اہم پاکستانی خبریںہفتہ کی اہم خبریں

فوج حکومت کا ماتحت ادارہ، سیاست میں کوئی کردار نہیں

شیعہ نیوز:پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردارہے اورنہ ہی اسے سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی جائے‘کسی سے کوئی بیک ڈوررابطہ نہیں ‘ ہمیں معاملے سے دور رکھا جائے۔

حکومت نے فوج کو الیکشن کرانے کی ذمہ داری سونپی‘ فوج نے پوری ذمہ داری اور ایمانداری سے الیکشن کرائے‘ پھر بھی کسی کو اعتراض ہے تو ادارے موجودہیں ‘ان سے رجوع کیاجائے ‘ الزامات لگانا اچھی بات نہیں‘فوج حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔

حکومت تمام الزامات کا بہتر انداز میں جواب دیکر اچھی طرح ہمارادفاع کررہی ہے ‘فوج اپوزیشن کے نام نہادالزامات کاجواب نہیں دے گی جس میں حقیقت اور وزن نہ ہو‘فوج مخالف بیانات پر تشویش ضرور ہے مگرفوج کامورال بلند ہے اور وہ اپنا کام کررہی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کے پنڈی آنے کی کوئی وجہ نظرنہیں آتی اوراگر وہ آئے توہم ان کوچائے پانی پلائیںگے‘ ان کی اچھی دیکھ بھال کریں گے‘ماضی کے مقابلہ میں آج پاکستان میں دہشت گردی کاکوئی منظم نیٹ ورک موجودنہیں ہے۔

کراچی میں امن و امان کی صورتحال ترقی یافتہ ممالک کے دارالحکومتوں سے بھی بہتر ہے‘بلوچستان میں کچھ عرصے سے ملک دشمن قوتیں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کے در پے ہیں‘سکیورٹی ادارے ان عزائم کو ناکام بنانے کے لیے شب و روز مصروف ہیں۔

پاک افغان باڑ ہم نے اپنے جوانوں کے خون اورپسینے سے لگائی ہے کسی کی مجال نہیں کہ اس باڑکو اکھاڑسکے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ افغانستان میں داعش کی معاونت کر رہی ہے‘ افغان حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔

کائنیٹک خطرات کے میدان میں ناکامی کے بعد بھارت نے ہائبرڈ اورففتھ جنریشن وار کا سہارا لیا ہے‘پاک فوج بھارت کے ہراقدام کابھرپورجواب دینے کیلئے پوری طرح تیارہے‘بھارت اپنے مورال کوبلندرکھنے کیلئے دعوے کرتا رہتا ہے ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ہمیں ان کی استعداد اورعزائم کا اچھی طرح سے علم ہےاور ہم پوری طرح تیارہیں۔

امریکا اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان روابط جاری ہیں، ہم اس حوالے سے بہت پرامید ہیں۔ پیر کویہاں پریس بریفنگ میں انہوں نے بتایا کہ 2020 گزشتہ 10 برسوں میں ایک مشکل سال تھا‘تمام چیلنجوں کے باوجودریاست، قومی اداروں، افواج پاکستان،انٹیلی جنس ایجنسیوں اورسب سے اہم پاکستانی عوام نے متحد ہوکران مشکلات کابھرپور مقابلہ کیااوربحثیت قوم الحمدللہ اللہ نے ہمیں سرخرو کیا ۔

ہندوستان کے مذموم عزائم ہوں یا پاکستان کے خلاف ہائبرڈ جنگ کے ایپلی کیشنز،خطرات اندرونی ہوں یابیرونی،ہم نے ہمشہ ثبوتوں اور حقائق کے ذریعہ ان کی نشاندہی بھی کی اورکامیابی سے مقابلہ بھی کیا اوراس بات کواب دنیابھی مان رہی ہے کیونکہ جیت ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے۔

آپریشن ردالفسادکے ذریعہ دہشت گردوں کے حامیوں‘ان کے سہولت کاروں‘ان کواکسانے والوں‘مالی معاونت فراہم کرنے والوں اور غیر قانونی اسلحہ وگولہ بارود کابڑی حدتک خاتمہ کردیا گیا۔

2007میں سابق قبائلی اضلاع میں 37 فیصد علاقہ پرریاست کی عمل داری رہ گئی تھی، آج تمام قبائلی اضلاع خیبرپختونخواکاحصہ ہیں، سال 2020 میں دہشت گردی کے بڑے واقعات میں سال 2019 میں 45 فیصد کمی آئی، 2013میں یہ 90 واقعات سالانہ تھے،آج یہ 13 واقعات پرآگئے ہیں۔

2014ءمیں جرائم کی شرح کے حوالہ سے کراچی دنیا میں چھٹے نمبرپرتھا، 2020 میں کراچی دنیا میں جرائم کی شرح کے حوالہ سے 103 نمبرپرآچکاہے‘کراچی میں دہشت گردی میں 95 فیصد، ٹارگٹ کلنگ میں 98 فیصد، بھتہ خوری میں 99 فیصد جبکہ اغوابرائے تاوان میں 98فیصدکی کمی آچکی ہے۔

2611کلومیٹرپاک افغان سرحدپرباڑ کی تعمیرکا83فیصد کام مکمل ہوچکاہے، رواں سال کے وسط تک باڑ کی تعمیر مکمل ہوجائیگی، پاک ایران سرحد پر37 فیصد کام مکمل ہوچکاہے اورامید ہے کہ اگلے ایک سال تک یہ بھی مکمل ہوجائیگا۔

میجر جنرل بابرافتخار کا مزید کہناتھاکہ دشمن قوتیں ہمیں ناکام بنانے میں مصروف ہیں اورہمیں تقسیم کرنے کے درپے ہیں‘ ہم سب کا اجتماعی کردار اورذمہ داریاں ہیں‘ منزل ایک ہے، پاکستان کوکامیاب بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے‘گزشتہ چندسالوں میں ہم نے اپنی توجہ بلوچستان کی طرف منتقل کی۔

بلوچستان پاکستان کا 44 فیصد یعنی بہت بڑا ایریا ہے، وہاں سیکورٹی کومربوط کرنے کیلئے بہت وسائل درکارہیں‘خطرات موجو دہیں لیکن صورتحال قابو میں ہے۔

جتنا بڑاصوبہ ہے وہاں ایک ایک چپہ پر سنٹری کھڑاکرنا ممکن نہیں ہے لیکن اس کے باوجود سیکورٹی کومضبوط کیا جارہاہے ، انشاء اللہ حالات میں مزیدبہتری آئیگی‘ہم اس بات کویقینی بنائیں گے کہ بلوچستان محفوظ ہوں کیونکہ بلوچستان پاکستان کامستقبل ہے۔

ایل اوسی پررہنے والی آبادی کے تحفظ کیلئے حکومت نے فنڈز مختص کئے ہیں اوراب ہرگھر میں بنکربھی بنائے جارہے ہیں،پاکستان میں داعش کاکوئی منظم ڈھانچہ نہیں ہے،بھارت جس طرح دفاعی اخراجات کررہاہے اس کے تناظرمیں بین الاقوامی برادری کواس بات کا ادراک کرنا چاہئیے کہ اس سے روایتی توازن بگڑسکتاہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button