
طاغوتی مفتیوں کی شرمناک وراثت منافقت، تکفیر اور اسرائیلی بربریت کا جواز
شیعہ نیوز: اسلامی دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ ایسے علما، فقہا اور مجتہدین موجود رہے ہیں جنہوں نے ظلم کے خلاف صدائے حق بلند کی اور طاغوتی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دین کی عزت بچائی۔ لیکن تاریخ کا تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں نے دین کو اقتدار کی لونڈی بنا کر پیش کیا اور طاغوت کے قدموں میں بیٹھ کر فتوے بیچے۔ آج کے دور میں یہ بیماری نئے ناموں، لباسوں اور سیاسی جھنڈوں کے ساتھ سامنے آئی ہے۔
قرآن میں بارہا طاغوت سے بچنے کا حکم آیا ہے، لیکن جو شخص طاغوت کا دینی جواز فراہم کرے، وہ خود طاغوت سے بھی بدتر ہے۔ آج ہمارے سامنے ایسے ہی افراد موجود ہیں جو امریکہ، اسرائیل، اور عربی ظالم حکمرانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے دینی استدلال فراہم کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف دین کی توہین ہے بلکہ اُمت کی مظلومیت کے ساتھ غداری بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : سعودی ائیرلائن نے 10 سال بعد ایران سے فلائٹ آپریشن شروع کردیا
حالیہ دنوں میں عرب حکمرانوں نے ٹرمپ کے استقبال کیلئے جو غیرت سے عاری کام انجام دئیے ہیں اب کچھ پیسہ خور طبقہ اس عمل کا جواز دینے کی کوشش کر رہے ہین۔ اس سے بڑی خیانت اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ شخص جو منبرِ رسول پر بیٹھ کر بات کرتا ہے، اسی منبر کو امریکی صہیونی مقاصد کے لیے استعمال کرے؟ یہ مفتی اسلام کی نہیں، طاغوت کی زبان بول رہے ہیں۔ ان کے پیٹ میں عرب بادشاہوں کی دولت ہے، اور زبان پر اللہ کا نام۔
اس سے بڑی منافقت یہ ہے۔
سپاہ صحابہ کا بدنام زمانہ تکفیری دہشت گرد فاروقی، جس کی ساری زندگی مسلمانوں کے درمیان نفرت اور خونریزی پھیلانے میں گزری، آج اسرائیلی پانی کی بوتل پر اعتراض کر رہا ہے۔ جب اس کے جلسے میں اسرائیلی کمپنی کی بوتل پیش کی جاتی ہے تو وہ برس پڑتا ہے۔
لیکن یہ کیسا مذاق ہے؟
کیا ایک بوتل اسرائیلی سازش ہے لیکن امریکی بم نہیں؟
کیا اسرائیلی کمپنی کی مصنوعات سے پرہیز کرنا جہاد ہے لیکن امریکی بموں سے تباہ ہونے والی غزہ کی گلیاں اس کے ایمان کو نہیں جھنجھوڑتیں؟
یہ وہی لوگ ہیں جو ہر اُس مسلم حکومت کے خلاف برسر پیکار ہوتے ہیں جو امریکہ کی مخالفت کرے، لیکن ان کی زبان پر کبھی اسرائیل یا امریکہ کا نام نہیں آتا۔
غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک المیہ ہے، لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ امت کی فکری قیادت جن ہاتھوں میں ہے وہ یا تو بُزدل ہیں یا خریدے گئے۔ اسرائیل بمباری کر رہا ہے، لیکن بم امریکہ کے ہیں، اور چپ اسرائیل سے زیادہ عرب حکمران اور ان کے درباری مولوی ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی علَمِ حق اٹھائے تو اُسے رافضی، ایرانی ایجنٹ یا دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل دہشت گرد وہ ہیں جو دین کے نام پر دین کو بیچ رہے ہیں۔
آج امت مسلمہ کو حقیقی دشمن کی شناخت کی ضرورت ہے۔ وہ دشمن جو قرآن پڑھتا ہے، اذان دیتا ہے، لیکن اسلام کا سر قلم کرتا ہے۔ ہمیں اس وقت سب سے زیادہ خطرہ "بظاہر اسلامی” چہروں سے ہے جنہوں نے طاغوت کے ساتھ وفاداری کو ایمان کا نام دے دیا ہے۔ امت کی بیداری صرف تب ممکن ہے جب دین کی آواز کو سیاست کے تابع رکھنے والے چہروں کو بےنقاب کیا جائے۔