
صہیونی فوج کو غزہ میں بھاری شکست؛ حماس نے اپنی عسکری طاقت دوبارہ بحال کرلی
شیعہ نیوز: غزہ میں فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں صہیونی فوج کو پے درپے نقصانات پر مبصرین نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوجی دلدل میں دھنس چکے ہیں، حماس نے ہزاروں نئے نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کر لیا ہے۔
غزہ کے مکمل محاصرے اور مسلسل جارحیت کے باوجود صہیونی فوج کو فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے ہاتھوں شدید ہزیمت کا سامنا ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیلی افواج کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے، جب کہ حماس نہ صرف اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے بلکہ نئی قوت، تازہ دم نوجوانوں اور جدید حکمتِ عملی کے ساتھ میدان جنگ میں مزید منظم انداز سے ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ان بدلتے ہوئے حالات نے اسرائیلی قیادت اور فوجی کمانڈ کو شدید اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے معروف برطانوی اخبار فائنینشل ٹائمز نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں غزہ میں اسرائیلی ناکامی اور حماس کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی قوت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیل ناصرف اپنے جنگی مقاصد میں ناکام رہا ہے بلکہ اس کی فوج غزہ میں مسلسل نقصان اٹھا رہی ہے، جبکہ حماس نے اپنی طاقت کو نہ صرف بحال کیا ہے بلکہ ہزاروں نئے نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کر لیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے حالیہ حملوں کے دوران جب پانچ صہیونی فوجی ہلاک اور 14 زخمی ہوئے تو اسرائیلی رائے عامہ اس واقعے سے صدمے میں آ گئی۔ صرف ہلاکتوں کی تعداد کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے بھی کہ یہ کارروائی ایک ایسے مقام پر ہوئی جو اسرائیلی فوجی کنٹرول میں تصور کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : حکومت ہوش کے ناخن لے! زائرین کو زیارت سے روکنا ان کے مذہبی اور آئینی حق کی صریحا خلاف ورزی ہے،علامہ راجہ ناصرعباس
یہ واقعہ بیت حانون کے علاقے میں پیش آیا، جو شمالی غزہ میں واقع ہے اور 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی حملے کے بعد اسرائیل کے زیر کنٹرول حصے میں شامل کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور اس کے اتحادی اصرار کرتے ہیں کہ صرف طاقت کے ذریعے باقی ماندہ 50 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرایا جاسکتا ہے اور حماس کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکتا ہے لیکن 21 ماہ گزر جانے کے بعد بھی اسرائیل ان دونوں اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
فائنینشل ٹائمز مزید لکھتا ہے کہ غزہ کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور تقریبا 60 ہزار فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں جس کے نتیجے میں اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
نتن یاہو کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ جنگ کو محض اپنے سیاسی اقتدار کو بچانے کے لیے طول دے رہا ہے، جبکہ خود اسرائیلی فوج ایک ایسی جنگ میں الجھ چکی ہے جسے اخبار نے دلدلی جنگ قرار دیا ہے۔
اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ حالیہ دنوں میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جون سے اب تک 35 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ مارچ میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بعد ابتدائی تین ماہ میں یہ تعداد صرف 11 تھی۔
اسرائیلی فوج کے سابق انٹیلی جنس افسر مایکل میلشتائن کے حوالے سے اخبار نے لکھا ہے کہ یہ ایک ہمہ گیر جنگ ہے جس کا کوئی واضح ہدف یا اسٹریٹجک مقصد نہیں ہے۔ حماس اب بھی مکمل فعال اور طاقتور ہے۔ غزہ کے اندر اس کی حکمرانی ہے اور اس کی جگہ لینے کے لیے کوئی متبادل قوت اب تک سامنے نہیں آئی۔ مارچ کے بعد سے آج تک ایک بھی قیدی زندہ واپس نہیں لایا جا سکا۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ حالیہ رائے عامہ کے سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی عوام کی اکثریت ایسے معاہدے کی حامی ہے جو قیدیوں کی آزادی کو یقینی بنائے، چاہے اس کے نتیجے میں موجودہ جنگ کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہو جو کہ صہیونی حکومت کی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن چکی ہے۔
فائنینشل ٹائمز کا کہنا ہے کہ اسرائیلی انٹیلیجنس اور امریکی اداروں کے مطابق، حماس نے ہزاروں نوجوان مجاہدین کو اپنی صفوں میں شامل کرلیا ہے اور اب بھی ان علاقوں پر مؤثر کنٹرول رکھتی ہے جہاں اسرائیلی افواج براہِ راست قابض نہیں۔
اسرائیلی فوج روزانہ کی بنیاد پر فضائی حملے کرتی ہے جن کے بارے میں وہ دعوی کرتی ہے کہ ان کا ہدف حماس کے جنگجو ہوتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان حملوں میں روزانہ درجنوں عام شہری جاں بحق ہورہے ہیں۔
اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایال زامیر نے گزشتہ ہفتے بیت حانون میں تعینات صہیونی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدہ نہیں ہوتا، تو فوج کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپریشنز کو مزید وسیع اور شدید کردے۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ اسرائیلی فوج اور نتن یاہو کی کابینہ کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج واضح ہوتی جارہی ہے۔ فوجی قیادت بشمول جنرل زامیر جنگ بندی کے اس معاہدے کی حمایت کرتی ہے جو کم از کم آدھے قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنائے۔ لیکن نیتن یاہو اور اس کے سخت گیر حامی اصرار کرتے ہیں کہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک تمام قیدی بازیاب، حماس کو غیر مسلح اور غزہ کو مکمل طور پر غیر خطرناک نہ بنا دیا جائے۔
اخبار کے مطابق نیتن یاہو کے مخالفین خاص طور پر میلشتائن جیسے سابق افسران خبردار کرتے ہیں کہ غزہ درحقیقت صہیونی حکومت کی خیالی فتوحات کا دارالحکومت بن چکا ہے۔ تل ابیب کے حکام اس کے بارے میں ایسی کہانیاں سناتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور ان کا مقصد صرف اپنی قوم کو دھوکا دینا ہے۔