مضامینہفتہ کی اہم خبریں

علامہ عارف حسینی شہید کا راستہ

آزادی انسانی فطرت کی آواز ہے۔ کوئی انسان جتنا انسان ہوتا ہے، اتنا ہی آزادی پسند ہوتا ہے۔ انسانی فطرت جس طرح غلام رہنا پسند نہیں کرتی، اُسی طرح دوسروں کو غلام رکھنا بھی اسے گوارا نہیں۔ دین اسلام کی نظریاتی تعلیمات میں سے ایک اہم نظریہ اپنی آزادی کا تحفظ اور دوسروں کی آزادی کا احترام ہے۔ اِسی فطرت کی آواز کو انبیائے کرام کا مشترکہ ایجنڈا اور اسلام کا آفاقی و جہانی منشور بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے جتنے بھی انبیائے کرام بھیجے، وہ سب کے سب اقوام اور قبائل کو آزاد کرانے کیلئے آئے۔ اللہ نے کوئی ایک نبی بھی لوگوں کو غلامی کا درس دینے کیلئے نہیں بھیجا۔ اُس نے غلام اقوام میں اس لئے تو انبیاء بھیجے کہ وہ اقوام آزاد ہو جائیں، لیکن اس لئے کوئی رسول نہیں بھیجا کہ وہ حالات کی مشکلات کے پیشِ نظر لوگوں کو غلامی پر رضا مند کرے۔

آزادی کی ضِد غلامی ہے۔ کوئی انسان جتنا انسانیت سے دور ہوتا ہے، وہ اتنا ہی غلامی پسند ہوتا ہے۔ حالات کے امتحان میں اپنی آزادی کو گروی رکھ کر غلامی کا طوق پہن لینا اُس کیلئے کوئی عیب نہیں ہوتا۔ انسانی اقدار سے عاری ایسے پست لوگ ہی طاقت اور اقتدار ملنے کے بعد استعمار و استکبار کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کیلئے مفادات کے حصول کی خاطر جس طرح غلام بن جانا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، اسی طرح اپنے مفادات کیلئے دوسروں کو غلام بنا لینا بھی ان کے نزدیک کوئی بری بات نہیں ہوتی۔ یہ آزادی کی ہر تحریک کے مقابل، حریت کی ہر آواز کے مخالف، اور استقلال کے ہر راستے کی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ اگر غُلامی کے خلاف آسمانی کتابوں کے چراغ، انبیائے کرام کی سیرت کے نقوش اور بانی اسلام ؐ کی جدوجہد قافلہ بشریت کے سامنے نہ ہوتی تو لوگ غُلامی کی غلاظت کو محسوس کرنا ہی چھوڑ دیتے۔

دینِ اسلام کے مکمل ہونے اور ختمِ نبوّت کے بعد مسلمانوں کیلئے سب سے بڑا اور کٹھن امتحان مسلمانوں کے درمیان آزادی کے شعور کو زندہ رکھنا ہے۔ نااہل حکمرانوں، جابر بادشاہوں اور عیاش سلاطین نے اس شعور کو ختم کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ انہوں نے مختلف حیلوں، حربوں، مکاریوں اور چالوں کے ذریعے مسلمانوں کو اپنا غلام بنایا اور پھر انہیں غلامی پر رضامند رکھنے کیلئے بڑی بڑی شاندار مساجد تعمیر کرائیں، وسیع و عریض دینی مدرسے بنوائے، مذہبی کتابیں لکھوائیں، کتابخانوں کا رواج ڈالا، تراجم کے مراکز قائم کئے اور مکاتب و مسالک کے درمیان مناظرے کروائے۔ رفتہ رفتہ لوگ اپنی آزادی کو بھول کر بادشاہوں کی دینداری کے گُن گانے لگے۔ مسلمان بطورِ قوم بظاہر زندہ رہے لیکن اُن میں زندگی کا شعور ختم ہوگیا۔ اُنہوں نے یہ سوچنا بھی چھوڑ دیا کہ نبی اکرم حضرت محمدﷺ کی اطاعت تو ہم نبوت و رسالت کی وجہ سے کرتے تھے، اب ان بادشاہوں کی اطاعت ہم کس وجہ سے کریں!؟

لوگ ان بے عمل، بدکار، عیاش اور بدمعاش بادشاہوں کو ظِل الہیٰ کہہ کر انہیں تعظیمی سجدے کرنے لگے، ان کے خلاف آواز اٹھانے کو بغاوت کہا جانے لگا اور باغیوں کے کفر و ارتداد کے فتوے جاری ہوگئے۔ مسلمان اپنا پیٹ کاٹ کر ان کے شاہی خزانے بھرتے اور یہ بادشاہ ان خزانوں سے اپنی طوائفوں کیلئے شاندار محلات تعمیر کراتے، رنگ رلیاں مناتے، عیش و نوش کے ساتھ زندگی بسر کرتے اور مسلمانوں سے کہتے کہ پکا اور سچا مسلمان وہ ہے، جو غربت و تنگدستی کی زندگی گزارتا ہے، پھٹے پرانے کپڑے اور جوتے پہنتا ہے اور نمک سے روٹی کھاتا ہے۔ مسلمانوں میں یہ شعور ہی ختم ہوگیا کہ بادشاہوں کا اسلام تو امیر کبیر ہے اور رعایا کا اسلام بھوکا ننگا کیوں ہے۔؟ عقل و شعور کی یہ موت آج بھی جہانِ اسلام میں دکھائی دے رہی ہے۔

اسلامی ممالک میں حاکم طبقے اور اشرافیہ کے ٹھاٹ باٹ اور عام مسلمان کے شب و روز کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ لوگ نماز و روزے اور حج و زکواۃ میں مشغول ہیں، لیکن انہیں ایک اسلامی ریاست میں بطورِ مسلمان اپنے سیاسی و اقتصادی حقوق کا کچھ شعور نہیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں بادشاہت کا طِلسم ٹوٹ چکا تھا۔ لوگ جن بادشاہوں اور حکومتوں کو اسلامی سمجھتے تھے، وہ سب تاراج ہوچکی تھیں۔ بیرونی استعمار نے ہلّہ بول کر مقامی استعمار کے وہ تاج اچھال دیئے تھے اور وہ سلطنتیں ختم ہوگئی تھیں۔ ٹیپو سلطان کی مانند جن حکمرانوں میں کچھ انسانیت و شرافت باقی تھی، وہ بھی استعمار کے طوفانی ریلے کے سامنے ٹھہر نہ سکے۔

اب وقت تھا کہ برِّصغیر کے مسلمانوں کو اُن کی خودی کی طرف دعوت دے کر انہیں سیاسی شعور دیا جائے اور اُن کی فطرت کی آواز “ آزادی” کو زندہ کیا جائے۔ بادشاہوں کے طِلسم سے آزاد ہونے والے ان مسلمانوں کو جلد ہی برطانوی استعمار کے خلاف اپنی خودی اور شناخت کا احساس ہوگیا۔ یہی احساس آگے چل کر قیامِ پاکستان کا باعث بنا۔ تاہم یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جیسے ریاستِ مدینہ کے قیام کے وقت مسلمانوں میں شعور کی لہر اتنی پختہ نہیں ہوئی تھی کہ وہ نبی اکرم ؐکے بعد اپنی آزادی کی حفاظت کرتے اور بادشاہوں و اشرافیہ کے غُلام نہ بنتے، ویسے ہی قیامِ پاکستان کے وقت بھی مسلمانوں میں سیاسی شعور کی سطح اتنی بلند نہیں تھی کہ پاکستانی مسلمان اپنی خودی اور استقلال کی حفاظت کرسکتے۔ چنانچہ جس طرح چودہ سو سال پہلے ریاستِ مدینہ ایک ملوکیت میں بدل گئی تھی، ویسے ہی آج سے پچہتر سال پہلے قیامِ پاکستان کے بعد اس ریاست پر بھی اشرافیہ کا قبضہ ہوگیا۔

ریاستِ پاکستان پر اشرافیہ، نوابوں، بیوروکریٹوں، جرنیلوں اور وڈیروں کے خلاف بیداری اور شعور کی کئی تحریکیں چلتی رہیں۔ ایسے کئی دانشور اور رہنماء منظرِ عام پر آئے، جنہوں نے پاکستان کو عالمی اور مقامی استعمار سے آزادی دلانے کیلئے آواز اٹھائی اور شہید ہوئے۔ پاکستان میں عوام کی آزادی اور حرّیت کیلئے اٹھنے والی اِن موثر آوازوں میں سے ایک بڑی اور جاندار آواز علامہ عارف حسین الحسینی ؒکی تھی۔ آپ کی کچھ تقاریر سننے اور مکتوب صورت میں پڑھنے سے مجھ پر یہ واضح ہوا ہے کہ آپ کی جدوجہد کے دو پہلو تھے۔ ایک پہلو ہمہ جانبہ آزادی کے شعور پر مبنی تھا۔ یعنی سیاسی، اقتصادی، اجتماعی، ثقافتی، تعلیمی، فکری، نظریاتی، عسکری۔۔۔ ہر لحاظ سے مسلمانوں کو مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہونا چاہیئے۔ اسی طرح آپ کی جدوجہد کا دوسرا پہلو پرچم توحید و علمِ ختمِ نبوّت کے نیچے سارے مسلمانوں کو اپنی آزادی کیلئے متحد کرنا تھا۔

آپ مسلمانوں کے درمیان ہمہ جانبہ آزادی کے شعور کے فروغ کیلئے کسی قسم کی فرقہ وارانہ تقسیم یا جغرافیائی حدود کے قائل نہیں تھے۔ آپ کے پروگرامز، کانفرنسز، اجلاسوں، سیمینارز اور جلسے جلوسوں و پریس کانفرنسز میں دنیا کے ہر ملک کے مسلمانوں کیلئے ہمہ جانبہ آزادی کا پیغام ہوتا تھا۔ آپ نہ صرف یہ ہمہ جانبہ آزادی کا پیغام دیتے تھے بلکہ آپ اس پیغام پر ساری اُمّتِ مسلمہ کو متحد کرنے کیلئے داعی اتحاد و وحدت بن کر بھی ابھرے۔ آپ کی یہ ہمہ جانبہ آزادی کی آواز انسانی فطرت کی آواز تھی، چنانچہ یہ بلاتفریقِ مذہب و مسلک لوگوں کے دلوں میں اترتی گئی۔ مسلمانوں کو اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہونا چاہیئے، مسلمان حکمرانوں کو اسلامی ریاستوں کے معدنی ذخائر اور قدرتی وسائل کو استعمار کے ہاتھوں فروخت نہیں کرنا چاہیئے، اسلامی دنیا کو اپنی داخلہ و خارجہ پالیسیاں خود بنانی چاہیئے، اسلامی ریاستوں سے استعماری افواج کا انخلا ہونا چاہیئے۔

فلسطین، افغانستان اور کشمیر پر ساری امّتِ مسلمہ کا ایک موقف اور ایک آواز ہونی چاہیئے، مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے فرقہ وارانہ، علاقائی اور لسانی تعصبات کو فروغ دینے والے استعمار کے ایجنٹ ہیں، اسلام آزادی و خود مختاری کا دین ہے، لہذا پاکستان کے حکمرانوں کو استعمار کے مقابلے میں استقلال اور آزادی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ علامہ عارف حسینی کے روح پرور نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان بھی اور بحیثیتِ پاکستانی بھی ایک آزاد قوم ہیں، ہمارے حکمرانوں کو بھی آزادانہ سوچنا اور عمل کرنا چاہیئے اور دیگر اقوام کو بھی ہم سے آزاد اقوام کی طرح برتاو کرنا چاہیئے۔ واضح کرتا چلوں کہ آزادی کی آواز چونکہ انسانی فطرت کی آواز ہے، لہذا ہر دور، ہر زمانے اور ہر ملک میں مقبول ہوئی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جس رہبر و رہنماء نے بھی یہ آواز بلند کی ہے، وہ لیڈر اور رہنماء بھی عوام ُالناس کے درمیان مقبول ہوا ہے۔

گذشتہ دنوں مجلس وحدتِ مسلمین کے رہنماء علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے فطرت کی آواز کے بارے میں جو کہا، وہ نذرِ قارئین ہے: “ہم آزاد ہیں، یہ انسانی فطرت کی آواز ہے، لہذا فطرت کی آواز کو ہر انسان سنتا بھی ہے اور پسند بھی کرتا ہے۔ لوگوں کو اسے سننے سے روکا نہیں جا سکتا، آپ لوگوں کے کانوں میں روئی ڈال کر بند کرسکتے ہیں، لیکن فطرت اِن کانوں کی محتاج نہیں ہے۔” قارئینِ محترم ممکن ہے کہ بہت سارے لوگوں کیلئے “ہم آزاد ہیں” کی آواز نئی ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں نے یہ آواز انہی دنوں میں سُنی ہو، لیکن جو لوگ علامہ عارف حسینی ؒکے راستے کے حقیقی راہی ہیں، وہ اِس آواز سے اچھی طرح مانوس ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ “ہم آزاد ہیں” کی گونج کے پیچھے کئی صدیوں اور کئی سالوں کی جدوجہد پوشیدہ ہے۔ دوسری طرف جو لوگ فطرت کی آواز کے خلاف بولتے ہیں، ایسے لوگوں سے راستہ جدا کرنا ہی آزاد منش انسانوں کا فطری راستہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button