مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

راہ حق کا الہیٰ مسافر

پاکستان کی شیعہ تاریخ میں آپکے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ستر کے عشرے کے بعد جب بھی کوئی پاکستان کی شیعہ تاریخ لکھے گا تو اس میں سب سے نمایاں نام شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا نظر آئے گا۔ تاریخ کا حصہ قرار پانا بہت سوں کو نصیب ہوتا ہے، لیکن تاریخ میں زندہ رہنا اور اپنے عمل و کردار سے آنیوالی نسلوں کیلئے مشعل راہ بننا ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ بلاشبہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے، جو نہ صرف تاریخ میں زندہ ہیں بلکہ آئندہ آنیوالی نسلوں کیلئے مشعل راہ بھی ہیں

شیعہ نیوز: ماہرین سماجیات کے نزدیک کسی شخصیت کی اہمیت جاننے کیلئے بہترین معیار یہ قرار پاتا ہے کہ اس نے اپنے معاشرے پر کتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایسا شخص جس نے بظاہر دنیا میں بڑی شہرت پائی ہو اور خاص و عام اس کے گرویدہ اور عاشق بھی ہوں، لیکن دنیا سے کوچ کرنے کے بعد اگر لوگ اس کی شخصیت، شہرت، ثروت، خوبصورتی، رعب داب اور تمام مروجہ صفات و خصوصیات کو مختصر عرصے کے بعد فراموش کر دیں تو اس سے سمجھ لینا چاہیئے کہ اس فرد یا شخص کی معاشرے پر تاثیر عارضی اور مختصر مدت کیلئے تھی اور وہ بہت جلد قصہ پارینہ ہو جائیگا۔ ماہرین سماجیات کے بقول شخصیت کے اثرات اس کے نظریات و اہداف سے مربوط ہوتے ہیں، جس شخص کا ویژن، آئیڈیالوجی, راہ اور عملی کام، جتنا گہرا، آفاقی اور عالمگیر ہوتا ہے، اس کے اثرات بھی اتنے ہی دائمی و پائیدار ہوتے ہیں۔

نظریات اور ویژن کیساتھ ساتھ ایک خصوصیت جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، وہ انسان کا دوسرے انسان کیساتھ رویہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت میں باہمی رویوں کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ توحید کی تبلیغ اور نیکی و بھلائی کی ترویج کے لیے بھی دین اسلام نے کچھ بنیادی اصول وضع کیے ہیں۔ تبلیغ اسلام کیلئے جہاں للھیت، اخلاص، بصیرت، ہمدردی، ہمدلی، ایثار و قربانی اور عدم شہرت طلبی و عدم ہوس اقتدار اہم ہے، وہاں متعلقہ افراد سے مناسب رویوں کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاراچنار میں شدید غذائی قلت، عوام سوکھی روٹی کھانے پر مجبور

عالم اسلام کے معروف مفکر و فلسفی شہید آیت اللہ مرتضیٰ مطہری اپنی کتاب جاذبہ و دافعہ علی ؑ کے مقدمے میں رقمطراز ہیں، معاشرے میں چار طرح کے افراد ہوتے ہیں
1۔ وہ لوگ جو جاذبہ رکھتے ہیں، نہ دافعہ، یعنی نہ ان میں لوگوں کو اپنی طرف جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، نہ دور کرنے کی۔ شہید مطہری کے بقول اس طرح کے افراد خاموش، ساقط اور بے اثر ہوتے ہیں۔
2۔ وہ لوگ جو صرف لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتے ہیں اور ان میں دور اور دفع کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، ایسے افراد ریاکار، منافق اور جھوٹے ہوتے ہیں۔
3۔ بعض لوگوں میں صرف دافعہ ہوتا ہے،یعنی وہ کسی کو جذب نہیں کرتے، اپنے قریب نہیں آنے دیتے، ایسے افراد ناقص اور دشمن ساز ہوتے ہیں۔

4۔ چوتھی قسم میں وہ افراد آتے ہیں، جن میں دوسروں کو جذب کرنے کی بھی صلاحیت ہوتی ہے اور غیر متعلقہ افراد کو اپنے سے دور کرنے کی بھی استعداد ہوتی ہے، ایسے فرد کو متوازن شخصیت کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دوست بھی بناتے ہیں اور مخالف بھی، اس طرح کے افراد اپنی آئیڈیلوجی اور نظریئے کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھتے ہیں اور جاذبہ اور دافعہ دونوں سے کام لیتے ہیں، شہید مطہری کے بقول ایسے افراد بعض اوقات زمان و مکان سے ماورا ہو کر معاشرے کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا شمار بھی ان افراد میں ہوتا ہے، جن میں جہاں غیر معمولی جاذبہ تھا تو دوسری طرف دافعہ بھی کم نظیر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ داکٹر محمد علی نقوی بننا آسان نہیں۔ ڈاکٹر نقوی بننے کیلئے شخصیت میں بہت ساری صفات کا جمع ہونا ضروری ہے۔ شہید ڈاکٹر کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ رویوں کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کی قوت جاذبہ کی وجہ سے لوگ ان کی طرف کھچے چلے آتے تھے، جبکہ دافعہ کے زاویے سے دیکھیں تو بعض تنظیمی افراد، مذہبی اور فلاحی امور میں فعال ہونے کے باوجود قریبی سرکل میں شامل نہیں ہوسکتے تھے۔ شہید اپنے موقف کو کھل کر بیان کرتے اور اپنی قاطعیت کی وجہ سے غیر متعلقہ افراد کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ کئی افراد جن کو اپنی سماجی اہمیت، ثروت، شہرت، منصب، فعالیت اور رائج معاشرتی برتریوں کا گھمنڈ و غرور ہوتا تھا، لیکن وہ شہید ڈاکٹر نقوی کے الہیٰ معیار پر پورے نہیں اترتے تھے، لہذا آپ انہیں اپنے قریبی سرکل میں قبول نہیں کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سفارتخانے پاکستان میں تباہی کا باعث ہیں، مقررین فلسطین کانفرنس

دوسری جانب جو الہیٰ معیار پر پورا ہوتا، اسے گھر سے بلا کر بلکہ بعض اوقات اس کے گھر جا کر اسے اپنی صف میں شامل کر لیتے۔ شہید ڈاکٹر کا جاذبہ و دافعہ الہیٰ معیارات سے مزین تھا۔ وہ کسی ظاہری خصوصیت سے ہرگز مرعوب و متاثر نہ ہوتے تھے۔
ہو حلقہ یاراں تو ابریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
بات معاشرے میں تاثیر گزاری کے تناظر میں ہو رہی تھی۔ شہید ڈاکٹر آج تین عشروں کے بعد بھی اتنے ہی موثر اور ریلیوینٹ ہیں، جتنے وہ اپنی زندگی میں تھے بلکہ بڑی جرات اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی تاثیر ان کی زندگی سے بھی بیشتر ہے۔ تاثیر میں اضافے کی ایک وجہ وہ عارفانہ مفہوم ہے، جو شہداء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ "جب تک شہید کی روح اس کے بدن کے اندر ہوتی ہے، وہ محدود ہوتی ہے، لیکن جب یہ روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے تو اس کی محدودتیں اور پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات زمان و مکان سے ماورا ہو جاتی ہے۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی متحرک زندگی کے سرسری جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان کی للھیت اور قربت خداوندی کے لیے کی جانے والی کوششیں اور ان کا خلوص اس بات کا باعث بنا کہ ان کی تاثیر اور اثرات کو آج بھی معاشرے میں محسوس اور درک کیا جاسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خلوص اور للھیت کا عملی کردار سے بھی گہرا ربط ہوتا ہے، بلکہ دونوں لازم و ملزوم ہیں، عرفاء اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ جس شخص کا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا بلکہ زندگی کے تمام لمحات قرب خداوندی کیلئے وقف ہوں اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گوشہ نشین کی زندگی گزار رہا ہو، للھیت انسان کو اپنی ذمہ داری کی ادائیگی پر مجبور کرتی ہے۔ انبیاء و آئمہ سے بڑھ کر کون للھیت کے درجے پر فائز ہوگا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تمام مقدس ہستیاں انسانی معاشرے کی اصلاح کیلئے شب و روز متحرک و سرگرم رہیں۔

ہمارے دور میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) اور شہید عارف حسین الحسینی کی مثالیں روز روشن کی طرح واضح و روشن ہیں. انہوں نے اپنی زندگی کو قربت الہیٰ کے راستے میں گزارنے کیلئے تمام کوششوں کو بروئے کار لایا، لیکن کبھی بھی گوشہ نشینی، رہبانیت اور معاشرے سے الگ ہو کر صرف روایتی عبادات میں زندگی کے اوقات نہیں گزارے۔ دونوں ہستیوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک معاشرے کی اصلاح کے فریضے کو ترک نہیں کیا۔ شہید ڈاکٹر کے معاشرے میں ابھی تک موثر ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی پراجیکٹ یا منصوبے میں خدائی اور معاشرے کیلئے موثر و فائدہ مند ہونے کے الہی معیارات کو بڑی آسانی سے تشخیص دے لیتے تھے۔ مثال کے طور پر جب ایک معروف فلاحی تنظیم نے آپ کو اہم منصب دینے کی پیشکش کی تو آپ نے اسے ٹھکرا دیا، حالانکہ اس میں فلاحی امور کی انجام دہی کے بہت زیادہ مواقع تھے۔ آپ نے جب اس بات کو درک کر لیا کہ اس کام میں انسانی فلاح کے ویژن میں بھی للھیت کا عنصر ناپید ہے تو آپ نے اس بڑے ادارے کی پیش کش کو مسترد کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاراچنار کے امدادی قافلوں پر حملہ کرنیوالوں کو نہیں چھوڑیں گے، علی امین

شہید ڈاکٹر کے تنظیمی مکتب میں سچائی اور راست گوئی کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ شہید ڈاکٹر خود بھی اس پر بڑی سختی سے کاربند تھے اور اپنے اردگرد کے افراد اور تنظیمی ساتھیوں کو بھی اس پر سختی سے عمل درآمد کی تاکید فرماتے تھے۔ وہ اکثر اوقات ایک نام نہاد عالم کی مثال دیا کرتے تھے، جو اعمال کو نیکیوں اور برائیوں کی تعداد کے تناظر میں انجام دیتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر میں نے کسی دکان سے ایک روٹی چرا کر بھوکے غریب انسان کو کھلا دی تو مجھے چوری کے بدلے ایک برائی ملے گی، جبکہ غریب انسان کا پیٹ بھرنے کی وجہ سے دس نیکیاں ملیں گی۔ اس نام نہاد فقیہ کے بقول اس عمل سے میں نے ایک گناہ اور دس نیکیاں حاصل کی ہیں۔ خدا جب میرا احتساب کرے گا تو اگر ایک برائی ملے گی تو دس نیکیاں بھی تو ملیں گی۔ گویا ایک نیکی کم ہو جائے گی، لیکن باقی نو نیکیاں میرے حساب میں ضرور لکھی جائیں گی۔

دینی و مذہبی تنظیموں میں بھی بعض اوقات نیکیوں اور برائیوں کو اس تناظر میں دیکھا جاتا ہے اور تنظیمی کارکن بظاہر بڑے ثواب کے لیے چھوٹے موٹے گناہ کا ارتکاب کر لیتا ہے۔ شہید ڈاکٹر کے تنظیمی مکتب میں اس کی کوئی گنجائش اور اجازت نہیں۔ جن اخلاقی رذائل اور گناہوں سے شریعت نے منع کیا ہے، وہ تنظیمی اور اجتماعی کام کی انجام دہی کے لیے جائز نہیں ہوسکتے۔ شہید ڈاکٹر نقوی نے کسی کو دعوتِ تنظیم دینا ہوتی یا اسے کوئی کام سونپنا ہوتا تو پہلے اس کام سے متعلق مشکلات و ابتلائات سے آگاہ کرتے۔ کسی کو عہدے پر کام کرنے کا کہتے تو پہلے اس عہدے کو ایک امتحان و آزمائش قرار دیتے، پھر اس کی دیگر تفصیلات بتاتے۔ شہید ڈاکٹر اگرچہ مبشر اور نذیر دونوں تھے، لیکن وہ کسی کو دھوکے میں رکھ کر ظاہری لفاظی یا کذب بیانی سے ہرگز کام نہ لیتے۔ ذاتی اور اجتماعی زندگی میں ان کے کئی ایسے واقعات ہیں، جن سے درک کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کبھی ذومعنی جملوں اور چکنی چپڑی باتوں سے کسی کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش نہ کی۔

تنظیم کی خوبی یا خامی بیان کرتے وقت حقیقت پسندی سے کام لیتے تھے۔ نہ بے جا تعریف اور نہ ہی بےجا تنقید کرتے۔ ان کی راست گوئی کی وجہ سے بعض دوست ناراض بھی ہو جاتے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انہیں احساس ہو جاتا کہ اگر ڈاکٹر صاحب تکلف کا اظہار کرتے تو وہ خامی یا کمی ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی، لیکن چونکہ ڈاکٹر صاحب نے بلاتکلف اس خامی کی طرف متوجہ کر دیا تو اس کو دور کرنے کا موقع بھی میسر آگیا۔ شہید ڈاکٹر کی زندگی کی متعدد مثالوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے قربت خداوندی کے راستے میں اپنی انفرادی اور اجتماعی سرگرمیوں کو آگے بڑھایا اور للھیت اور خلوص ہی اس بات کا باعث بنا کہ آپ آج معاشرے میں موثر اور Relevant ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ماہ رمضان المبارک تمام مہینوں کا سردار ہے، آیت اللہ حافظ ریاض نجفی

پاکستان کی شیعہ تاریخ میں آپ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ستر کے عشرے کے بعد جب بھی کوئی پاکستان کی شیعہ تاریخ لکھے گا تو اس میں سب سے نمایاں نام شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا نظر آئے گا۔ تاریخ کا حصہ قرار پانا بہت سوں کو نصیب ہوتا ہے، لیکن تاریخ میں زندہ رہنا اور اپنے عمل و کردار سے آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ بننا ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ بلاشبہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے، جو نہ صرف تاریخ میں زندہ ہیں بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ بھی ہیں۔ آخر میں سورہ مبارکہ فتح کی آیات پیش خدمت ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے سورہ مبارکہ فتح کی تلاوت کی تلقین فرمائی ہے۔ لہذا اس سے آرٹیکل کا اختتام کرتے ہیں اور سورہ فتح کی آیات کی تلاوت کا ثواب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی روح کو ایصال کرتے ہیں۔

"(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو فتح دی۔ فتح بھی صریح و صاف، تاکہ خدا تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے اور تمہیں سیدھے رستے پر چلائے اور خدا تمہاری زبردست مدد کرے۔ وہی تو ہے، جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی، تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ اور ایمان بڑھے۔ اور آسمانوں اور زمین کے لشکر (سب) خدا ہی کے ہیں۔ اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے، (یہ) اس لئے کہ وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، داخل کرے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ان سے ان کے گناہوں کو دور کر دے۔ اور یہ خدا کے نزدیک بڑی کامیابی ہے اور (اس لئے کہ) منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو خدا کے حق میں برے برے خیال رکھتے ہیں، عذاب دے۔ ان ہی پر برے حادثے واقع ہوں۔

اور خدا ان پر غصے ہوا اور ان پر لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کی۔ اور وہ بری جگہ ہے اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں۔ اور خدا غالب (اور) حکمت والا ہے اور ہم نے (اے محمدﷺ) تم کو حق ظاہر کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا اور خوف دلانے والا (بنا کر) بھیجا ہے، تاکہ (مسلمانو) تم لوگ خدا پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کو بزرگ سمجھو۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو، جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں، وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ پھر جو عہد کو توڑے تو عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔ اور جو اس بات کو جس کا اس نے خدا سے عہد کیا ہے، پورا کرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا، جو گنوار پیچھے رہ گئے، وہ تم سے کہیں گے کہ ہم کو ہمارے مال اور اہل و عیال نے روک رکھا، آپ ہمارے لئے (خدا سے) بخشش مانگیں۔

یہ لوگ اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں، جو ان کے دل میں نہیں ہے۔ کہہ دو کہ اگر خدا تم (لوگوں) کو نقصان پہنچانا چاہے یا تمہیں فائدہ پہنچانے کا ارادہ فرمائے تو کون ہے، جو اس کے سامنے تمہارے لئے کسی بات کا کچھ اختیار رکھے (کوئی نہیں) بلکہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے واقف ہے۔ بات یہ ہے کہ تم لوگ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ پیغمبر اور مومن اپنے اہل و عیال میں کبھی لوٹ کر آنے ہی کے نہیں۔ اور یہی بات تمہارے دلوں کو اچھی معلوم ہوئی۔ اور (اسی وجہ سے) تم نے برے برے خیال کئے اور (آخرکار) تم ہلاکت میں پڑ گئے اور جو شخص خدا پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان نہ لائے تو ہم نے (ایسے) کافروں کے لئے آگ تیار کر رکھی ہے اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی خدا ہی کی ہے۔ وہ جسے چاہے، بخشے اور جسے چاہے سزا دے۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔”

 

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button