امت مسلمہ کو مغربی اور سامراجی طاقتوں کی مداخلت اور شرانگیزی کا مقابلہ کرنا چاہیے
شیعہ نیوز: رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حج بیت اللہ الحرام کے موقع پر اپنے پیغام میں فرمایا: مسلمانوں کو مغربی اور سامراجی طاقتوں کی مداخلت اور شرانگیزی کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
والحمد لله رب العالمین و صلی الله علی محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین و من تَبِعَهُم باِحسانٍ الی یوم الدین
ساری دنیا کے مسلمان بھائیو اور بہنو!
اس سال بھی مسلم امہ حج کی عظیم نعمت سے محروم رہ گئی۔ افسوس کہ مشتاق دلوں کے ہاتھ سے اس قابل احترام گھر میں، جسے خدائے حکیم و رحیم نے لوگوں کے لئے بنایا ہے، ضیافت کا موقع نکل گیا۔
یہ دوسرا سال ہے کہ روحانی خوشی و مسرت کا موسم حج، فراق و حسرت کے موسم میں تبدیل ہو گيا۔ ہمہ گیر بیماری کی مصیبت بلکہ شاید حرم شریف پر سایہ فگن پالیسیوں کی مصیبت مومنین کی مشتاق آنکھوں کو امت اسلامیہ کی وحدت و عظمت و روحانیت کے مظاہر کے دیدار سے محروم کر رہی ہے اور یہ پرشکوہ و فلک بوس چوٹی بادلوں اور غبار کی چادر میں ڈھک گئی ہے۔
یہ تاریخ میں مسلم امہ کے عارضی امتحانوں میں سے ایک امتحان ہے جو تابناک مستقبل پر منتج ہو سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حج اپنی حقیقی شکل میں مسلمانوں کے دل و جان کی وادی میں زندہ رہے اور آج جب عارضی طور پر اس کے مناسک نہیں ہیں تو اس کا اعلی پیغام ہرگز پھیکا نہ پڑے۔
حج رموز و اسرار سے بھری عبادت ہے۔ اس کے اندر حرکت و سکون کا پرکشش امتزاج اور اس کی ساخت، ایک مسلمان کی شخصی شناخت اور مسلم معاشرے کی تشکیل کرنے والی اور دنیا کی نگاہوں کے سامنے اس کی پرکشش جھلکیاں پیش کرنے والی ہے۔ ایک طرف وہ بندوں کے دلوں کو ذکر و خضوع و خشوع سے روحانی رفعت عطا کرتا ہے اور خدا سے قریب کرتا ہے اور دوسری طرف یکساں پوشاک اور ہم آہنگ حرکات و سکنات کے ذریعے سب بھائیوں کو جو دنیا بھر سے آکر جمع ہوتے ہیں ایک دوسرے سے جوڑ دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی گہرے معانی و رموز سے آراستہ تمام مناسک کے ذریعے مسلم امہ کی اعلی ترین مثال دنیا والوں کی آنکھ کے سامنے رکھ دیتا ہے اور امت کے عزم و شکوہ سے بدخواہوں کو آگاہ کرتا ہے۔
اس سال حج بیت اللہ میسر نہیں لیکن رب البیت کی طرف توجہ، ذکر، خضوع و خشوع، تضرع اور استغفار بے شک میسر ہے۔ عرفات میں حضور تو نصیب نہیں لیکن یوم عرفہ کی بصیرت افروز دعا و مناجات دسترسی میں ہے۔ منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنا تو ممکن نہیں لیکن ہر جگہ تسلط پسند شیطانوں کو دفع کرنا اور مار بھگانا ممکن ہے۔ کعبے کے گرد جسموں کا ایک ساتھ پہنچنا ممکن نہیں ہے لیکن قرآن کریم کی روشن آیات کے محور پر دلوں کا ایک ساتھ مجتمع ہو جانا اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لینا دائمی فریضہ ہے۔
ہم اسلام کے پیروکار کہ جن کے پاس آج بہت بڑی آبادی، وسیع علاقے، بے پناہ قدرتی وسائل، زندہ و بیدار قومیں ہیں، اپنے مہیا وسائل و امکانات کی مدد سے مستقبل تعمیر کر سکتے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سو سال میں مسلم اقوام نے اپنے ملکوں اور حکومتوں کی سرنوشت کے سلسلے میں کوئی کردار نہیں نبھایا بلکہ معدودے چند مثالوں کو چھوڑ کر ہمیشہ جارح مغربی حکومتوں کی پالیسیوں کے حساب سے چلتی رہیں اور ان کے حرص، دخل اندازی اور شرانگیزی کا نشانہ بنتی رہیں۔ آج بہت سارے ممالک کی علمی پسماندگی اور سیاسی انحصار اسی بے عملی اور بے لیاقتی کا نتیجہ ہے۔
ہماری قومیں، ہمارے نوجوان، ہمارے سائنسداں، ہمارے دینی رہنما اور ہمارے سول مفکرین، سیاسی رہنما، ہماری پارٹیاں اور آبادیاں آج ہر افتخار سے عاری بلکہ شرمناک ماضی کی بھرپائی کریں، ثابت قدمی سے کھڑی ہو جائیں اور مغربی طاقتوں کی دھونس، دخل اندازی اور شرپسندی کی مزاحمت کریں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا پیغام جو دنیائے استکبار کو پریشان اور خشمگیں کئے ہوئے ہے وہ در حقیقت اسی مزاحمت کی دعوت سے عبارت ہے۔ امریکہ اور دیگر جارح طاقتوں کی مداخلتوں اور شرپسندی کی مزاحمت اور اسلامی تعلیمات کے سہارے دنیائے اسلام کے مستقبل کی باگڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے مزاحمت۔
ظاہر ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری مزاحمت کے نام سے بدکتے ہیں اور اسلامی مزاحمتی محاذ سے گوناگوں طریقوں سے دشمنی نکالنے پر کمربستہ ہیں۔ علاقے کی بعض حکومتوں کا ان کے ساتھ لگ جانا بھی ایک تلخ حقیقت ہے جس کا مقصد شرانگیزی کے سلسلے کو طول دینا ہے۔
وہ صراط مستقیم جس سے ہمیں مناسک حج، سعی، طواف، عرفات، جمرات اور حج کے شعائر و شکوہ و وحدت روشناس کراتے ہیں، وہ اللہ پر توکل، اللہ کی لا متناہی قدرت کی طرف توجہ، قومی خود اعتمادی، محنت و مجاہدت پر یقین، عمل کے عزم راسخ اور فتح کی بھرپور امید کا راستہ ہے۔
اسلامی خطے میں زمینی حقائق سے اس امید کو تقویت ملتی ہے اور عزم مزید محکم ہوتا ہے۔ ایک طرف دنیائے اسلام کی ناخوش آئندہ صورت حال، علمی پسماندگی، اغیار پر سیاسی انحصار، اقتصادی و سماجی بدحالی ہمیں عظیم فریضے اور بے وقفہ جہاد پر مامور کرتی ہے۔ غصب شدہ فلسطین، ہم سے مدد مانگتا ہے، مظلوم اور خون آلود یمن دلوں کو درد و رنج سے بھر دیتا ہے، افغانستان کی مصیبتیں سب کو تشویش میں ڈال دیتی ہیں، عراق، شام، لبنان اور بعض دیگر مسلم ممالک کے تلخ واقعات، جہاں امریکہ اور اس کے ہمنواؤں کی دخل اندازی صاف نظر آتی ہے، نوجوانوں کی غیرت و ہمت کو دعوت عمل دے رہے ہیں۔
دوسری جانب اس پورے حساس علاقے میں مزاحمتی محاذ کی قوتوں کی بڑھتی توانائی، قوموں میں پھیلتی بیداری، جوشیلی نوجوان نسل کے متلاطم جذبات، دلوں میں امید کی روشنی پیدا کرتے ہیں۔ فلسطین اپنے ہر گوشے میں ‘قدس کی شمشیر’ نیام سے باہر نکال رہا ہے۔ قدس، غزہ، مغربی کنارہ، 1948 کے مقبوضہ علاقے اور پناہ گزیں کیمپ سب اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور 12 دن کے دوران جارح قوت کی ناک زمین پر رگڑ دیتے ہیں۔ محصور و تنہا یمن سات سال تک شرپسند اور بے رحم دشمن کی جنگ، جرائم اور مظلوم کشی کا سامنا کرتا ہے اور غذائی اشیاء، دواؤں اور زندگی کے وسائل کی قلت کے باوجود جارح قوت کے سامنے سر نہیں جھکاتا بلکہ اپنی طاقت اور جدت طرازی سے اسے سراسیمہ کر دیتا ہے۔ عراق میں مزاحمتی محاذ کی قوتیں واضح اور دو ٹوک انداز میں غاصب امریکہ اور اس کے ایجنٹ داعش کو پسپا کر رہی ہیں اور امریکہ اور اس کے حواریوں کی ہر طرح کی شرانگیزی اور مداخلت کا جواب دینے کے اپنے پختہ عزم کا آشکارا اعلان کر رہی ہیں۔
عراق، شام، لبنان اور دیگر ممالک میں مزاحمتی محاذ کی قوتوں اور غیور نوجوانوں کے عزم، مطالبے اور اقدامات میں تحریف کرنے کے لئے امریکیوں کے تشہیراتی پروپیگنڈے اور انھیں ایران یا کسی اور مرکز سے مربوط ظاہر کرنے کی کوششیں ان شجاع و بیدار نوجوانوں کی شان میں گستاخی ہے جس کی وجہ اس علاقے کی اقوام سے امریکیوں کی ناواقفیت ہے۔
اسی غلط اندازے کی وجہ سے افغانستان میں امریکہ رسوا ہوا۔ 20 سال پہلے اس شور شرابے کے ساتھ آمد اور نہتے عام شہریوں پر ہتھیاروں، بموں اور گولیوں کے استعمال کے بعد وہ خود کو دلدل میں ڈوبا ہوا دیکھتا ہے اور اپنی افواج اور وسائل وہاں سے نکالتا ہے۔ البتہ اب افغان عوام کو امریکہ کے انٹیلیجنس وسائل اور نرم جنگ کے ہتھیاروں کی طرف سے چوکنا رہنے اور ہوشیاری سے ان کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
علاقے کی اقوام نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ بیدار و ہوشیار ہیں اور ان کا طریقہ و راہ و روش بعض حکومتوں سے الگ ہے جو امریکہ کو خوش رکھنے کے لئے، یہاں تک کہ فلسطین جیسے کلیدی و حیاتی مسئلے میں اس کا مطالبہ مان لیتی ہیں۔ وہ حکومتیں جو غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ خفیہ و آشکارا طور پر دوستی کی پینگ بڑھاتی ہیں یعنی ملت فلسطین کے تاریخی وطن کے اندر اس کے حق کا انکار کر رہی ہیں۔ یہ فلسطینیوں کے سرمائے پر ڈاکا ڈالنا ہے۔ انھوں نے اپنے ممالک کے قدرتی وسائل کو تاراج کرنے پر اکتفا نہیں کی، اب ملت فلسطین کا سرمایہ تاراج کر رہی ہیں۔
بھائیو اور بہنو! ہمارا علاقہ اور یہاں تیزی سے رونما ہونے والے گوناگوں واقعات، درس و عبرت کا آئینہ ہیں۔ ایک طرف جارح کے جبر و ستم کے مقابلے میں مزاحمت و مجاہدت سے پیدا ہونے والی قوت اور دوسری جانب جبری مطالبات تسلیم کر لینے، کمزوری دکھانے اور سر تسلیم خم کر لینے کے نتیجے میں ہاتھ آنے والی رسوائی۔
اللہ کا سچا وعدہ ہے راہ خدا کے مجاہدین کی نصرت: إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ۔ اس مزاحمت کا پہلا نتیجہ ان شاء اللہ امریکہ اور دیگر عالمی جابر قوتوں کو اسلامی ممالک میں دخل اندازی اور شرانگیزی سے روکنا ہے۔
اللہ تعالی سے مسلم اقوام کی نصرت کی دعا کرتا ہوں۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام پر درود و سلام بھیجتا ہوں اور عظیم الشان امام خمینی اور عظیم المرتبت شہیدوں کے لئے اللہ سے بلندی درجات کی دعا کرتا ہوں۔
والسلام علی عباد اللّه الصالحین
سید علی خامنهای
6 ذی الحجه 1442
17 جولائی 2021