مکتب خمینی (رہ) کے شاگرد قاسم سلیمانی کی شخصیت آفاقی ہوگئی، ڈاکٹر فرید الدین
شیعہ نیوز: جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ولادت باسعادت اور بانی انقلاب اسلامی امام خمینی (رہ) کے روز پیدائش کے موقع پر دہشتگردی کے خلاف جنگ کے فاتح جنرل قاسم سلیمانی کی یاد میں نئی دہلی ایران کلچر ہاؤس میں ’’استقامت کی راہ میں: اولاد فاطمہ (س) سے فرزند خمینی (رہ) تک‘‘ کے عنوان سے عظیم الشان بزم مقاومت کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں علماء کرام نے امام خمینی (رہ) کی مثالی شخصیت اور ان کی رہنمائی میں ایرانی قوم کی جدوجہد کو سلام کرتے ہوئے موجودہ وقت کے ایران کو عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل قرار دیا۔ بزم کا آغاز قاری محمد یاسین نے تلاوت کلام پاک سے کیا اور استقبالیہ کلمات کلچرل کونسلر ڈاکٹر فرید الدین فرید عصر نے ادا کئے۔ بعد ازاں معروف شعرائے کرام نے بارگاہ ممدوحین میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر کثیر تعداد میں مردو خواتین کے ساتھ طلباء موجود تھے۔
کلچرل کونسلر ڈاکٹر فرید الدین فرید عصر نے اپنے خطاب میں کہا کہ امام خمینی (رہ) کے نظریہ استقامت، مقاومت اور مزاحمت کے مکتب کے شاگرد شہید قاسم سلیمانی ہیں جن کی قدر و منزلت کی آج دنیا بھی معترف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران سے لے کر یونان تک دنیا میں جہاں بھی تمدن اور سماجیت کی تاریخ ہے اس میں کہیں بھی جب مدینہ فاضلہ کی تاریخ کی بات ہوتی ہے تو عام طور پر امیر شہر یا اس کے پاسدار اور محافظ پر توجہ زیادہ ہوتی ہے اور اچھا پاسدار شہر وہ ہے کہ جو نہ صرف یہ کہ دشمنوں پر بہت سخت گیر، بیباک اور شجاع ہو بلکہ اس کے اندر حسن تدبیر، رحم دلی پائی جاتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ جب محافظ ملک یا محافظ شہر میں یہ دونوں صفات ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو وہ قاسم سلیمانی بن جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہید سلیمانی بہت زیادہ سادہ مزاج اور سب کے درمیان گھل مل کر رہتے تھے، جس کی وجہ سے تشخیص مشکل ہوتی تھی کہ وہ دنیا کے ایک اہم ملک کی عظیم فوج کے سربراہ ہیں۔ فرید الدین عصر نے کہا کہ شاید اسی خصوصیت کا نتیجہ تھا کہ انہیں تاریخ ساز مقبولیت کے ساتھ عوام کی محبتیں ملیں اور انہیں زیادہ عظمتیں میسر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ جب کبھی اعلان ہو جاتا تھا کہ آج جنرل خود لڑنے کے لئے محاذ پر آنے والے ہیں تو دشمن کے لئے یہ خود بڑی خبر ہوتی تھی اور وہ پیچھے ہٹتا نظر آتا تھا کہ آج فوج کے چیف قیادت کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر فرید نے کہا کہ قاسم سلیمانی کو ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید کیا گیا مگر اس دہشت گردی کا شکار ہونے سے ان کی شخصیت ختم نہیں ہوئی بلکہ آفاقی ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے دہشت گردانہ حملے اکثر نظریے اور شخصیت کو نشانہ بنا کر کئے جاتے ہیں، کسی شخص کو نہیں شخصیت کو مارا جاتا ہے اور یہ زیادہ خطرناک اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔