مضامین

فلسطینی بچوں کی بڑھتی شہادتیں، اقوام متحدہ اور مزاحمت

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

معروف صحافی و اینکر پرسن جناب آصف محمود صاحب ہر موضوع پر ہی خوب لکھتے ہیں اور اہل فلسطین کے لیے ان اکے الفاظ ان کے دلی جذبات کے ترجمان ہوتے ہیں۔ کل انہوں نے ایک تصویر شیئر کی، سچ پوچھیں تو کافی دیر اس تصویر کو دیکھتا رہا۔ اس تصویر میں ایک فلسطینی بچہ جھولے سے سلائیڈ لے رہا ہے اور اسے ایک اسرائیلی میزائل پشت سے ہٹ کرتا ہے اور جہاں سلائیڈ ختم ہو کر بچے انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہیں، وہاں قبر کا منہ کھلا ہے اور وہ اس میں داخل ہو رہا ہے۔ اس تصویر نے پوری طرح دماغ کو فلسطینی بچوں کی بڑھتی شہادتوں کی طرف منتقل کر دیا۔ ویسے تو اسرائیل بطور ریاست جبر کا مرتکب ہوتا ہے۔ ہر فلسطینی پر جبر کرتا ہے، مگر اس کا بچوں کے حوالے سے رویہ دیکھ کر لگتا ہے کہ گویا ان ظالموں کے سینے میں دل ہی  نہیں ہیں اور ان کی اس قدر برین واشنگ ہو چکی ہے کہ بچوں کے قتل عام پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔

ابھی الجزیرہ دیکھ رہا تھا، اس کے مطابق آج ہی غزہ کے طبی ذرائع کے مطابق اسرائیل کے جنگی طیاروں نے وسطی غزہ میں نوصیرات پناہ گزین کیمپ میں ایک گھر پر بمباری کی ہے، جس میں بچوں سمیت 14 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ ممکن ہے کہ جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں، اس وقت بھی کتنے ہی مظلوم فلسطینی بچے خاک و خون میں غلطان ہو رہے ہوں۔ دنیا کی ہر تنظیم اور ہر حساس انسان چیخ رہا ہے کہ بچوں کی نسل کشی بند کی جائے، مگر بین الاقوامی طاقتوں کی حمایت کی وجہ سے یہ قتل عام جاری  ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے ایک اہلکار نے کہا غزہ میں شہریوں بالخصوص بچوں کا اندھا دھند قتل بند کیا جائے۔

یونیسیف سمیت اقوام متحدہ کے اپنے کارکنوں پر کئی حملے ہوچکے ہیں، جس میں کئی کی جان گئی ہے اور کئی زخمی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیرس نے رفح میں اقوام متحدہ کی گاڑی پر اسرائیلی فورسز کی فائرنگ کے بعد اہل غزہ کے خلاف جنگ میں غیر ملکی عملے کے رکن کی ہلاکت کی مذمت کی ہے اور اس کی "مکمل تحقیقات” کا مطالبہ کیا ہے۔ آپ الفاظ پر توجہ  دیں جناب سربراہ اقوام متحدہ صرف اس لیے تحقیقات کا مطالبہ فرما رہے ہیں کہ مرنے والا کارکن فلسطینی نہیں بلکہ غیر ملکی تھا۔ اگر یہ غزہ کا مقامی باشندہ ہوتا تو اس کے مرنے کی مذمت بھی مشکل سے ہی ہوتی۔

یہ پہلا حملہ نہیں ہے، انسانی حقوق کے گروپس کے مطابق، اسرائیلی فوج نے گذشتہ سال اکتوبر سے غزہ میں امدادی کارکنوں کے قافلوں پر کم از کم آٹھ حملے کیے ہیں، یہ حملے اس کے باوجود ہوئے کہ امدادی گروپوں نے اپنے رابطہ کار اسرائیلی حکام کو تمام معلومات فراہم کی تھیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی حکام نے حملوں سے پہلے کسی بھی امدادی تنظیم کو پیشگی انتباہ جاری نہیں کیا تھا، جس میں کم از کم 31 انسانی حقوق کے کارکنان زخمی یا ہلاک ہوئے۔ اس رپورٹ میں یہ اہم معلومات بھی ہیں کہ ان حملوں کہ جن میں اقوام متحدہ کا سٹاف نشانہ بنا، استعمال ہونے والا بم امریکی ساختہ تھا اور اسے F-16 طیارے نے پھینکا  تھا، جس میں مبینہ طور پر برطانوی ساختہ پرزے استعمال کیے گئے تھے۔

اس نسل کشی میں امریکی اور برطانوی اسلحہ پورے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ آج طاقت و اختیار ان کے پاس ہے، مگر ایک بات تاریخ کے سینے پر ثبت ہو رہی ہے، کل کسی دن امریکی اور برطانوی اپنے اس کردار پر اسی طرح معافی مانگیں گے، جیسے جلیانوالہ باغ کے عوامی قتل عام پر معافی مانگی گئی تھی۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کے موضوع پر ہونے والی ڈیبیٹس کافی دلچسپ ہوتی ہیں۔ پاکستان کے مستقل نمائندے جناب منیر اکرم منجھے ہوئے سفارتکار ہیں۔ چند دن قبل انہوں نے ایک امریکی مطالبے کے تار و پود بکھیر دیئے۔

اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کے موقع پر امریکی مندوب نے مطالبہ کیا کہ ایسی کسی بھی رکنیت کے لیے فلسطین پر پہلی شرط یہ عائد کی جانی چاہیئے کہ وہ اسرائیل سے مذاکرات کرے اور اس کے خدشات دور کرے۔ اس کو جس مندوب نے جواب دیا، وہ منیر اکرم صاحب تھے، جنہوں نے کہا: ’’ٹھیک ہے، لیکن پھر یہ شرط دوطرفہ اور level playing field کے ساتھ ہونی چاہیئے۔ پھر اسرائیل کو بھی پابند کیا جائے کہ (قبل اس کے کہ فلسطین اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے درخواست دے) وہ بھی فلسطین کے ساتھ مذاکرات کرے اور اس کے خدشات دور کرے۔” واضح رہے کہ منیر اکرم صاحب کئی موقعوں پر نہایت مدلل انداز میں صیہونیت پرستوں کو جواب دیتے رہے ہیں۔

مزاحمت بھی جاری ہے اور اعصاب شکن مزاحمت ہے۔ وہ جو چند دنوں میں پوری عرب دنیا کو پچھاڑنے کا دعویٰ رکھتے تھے، اس جنگ کو آج 219 دن ہوچکے اور وہ جاری ہے۔ دو دن پہلے بھی ان جانبازوں نے 17 مقامات پر صہیونی گماشتوں پر حملے کیے اور بزدل دشمن کو شرمناک ہزیمت سے دوچار کیا۔ دو معروف امریکی تھینک ٹینکس، انسٹی ٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وار اور کریٹکل ٹھریٹس پراجیکٹس نے اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں کہا ہے: ‘‘حماس  نے زیتون کے علاقے میں دشمن پر موثر حملے کیے۔ یہ حملے اسرائیلی دعووں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مزاحمت کاروں کا ارادہ اور صلاحیت اپنی جگہ پوری قوت سے موجود ہے۔

ہم ان دونوں امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹوں کی تائید کرتے ہیں کہ مزاحمت پوری قوت کے ساتھ زمین پر موجود ہے اور اب اگلی نسل میں منتقل ہو رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جبر بھی جاری ہے۔ اسرائیلی فوج نے رفح کے کویتی ہسپتال کے عملے کو طبی سہولت چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت نے خبردار کیا ہے کہ "چند گھنٹوں” میں پورے علاقے میں صحت کا نظام تباہ ہوسکتا ہے۔ ان انسانیت دشمنوں کو کیا؟ یہ اس دکھ درد کو محسوس کرنے سے عاری ہیں۔ ہم اہل فلسطین کی ساتھ کھڑے ہیں۔ ان شاء اللہ جلد آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button