تصور موجود ہے۔ اس لئے حضرت امام حسین۴ نے دین مقدس اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے اور یزید کے شر سے بچانے کے لئے میدان کربلا میں ایک عظیم قربانی پیش کی۔ جس کو آج پوری بشریت تسلیم کرتی ہے اور حضرت امام حسین۴ کے اوپر اعتقاد رکھتی ہے۔ بقول شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین۴

عظیم قربانی:
"وفد يناه بذبح عظیم” (سوره صافات : ۱۰۷) "اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قربانی کو قرار دیا ہے۔” چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا۔ عقل اور فکر سے نوازا، اس لئے اس کو اپنی معرفت کی اور عبادت کی ذمہ داری دی اور جبکہ انسان اشرف المخلوقات قرار پایا تو وہ اگر ناحق قتل کر دیا جائے تو اس ایک انسان کے عوض میں اگر ورثاء راضی ہوں تو سو اونٹ دیت میں دیئے جاتے ہیں، جس طرح عبداللہ کے والد بزرگوار حضرت پیغمبر اسلام کی قربانی میں سو (۱۰۰) فدیہ دیئے گئے۔ قربانی کی رسم قدیم سے ہے۔ انبیاء کرام۴ اور اوصیاء۵ سب خدا کی راہ میں قربانی دیتے رہے، ابتدائی زمانہ حضرت آدم۴ کے بیٹے ہابیل اور قابیل نے قربانی دی تھی۔

ذبح عظیم سے مراد:
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ وہی دنبہ جسے حضرت قابیل علیہ السلام نے قربانی میں دیا تھا اور بارگاہ خداوندی میں قبول ہوا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو ذبح کے واسطے لٹایا تو بہشت سے اللہ تعالیٰ نے فدیہ بیجھا تھا، جس کی خبر قرآن میں دی ہے "وفد یناہ بذبح عظیم"، "ہم نے حضرت اسماعیل کے عوض میں ایک بہت بڑی قربانی دی۔” ان دونوں بزرگواروں کی نسبت اسلامی تاریخ کا یہ واقعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام من جانب الله کا معمور ہوئے کہ اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں اور آپ نے بڑی ثابت قدمی اور پر جگری کے ساتھ حکم ربانی کی تکمیل کو عمل کے آخری درجہ تک پہنچا دیا۔ اگرچہ وقت پر پروردگار عالم کی طرف سے بجائے انسان کے جانور کے عمل میں آنے کا انتظام ہوگیا، مگر اس اعلان کے ساتھ  آئندہ اس کا معاوضہ راہ خدا میں ایک بڑی قربانی کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔

اس واقعہ کو اسلام نے بڑی اہمیت دی اور قربانی کی شکل میں اس کی مستقل یادگار قائم کر دی. تفسیر اہلبیت۴ میں وارد ہے کہ ذبح عظیم سے مراد حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں کہ وہ کربلا کے سرزمین پر ذبح کئے گئے اور انہیں ہی خداوند کریم نے ذبح عظیم کہا ہے۔ اسی لئے علامہ اقبال نے "وفد یناہ بذبح عظیم” کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پر
الله الله وہ کلمہ تحسین و آفرین ہے، جو مرحبا، حبذا اور شاباش کے معنوں میں آتا ہے۔ اس کا لطف اہل زبان خوب جانتے ہیں اور یہ لفظ (اللہ اللہ) اس وقت اور بھی حسن و رعنائی میں بڑھ جاتا ہے، جب شاعر اپنے کسی شعر کا آغاز لفظ اللہ اللہ سے کرتا ہے، جیسا کہ علامہ صاحب نے اس شعر کے ابتداء میں استعمال کیا ہے۔

جناب ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت امیر المؤمنین علی بن علی طالب علیہ السلام ایک شب بسم اللہ کی تفسیر بیان کر رہے تھے۔ تمام اصحاب ہمہ تن گوش باب مدینۃ العلم کے فضل و کمال سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ رات بیت گئی، مگر تفسیر نا تمام رہی۔ آخر آپ۴ نے فرمایا کہ اگر ہم اس کی تفسیر کلی طور پر بیان کریں تو اس کا بوجھ ستر (۷۰) اونٹ نہیں اٹھا سکتے۔ اسی واقعے کو شیخ سلیمان قندوزی نقشبندی نے اپنی (ینابیع المودہ) شہرہ آفاق کتاب میں "امیر المومنین فرماتے ہیں کہ جو کچھ کلام اللہ ہے، وہ سورہ الحمد(الفاتحہ) میں ہے اور جو کچھ سورہ الحمد (فاتحہ) میں ہے، وہ بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے، وہ بائے بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بائے بسم اللہ میں ہے وہ ”ب“ کے نقطے میں ہے اور "با“ کے نیچے کا وہ نقطہ میں (علی۴) ہوں۔”

اللہ اللہ جہاں مصرعہ اولیٰ میں علامہ اقبال صاحب نے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے ارشاد کو نظم کیا ہے، وہیں اس شعر کے مصرعہ ثانی میں کلام اللہ کی اس آیت کی تشریح و توضیح نہایت اجمال کے ساتھ بہت ہی خوبصورت سے نظم کی ہے۔ جس کی نظیر ملنا بہت مشکل ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب تین بار جبرئیل امین۴ نے آکر چھری کو حلق اسماعیل۴ سے پلٹ دیا تو آواز قدرت آئی اے ابراہیم۴ تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا۔ اب ہم تم دونوں (باپ، بیٹے) کو اعلیٰ مراتب سے سرفراز فرمائیں گے۔ اس لیے ہم نیکی کرنے والوں کو جزائے خیر دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بڑا کڑا امتحان تھا اور حضرت اسماعیل (ع) کی قربانی کا فدیہ ایک ذبح عظیم سے بدل ڈالا۔ افسوس کہ کم عقل اور کم نظر مفسرین نے اس واضح خداوندی "وفد یناہ بذبح عظیم” سے مراد وہ موٹا تازہ دنبه لیا ہےو جو بہشت سے جناب اسماعیل۴ کی جگہ آیا ہے۔

مگر صاحب یہ انسان سے افضل نہیں، چہ جائیکہ نبی امام سے بڑھ جائے تو پھر یہ نبی امام سے بڑھ جائے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا کہ قربانی اسماعیل۴ کی جگہ آیا تو اسماعیل۴ سے اس بہشتی دینے کی قربانی عظیم ہو، جو جناب اسماعیل۴ کی جگہ آیا۔ تو ماننا پڑے گا کہ ذبح عظیم کے مصداق اتم حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی ذات ستودہ صفات ہے، جو
بحر حق در خاک و خون غلطیده است
پس بنائے لا الہ گر دیده است (اسرار، رموز خودی ص ۱۲۷)
حسین علیہ السلام حق کی خاطر اپنے عزیزوں اور مٹھی بھر جانثاروں کے ساتھ باطل سے ٹکرا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یزید اپنی پوری طاقت کے ساتھ شراب و کباب اور شباب کے نشے میں چور حق سے برسر پیکار ہوا۔ اس نے اسلام کے خدوخال کو مسخ کرنے کی سعی لاحاصل کی۔ اس نے اقدار اسلامیہ کو پائمال کرنے کی بھی جسارت کی، اس نے شریعت محمدی کا کھلے بندوں مذاق بهی اڑایا۔

ہمارے اس بیان پر واقعہ حرہ بطور دلیل تاریخ میں آج بھی موجود ہے اور پھر اس پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ توحید و رسالت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا ہوا طاقت کو حق کہتا ہے۔ اس کے برعکس جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حفاظت حق کے لئے صدائے حق بلند کرتے ہیں اور یزید کے اس نعرہ کو باطل قرار دیتے ہیں کہ طاقت حق ہے۔ نہیں نہیں ہرگز طاقت حق نہیں بلکہ حق طاقت ہے۔ یہ منوانے کے لئے حسین۴ کفن بردوش سرفروش ساتھیوں کے اٹھے اور باطل سے ٹکرا گئے۔ تاریخ عالم اس بات کی شاہد ہے کہ فتح و نصرت نے حسین۴ کے قدم چومے اور شکست دائمی یزید نجس کا مقدر بن گئی۔ الله الله حسین علیہ اسلام نے خاک خون کا دریا پا کر صفحہ گیتی پر صرف الا الله کی مستحکم بنیاد رکھ دی کہ جسے اب تا ابد کفر و الحاد و زندقہ کی منہ زور آندھی نہ ہلا سکتی ہے اور نہ ہی مٹا سکتی ہے۔ امام۴ نے تاریخ اسلام کے اس اہم باب کا اختتام اپنی قربانی سے کر دیا۔ جس کی ابتدا خواب ابراہیم۴ اور قربانی اسماعیل۴ سے ہوئی تهی۔

یہی وہ باب ہے، جسے علامہ اقبال نے غریب و سادہ و رنگین قرار دیا ہے، تاریخ کے قاری سے یہ بات مخفی نہیں کہ اس غریب و سادہ CHAPTER میں یہ بلا کى رنگینى، قربانی سبطه رسول انام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معرض وجود میں آئی، اسی لیے تو شاعر مشرق علامہ اقبال کو کہنا پڑا:
سرخرو عشق غیور از خون او
شوخی این مصرع از مضمون او
که حسین علیہ السلام (نمائندہ حق) برای حرمت حق، سر دھڑ کی بازی لگا دی کہ حق کا بول بالا اور باطل کا منہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کالا کر گیا۔ قسم ذات احدیت کی عشق غیور کی آبرو کا محافظ وہی ہے (سر دے کر جس نے اسلام بچالیا) اور آج اسلام اہل عالم کی نظروں میں معزز و موقر اسى لئے ٹهہرتا ہے کہ اس کی پیشانی پر جلی حروف میں "یاحسین” لکھا ہے اور یہی وہ نام ہے، جو عشق کے مضمون کا عنوان قرار پاتا ہے۔ اس لئے عشق غیور کو سرخروی کا تاج ملا اور انسانیت کو معراج نصیب ہوئی، یہی اقبال کے نزدیک عشق کے مضمون کی سرخی سوخ ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اگر امام اعلی مقام اس درد پر آشوب میں جبکہ باطل اپنی طاقت کے زعم میں حق کو ملیا میٹ کرنے پر تلا ہوا تھا، وازه حق بلند نہ کرتے تو اسلام کے نقوش دھندلا کر رہ جاتے، توحید کا سبق یکسر دل و دماغ سے محو ہو جاتا اور محمد رسول اللہ کہنے والا کوئی نہ ہوتا، حتی کہ گلدستہ اذان سے اشہدان لا الہ الا اللہ کی صدائے بازگشت بھی سنائی نہ دیتی۔ اس میں شک نہیں کہ اگر امام حسین علیہ السلام اپنی اور اپنے عزیزوں اور یار و انصار کی قربانی راہ خدا میں نہ دیتے تو یقیناً یہی ہوتا، جس کی نشاندہی شاعر نے کی ہے۔ یہ تو حضرت امام حسین۴ نے جہاں اپنی قربانی دیکر کر اللہ تعالیٰ کے وعدے "وفد بناہ بذبح عظیم” کی گواہی دی ہے، وہیں نبی اکرم (ص) کے اس بلند بانک دعوے "حسین منی وانا من الحسین” کی صداقت کو الم نشرح کر دکھایا۔

حسین منی وانا من الحسین"، "حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں” حسین جس نسل کی یاد تھی، وہ صدیوں سے قربانی و فدا کاری کی ایک مسلسل تاریخ تیار کر رہی تھی۔ یہ عام قاعدہ ہے کہ بچے جب اپنے بزرگوں کے حالات سنتے ہیں تو ان میں بچپن ہی سے ولولہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں بھی کوئی موقع ایسے کارنامے پیش کرنے کا مل جائے۔ اس لئے عام فطرت کے تقاضوں اور ظاہری اسباب کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ امام حسین۴ کے لئے علاوہ منصبی ذمہ داری کے خاندانی روایات اور بلند فطرت کا تقاضا یہی تھا کہ بچپن سے منتظر اور مشتاق رہیں کہ سجائی کی خدمت، غریبوں کی مدد، مظلوں کی دستگیری اور ہمدردی کا کوئی موقع پیش آئے اور آپ بھی حق کی حمایت میں اپنے فریضے کو انجام دے کر اپنی خاندانی روایات کو زندہ اور برقرار رکھیں۔

حضرت امام حسین۴ اسلام کی حفاظت اور اعلائے کلمہ حق کو حقیقت اور عدالت و فضیلت کو زندہ رکھنے اور نگہداشت کرنے میں ان تمام امتیازی وابستگیوں اور امکانی تعلقات سے جو کچھ کسی شخص کی انفرادی حیثیت سے محبت و دوستی کا باعث ہوتے ہیں، صرف نظر فرمایا اور مقصد و ہدف کے حصول کے لیے مالی و جانى، فرزند اور زندگی کے تمام علائق سے دست بردار ہوگئے۔ اس وقت جبکہ قریب تھا کہ پیغمبر عالی قدر اسلام کی ۲۳ سالہ تمام زحمتیں، کوششیں اور کاوشیں اور مجاہدین راہ حق کی کوششیں اور جاں فشانیاں بے کار اور پائمال ہو جائیں اور اسلام حقیقی لوگوں کے درمیان سے یکسر غائب و نابود ہو جائے اور ایسے حالات میں جبکہ اسلام حکام جور کے ہاتھوں میں ایک کھلونے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ حضرت سید الشہداء۴ نے قیام فرمایا اور مدینے سے رخصت ہوتے وقت فرمایا ”جو شخص اس بات کے لئے آمادہ اور حاضر ہو کر ہمارے اس مقدس مقصد کی راہ میں جو ہمارے پیش نظر ہے، اپنا خون دل شمار کرے اور اپنی زندگی اور شخصی تعلقات سے دستبردار ہو جائے، وہی شخص ہمارے قافلے میں شامل ہو اور ساتھ چلے۔”

حضرت امام حسین۴ نے دوران سفر راستے میں اپنی راہ معین فرمائی تھی اور فرمایا: میرے دوستو! اور ساتھیو! یہ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ زمانے کی ہئیت و حالت دگرگوں ہوچکی ہے، برائیاں ظاہر ہوگئی ہیں، نیکیاں و اچھائیاں، خوبیاں اور فضیلتیں ہمارے ماحول سے رخت سفر باندھ چکیں اور رخصت ہوچکی ہیں اور مراد اسلام کے خلاف حالات سامنے آگئے ہیں۔ انسانی فضائل میں سوائے ایک قلیل مقدار کے کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا ہے، ٹھیک ایسے ہی جیسے پانی گراتے وقت محدود چند قطرے ظرف آب پر معلق رہ جاتے ہیں۔ آج لوگ رسوائی و بے حیائی کے ماحول میں جس کے ساتھ سنگ و عار ذلت بھی شامل ہے، زندگی گزار رہے ہیں۔ آج حق و حقیقت پر عمل نہیں ہوتا اور باطل و ناجائز امور سے پرہیز اور روگردانی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ایسے میں مناسب و سزاوار یہیں ہے کہ باایمان و بافضیلت انسان فداکاری و جانبازی کا ثبوت دیں اور اپنے پروردگار سے ملاقات اور اس کے فیوض حاصل کرنے کے لیے سبقت و جلدی کریں۔

میں ایسے جبر و تشدد سے معمور ماحول میں اور ان خرابیوں سے بھرپور فضا میں موت کو فقط سعادت و خوش نصیبی سمجھتا ہوں اور ان جابروں اور ستمگروں کے ساتھ زندہ رہنے کو سوائے جانکاہ رنج و ملال کے اور کچھ نہیں جانتا۔ حضرت امام حسین۴ رضائے خدا کی خاطر اپنی قربانیاں پیش کرکے رضائے الہیٰ کی بلندیوں پر پہنچے، کیونکہ توحید خدا کا کمال یہ ہے کہ محود اپنے کو حق تعالیٰ پر قربان کر دے اور تمام منزلوں سے گزرے۔ اسی لئے خداوند عالم نے فرمایا "وفد یناہ بذبح عظیم” علامہ اقبال اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
آن امام عاشقان پور بتول۴
سرور آزادی زبستان رسول
بهر آن شهزاده خير الملل
دوش ختم المرسلين نعم الجمل

موسی۴ و فرعون شبیر۴ و یزید
این دو قوت از حیات آمد پدید

زنده حق از قوت شبیری۴ است
باطل آخر داغ حسرت میری است

بر زمین کربلا با رید و رفت
لاله در ویرانه ها کارید و رفت

تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاب کرد

ستر ابراهیم۴ و اسماعیل۴ بود
یعنی آن اجمال را تفصیل بود

حضرت امام حسین۴ سر اسماعیل۴ و ابراہیم۴ تھے، یعنی اس اجمال کی تفصیل تھے۔ مطلب یہ کہ حسین۴ نے اپنے جد بزرگوار حضرت ابراہیم۴ و اسماعیل۴ کے پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور "وفد یناہ بذبح عظیم” کی تشریح و توضیح اور تفسیر نہایت ہی جلی حروف میں خاک کربلا پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے خون سے تحریر کر دی۔ جب ہم جناب ابراہیم۴ و اسماعیل علیم السلام کے واقعے کو بہ نظر عمیق مطالعہ کرتے ہیں اور ادھر سرکار امام حسین۴ کے جذبہ ایثار و قربانی کا ذکر سنتے ہیں یا پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ میدان کربلا میں سیدالشہداء۴ نے اپنے جد اعلیٰ سیدنا ابراہیم۴ کا کردار ادا کیا اور آپ۴ کے فرزند سعید حضرت علی اکبر۴ نے تاسی جناب اسماعیل۴ میں سرتسلیم خم کیا۔ اس شعر میں علامہ علیہ الرحمہ کا اشارہ جناب اسماعیل و ابراہیم۴ کے اس جرات مندانہ اقدام کی طرف ہے، جو مانے عشق الہیٰ میں مقام مناء پر ادا کیا۔ اس خواب کی جلی تعبیر جگر گوشتہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرزند علی۴ و بتول ۴ نے قربانی جناب علی اکبر۴ سے پیش کردی
صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین۴ بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

اس شعر میں علامہ صاحب نے عشق کی بات کی ہے۔ عشق ایک مسلسل امتحان کا نام ہے۔ نسل آدم۴ میں سب سے پہلے حضرت آدم۴ کا امتحان ہوا۔ قصہ طویل ہے۔ مختصر یہ کہ آدم۴ کامیاب ہوئے، دستار فضیلت کے مستحق اور خلقت خلافت کے سزاوار قرار پائے۔ حضرت نوح۴ نے امتحان عشق طوفان بلا خیز کشتی اتار کر پار کی تو بامراد ہوئے۔ یونس۴ نے شکم ماہی میں امتحان عشق کی منازل طے کیں ہیں۔ حضرت ذکریا۴ نے بوقت امتحان عشق زیر آراہ مسکرا کر دیا۔ جناب ابراہیم خلیل الله۴ نے یہ امتحان نار نمرود میں کود کر پاس کیا۔ موسی۴ نے یہ امتحان کوہ طور پر جا کر، عیسی۴ مسیح نے سولی پر چڑھ کر یہیں امتحان دیا اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو اپنی پوری زندگی اس امتحان میں گزار دی۔ علی مرتضی۴ نے تو مسجد کوفہ میں ابن ملجم کی تلوار لگنے اور ذوالقرنین بننے پر صاف کہہ دیا۔ *فزت برب الکعبہ* "رب کعبہ کی قسم میں اپنے مشن میں کامیاب رہا۔”

امام حسن مجتبیٰ۴ نے یہ امتحان زہر ہلاہل کو بصورت قند پی کر پاس کیا اور پنجتن پاک کے آخری فرد امام حسین۴ نے یہ امتحان سرنوک سناں یوں دیا کہ نبیوں۴ کو حیران کر دیا اور بالآخر علامہ اقبال علیہ الرحمہ کو کہنا پڑا که خلیل اللہ کے عشق اور خواجہ بدر و حنین کے عشق کی طرح کا عشق صبر حسین۴ میں پایا گیا۔ حضرت ابا عبدالله الحسین۴ کی ذات مبارک بنی نوع انسان کے لیے ایک آئیڈئیل ہے، ایک مقصد ہے، ایک طرز فکر ہے، ایک مکتب جاویداں ہے، حریت اور آزادی کی علمبردار ہے۔ حضرت امام حسین۴ کی قربانی ایسی تھی کہ جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ خود بهی راہ خدا میں قربان ہوگئے اور اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی قربانی میں چھے۶ ماہ کا بچہ بھی قربانی میں دے دیا۔

دیکھئے روز عاشور امام حسین۴ کی حالت خود ایسی تھی کہ بغیر ذبح کے شہید ہو جاتے۔ انیس سو (۱۹۰۰) زخم تلواروں کے، نیزے کے، تیروں کے، مرنے کے واسطے کم نہ تھے۔ فقط ایک تیر خولی کا جو قلب اقدس اور پرنالہ کی طرح خون جاری ہوا، ایسا جانگاہ تھا کہ وہی شهید ہو جانے کے لیے کافی تھا، مگر خدا نے ذبح عظیم کہا تھا، بغیر ذبح ہونے کے خدا کا قول کیونکر پورا ہوتا؟ اور ذبح کے کیونکر فدیہ قرار پائے؟ جب حضرت۴ گھوڑے سے گرے، شمر ملعون آگے بڑھا، سینہ اقدس پر سوار، ریش مبارک ہاتھ میں لی اور تلوار سے ذبح کر دیا۔ محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، اس کی دسویں تاریخ کو قربانی ہے اور ذی الحج حج اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے، اس کی دسویں تاریخ کو بھی قربانی ہے، ہم مسلمانوں کا سال شروع بھی قربانی سے ہوتا ہے اور ختم بھی قربانی پر۔ آغاز بھی قربانی، انتہاء بھی قربانی۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ۴ ابتدا ہے اسماعیل۴

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button