جلاد کے خلاف کم ترین فیصلہ
عالمی فوجداری عدالت نے غاصب صیہونی رژیم کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر نسل کشی کا جنگی جرم ثابت ہو جانے کے بعد اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ اس فیصلے نے صیہونی حکمرانوں اور ان کے مغربی حامیوں کو شدید بحرانی صورتحال کا شکار کر دیا ہے۔ عالمی سطح پر صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق صیہونی وزیر جنگ یوآو گالانت کے خلاف اس فیصلے کا وسیع خیر مقدم کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی نظام میں تل ابیب کی ہائبرڈ جنگ پوری طرح شکست کھا چکی ہے۔ نیتن یاہو ایک طرف غزہ جنگ کے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوا ہے جبکہ دوسری طرف عالمی سطح پر امریکہ اور صیہونی رژیم کے خلاف شدید غم و غصے کی لہر پیدا ہو چکی ہے۔ ایسے حالات میں عالمی عدالت انصاف کا یہ فیصلہ اسرائیل کی مکمل نابودی اور زوال کی نوید دلاتا ہے۔
صیہونزم سے اجتماعی نفرت
صیہونزم کے خلاف اجتماعی نفرت اس قدر وسعت اختیار کر چکی ہے کہ حتی اگر غزہ جنگ اسی لمحے بند بھی ہو جائے تب بھی مغربی طاقتوں اور اسرائیل کا کھلم کھلا اور خفیہ اثرورسوخ اس پر قابو پانے میں ناکام رہے گا۔ مزید برآں، فوجی، قانونی، انٹیلی جنس اور میڈیا کے میدانوں میں غاصب صیہونی رژیم کی شکست جوں کی توں باقی ہے۔ ہیگ کی عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے جنوبی افریقہ کی مدعیت میں صیہونی حکمرانوں کے خلاف نسل کشی جیسے جنگی جرم کے ارتکاب پر عدالتی کاروائی انجام پانا اور آخرکار صیہونی وزیراعظم اور وزیر جنگ پر فرد جرم عائد کر کے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دینے نے صیہونیوں کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔ نیتن یاہو اور اس کے حامیوں میں عالمی فوجداری عدالت کی کاروائی سے شدید خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے جس کے باعث صیہونی حکمرانوں اور ان کے حامیوں پر زمین تنگ ہو چکی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی فوجداری عدالت کے اس فیصلے میں بین الاقوامی سطح پر موجود صیہونی مخالف رائے عامہ نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر عالمی سطح پر یہ احتجاجی مہم جاری رہتی ہے تو اس کا یقینی نتیجہ صیہونزم کے نیم مردہ بدن پر مزید کاری ضربیں لگنے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ غزہ جنگ کو ایک سال اور تین ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس عرصے میں امریکی اور یورپی حکمرانوں نے جائزہ دفاع جیسی مختلف توجیہات کے ذریعے غزہ اور لبنان میں دسیوں ہزار بے گناہ اور نہتے خواتین اور بچوں کے قتل عام کا جواز پیش کیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جرمنی کا صدر اولاف شولتس، فلسطینی بچوں کے قتل عام کو صیہونی حکمرانوں کی جانب سے اپنی سلامتی کے دفاع کا مصداق قرار دیتا ہے اور برطانوی وزیراعظم ریشی سوناک تل ابیب کی مذمت کرنے سے گریز کرتا ہے۔
مغربی پروپیگنڈے کی ناکامی
اگرچہ کچھ مغربی ممالک نے بھی عالمی فوجداری عدالت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک بھی نیتن یاہو اور صیہونی رژیم کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ گذشتہ برس، جب عالمی فوجداری عدالت میں غزہ میں نسل کشی کا مقدمہ شروع ہوا تو مغربی حکومتوں اور ذرائع ابلاغ کا موقف اس کے بالکل متضاد تھا اور وہ صیہونی رژیم کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ اب بھی عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا فیصلہ دراصل اس حقیقت کی عکاسی کر رہا ہے جس کی مغربی حکومتیں غزہ جنگ کے آغاز سے ہی انکار کرتی آئی ہیں لیکن اب وہ اس کے انکار کی طاقت نہیں رکھتیں۔ لہذا اس فیصلے کے بعد بین الاقوامی نظام اور ورلڈ آرڈر میں تبدیلی کا ایک نیا اور اہم مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار نئے ورلڈ آرڈر کے خدوخال کا تعین دوسری عالمی جنگ کی فاتح قوتیں نہیں کریں گی بلکہ عالمی رائے عامہ کرے گی۔ اس نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کا تصور ہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ڈراونا خواب بن چکا ہے۔ نیتن یاہو اور گالانت کو اب وہ بین الاقوامی ادارے اور عدالتیں بھی برداشت نہیں کریں گی جنہوں نے گذشتہ چند عشروں اور خاص طور پر غزہ جنگ کے دوران صیہونی جارحیت اور بربریت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔
ایسا فیصلہ جو لاگو ہو سکتا ہے
عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے جاری ہونے والے اس فیصلے کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ لاگو ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس وقت صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو دنیا کے کم از کم 120 ممالک میں قانونی تحفظ کھو چکا ہے اور ان ممالک کا دورہ نہیں کر سکتا۔
غزہ میں نسل کشی پر مبنی جنگی جرم ثابت ہو جانے کے بعد نیتن یاہو اور یوآو گالانت کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد اب ان افراد کی گرفتاری کی توقع کی جا رہی ہے۔ عالمی فوجداری عدالت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ 8 اکتوبر سے 20 مئی تک غزہ میں انجام پانے والے جنگی جرائم پر نیتن یاہو اور یوآو گالانت کی سرپرستی اور نظارت کے ٹھوس اور منطقی شواہد موجود ہیں۔ لہذا چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے ان دونوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ قانونی مرکز "عدالت” کے سربراہ حسین جبارین اس فیصلے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ فلسطین پر ناجائز قبضے کے آغاز سے اب تک اہم ترین قانونی فیصلہ شمار ہوتا ہے۔ گذشتہ فیصلوں سے اس فیصلے کا فرق یہ ہے کہ اس میں لاگو ہونے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اس سے پہلے بھی عالمی عدالت نے فلسطین پر اسرائیلی قبضہ ناجائز قرار دیا تھا لیکن وہ صرف موقف کا اظہار تھا۔
تحریر: محمد علی زادہ