حیدر (ع) کے غلاموں کا خیبر کے بھگوڑوں کا تعاقب، عسکری نکتہ نگاہ
ترتیب و تدوین: علی واحدی
14 اپریل 2024ء کو آدھی رات کے وقت ایران کے اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملوں کی خبر آئی۔ رات تین بجے سے پہلے ایرانی ڈرون شاہد 136 اور بلیسٹک گائیڈڈ میزائل خیبر صیہونی ریاست کے آسمانوں مین پہنچ گئے اور اسرائیل کے دفاعی نظام آئرن ڈوم نے ان کو روکنے کا کام شروع کر دیا لیکن ان میں سے بہت سے میزائل اس دفاعی نظام کو عبور کرتے ہوئے اپنے اہداف پر جا لگے۔ ان ڈرون اور میزائلوں کی ایک بڑی تعداد کو ایران کے اندر سے فائر کیا گیا تھا لیکن کچھ ڈرون اور میزائل عراق اور یمن سے بھی صیہونی اہداف کے خلاف فائر کئے گئے۔
اصلی ہدف (Prime Objective)
ایران کی جانب سے اسرائیل پر کئے جانے والے حملہ کا اصلی ہدف شام میں ایران کے سفارت خانے پر حملے اور ایرانی اعلی فوجی کمانڈرز کی شہادت کا ایک متوازن جواب دینا تھا۔ ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب نے اپنے بیان میں اسرائیل میں کئی اہداف کو ڈرون اور میزائلوں کے ذریعے ہدف بنانے کا اعلان کیا۔ اپنے دوسرے بیان میں سپاہ پاسداران نے امریکہ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایرانی مفادات کے خلاف کسی بھی کاروائی میں شرکت کرنےسے باز رہے اور جس بھی ملک سے ایرانی سرزمین اور ایرانی مفادات پر حملہ کیا گیا تو اس کا اسی حساب سے مناسب جواب دیا جائے گا۔ ایرانی کی جوابی کاروائی اقوام متحدہ کے منشور کی 51 شق میں ذکر کردہ جائز دفاع کے مطابق تھی۔ ایران کے وزیرخارجہ نے ہفتہ کے دن آپریشن سچا وعدہ کے اہداف کے بارے میں کہا کہ ہماری مسلح افوج نے کسی بھی صیہونی اقتصادی اور عوامی جگہ کو نشانہ نہیں بنایا۔ انہوں نے تہران میں غیرملکی سفراء سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کسی بھی حملے کی صورت میں اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور وہ کسی بھی قسم کے حملے کا جواب دینے پر کوئی ہجکچاہٹ اب محسوس نہیں کرے گا۔
آپریشنل اہداف (Oprational Targets)
ایرانی حملے کا سب سے اہم ہدف مقبوضہ جنوبی فلسطین میں نقب کے علاقے میں موجود صیہونی فوج کے ہوائی اڈہ تھا۔ نواتیم کا ہوائی اڈہ صیہونی ریاست کا ایک اہم ہوائی اڈہ شمار ہوتا ہے جس کو سپاہ پاسداران کے ڈرون اور میزائل حملے میں ہدف بنایا گیا۔ اسرائیلی ٹی وی 12 نے اس ہوائی اڈے پر 7 میزائلوں کے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی تصدیق کی۔ یہ ہوائی اڈہ جنوبی مقبوضہ فلسطین، بئیر السبع اور آراد کے علاقے کے درمیان واقع ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے بیان کے مطابق اس اڈے کو اس لئے نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ اسی اڈے سے شام میں موجود ایرانی سفارت خانے پر حملے کےلئے اسرائیلی جنگوں جہاز بلند ہوئے تھے۔
آپریشن سچا وعدہ کی جزئیات اور تفصیلات (Oprational Details)
اسرائیل کے خلاف کیا جانے والا سچا وعدہ نامی آپریشن ایرانی کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل، ایرانی افواج کے جی ایچ کیو اور ایرانی کی وزارت دفاع کی منظوری کے بعد کیا گیا اور سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل حسین سلامی نے اس حملے کے شروع کرنے کا آرڈر دیا جس میں اسرائیلی دعوؤں کے مطابق 185 شاہد 136 اور 238 ڈرون طیارے، 36 کروز میزائل اور 110 زمین سے زمین پر مار کرنے والے خیبر اور پاوہ نامی بلیسٹک میزائل استعمال کئے گئے۔ اسرائیلی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق صیہونی ریاست کو ایران کی جانب سے اتنی بڑی سطح کی کاوائی کی توقع نہیں تھی۔ ایران نے اسرائیل کو لگام دینے والے آپریشنل میں شیراز، اصفحان، ہمدان، کرمانشاہ، ایلام، تبریز، قم اور تہران سے گائیڈڈ میزائل فائر کئے اور صیہونی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان ڈرون طیاروں اور گائیڈد میزائلوں کو اینٹرسپٹ کرنے کےلئے صیہونی ریاست کو ڈیڑھ بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ایران کےڈرون اور میزائل حملوں میں صیہونی ریاست کے کئی اہم اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ سپاہ پاسداران انقلاب کے بیان کے مطابق ان میزائلوں میں سے 50 فیصد سے زیادہ میزائل صیہونی فضائی دفاعی نظام کو عبور کرتے ہوئے اپنے اہداف کو جا لگے جن میں نقب صحرا میں موجود وہ ہوائی اڈہ بھی شامل ہے جہاں سے شام میں موجود ایران کے سفارت خانہ پر حملہ کےلئے طیاروں نے اڑان بھری تھی۔
آپریشن پر سامنے آنے والا ردعمل (International Response)
اسرائیل کو لگام ڈالنے کے لئے سچا وعدہ آپریشن کے فورا بعد ہی علاقائی اور بین الاقوامی طور پر ردعمل آنا شروع ہوگیا۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے اسرائیل کی درخواست پر اجلاس بلا لیا جب کہ جی 7 گروہ کے موجودہ سربراہ اٹلی نے ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کئے جانے آپریشن پر بحث اور تبادلہ خیال کرنے کےلئے ویڈیو کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ یورپی یونین کی خارجہ سیاست کے سربراہ نے اعلان کیا کہ وہ علاقے میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال اور کشیدگی کم کرنے کےلئے منگل کے دن فوری اجلاس منعقد کریں گے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اسرائیل پر ایران کے حملے کی تھوڑی دیر بعد صیہونی وزیراعظم نیتن یاھو کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھے گا لیکن وہ ایران کے خلاف کسی بھی کاروائی کا حصہ نہیں بنے گا جب کہ اسرائیل کے اہم اتحادی ممالک فرانس، برطانیہ، جرمنی اور ہالینڈ نے اس حملے کی مذمت میں بیانات دئیے جس کے جواب میں ایران نے ان ممالک کے سفیروں کو وزارت خارجہ میں طلب کر لیا۔جب کہ چین نے ایران کے ڈرون اور میزائل حملوں کو غزہ جنگ کا نتیجہ قرار دیا۔ روس نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب حالات کا دارومدار اسرائیل اور ایران کے اگلے اقدامات پر ہے جب کہ عرب ممالک نے دونوں ممالک سے علاقائی امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی۔ ترکی کے وزیر خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ علاقے میں مزید کسی کشیدگی کا حامی نہیں ہے جب کہ الجزائر اور مڈغاسکر نے ایران کے اقدام کی حمایت کی۔ افغانستان کے طالبان نے بھی ایران کے اقدام کو جائز دفاعی اقدام قرار دیا۔
اثرات ( Impect)
میڈیا اور دفاعی امور کے ماہرین نے اس آپریشن کو خطے میں بیلنس قائم ہونے کی نیا پیمانہ قرار دیا ہے, کیونکہ اب دونوں ممالک ایک دوسرے کی ریڈ لائنز عبور کرچکے ہیں اور پراکسی جنگ کی بجائے کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آ گئے ہیں۔ ایران نے اپنے ڈرون اور میزائل حملے سے نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں اپنے ایک ڈرون اور میزائل طاقت کے ہونے کا واضح پیغام دیا ہے اور وہ اپنے خلاف ہونے والے کسی بھی اقدام کاجواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب کہ الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ایران نے اسرائیل کے خلاف ہائبرڈ حملہ کرکے اس کی تمام تر ریڈلائنز روند ڈالی ہیں۔
ڈیٹرنس اور دھاک بٹھانا (Detrence)
ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب کی اسرائیل مخالف سات گھنٹے پر طویل کاروائی سے مشرق وسطی میں طاقت کا ایک نیا اور عجیب توازن پیدا ہوگیا ہے۔ سپاہ پاسداران کی کاروائی اسرائیل کے حملے کے جواب میں طاقت کا اظہار اور اس کے توازن کو برقرار رکھنے کا اعلان تھا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ تل ابیب کا اس حملے پر ردعمل کیا اور کس سطح کا ہوگا اور کیا اس سے علاقے میں کشیدگی کیا رخ اختیارکرے گی۔
نئی ریڈ لائنز (New Red Line)
تہران یونیورسٹی کے استاد ابراہیم متقی کے مطابق جب اسرائیل نے شام میں ایران کے سفارت خانے پر حملہ کیا تو معلوم تھا کہ اس حملے کا جواب دیا جائے گا، ایران کا اقدام حملہ کی بجائے دفاعی نوعیت کا تھا جو ڈیٹرنس کو باقی رکھنے کی غرض سے تھا۔ ایران نے یہ حملہ اسرائیل کی جانب سے اپنے فوجی مراکز، تنصیبات اور اسٹریٹیجک اہداف پر حملوں کو روکنے کےلئے کیا ہے اور اس طرح سے ایران نے ڈیٹرنس قائم رکھنے کا ایک نیا خط اور لائن کھینچ دی ہے۔ اس حملے سے ایران کی حملہ کرنے کی صلاحیت کا اعلان تو ہوا ہی ہے لیکن ساتھ میں اس بات کا بھی سب کو پتہ چل گیا ہے کہ اب اگر اسرائیل نے کوئی قدم اٹھایا تو تہران اس کا اسی انداز میں جواب دے گا اور اسرائیل ایران کے خلاف کاوائی تو کرے گا لیکن کس سطح کی کاروائی ہوگی، یہ بات امریکہ کی حمایت پر منحصر ہے جب کہ ظاہرا امریکی کشیدگی بڑھانے پر کوئی زیادہ آمادہ نظر نہیں آ رہے۔ تہران یونیورسٹی کے استاد نے مزید کہا کہ نیوٹن کی تیسرے قانون پر اب عمل درآمد شروع ہو گیا جس کے مطابق ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اسرائیلیوں کی تلمودی تعلمیات کے مطابق ایران میں بعض تنصیبات اورجگہوں پر حملے کئے جائیں گے۔ عبری میڈیا کی زبان سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی کاروائی محدود سطح کی ہوگی جس کا مقصد اور ہدف ایران کی طاقت کو محدود کرنا اور اسے دھمکی دینا ہوگا۔
کم شدت اسرائیلی حملے کا احتمال (Possible Retaliation)
آج سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سپاہ پاسداران کے حملے کے بعد اسرائیل کا ردعمل کیا ہوگا، کیا اسرائیل اس کا جواب دے گا یا نہیں، ظاہرا تو امریکہ نے اسرائیل کو کسی ردعمل کے دکھانے سے منع کیا ہے لیکن نیتن یاہو اور اس کی کابینہ کی ذہنیت اور ان کےغزہ میں انجام دئیے جانے والے جرائم اور اقدامات سے کچھ بعید بھی نہیں ہے۔ امریکہ خود اپنے فائدے کی خاطر ایران اسرائیل کشیدگی کو فل سکیل جنگ میں بدلنے کا حامی نظر نہیں آ رہا، اسرائیل امریکہ اور باقی اتحادی ممالک کو نظراندازبھی نہیں کر سکتا۔ امریکہ اور یورپی ممالک اسرائیل کو کسی بڑی ایران مخالف کاروائی سے روک رہے ہیں جب کہ نیتن یاھو اور اس کی شدت پسند کابینہ کسی بڑی کاروائی کی حامی ہے، شاید اس تناظر میں کسی محدود کاروائی کا فیصلہ کیا جائے۔
بال اب اسرائیلی کورٹ میں ہے (Limiting Israel)
ایرانی نیشنل سیکورٹی کونسل کے سابقہ سربراہ حشمت اللہ فلاحت پیشہ کے مطابق سپاہ پاسداران انقلاب کی جانب سے کی جانے والی اسرائیل مخالف کاروائی کو دونوں ممالک اپنے لئے فتح قرار دے رہے ہیں۔ ایران کے مطابق اس نے پانچ دھائیوں پر مشتمل اسرائیلی سیکورٹی کے بلبلے میں سے ہوا نکال دی ہے اور پچاس سال میں پہلی مرتبہ اسرائیل کے خلاف ایک بڑا آپریشن انجام دیا ہے جب کہ تل ابیب اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ اس نے ایران کی جانب سے بھیجے جانے والے اکثر ڈرون اور میزائلوں کو مار گرایا ہے اور اس طرح سے اس کا حملہ ناکام بنا دیا ہے اور دوسرے دن حملہ ہونے والی جگہوں پر نارمل زندگی کے مناظر دکھا کر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ایک بڑے آپریشن کے باوجود ان علاقوں میں جنگی صورتحال نہیں ہے۔ اگر اسرائیل نے کوئی اقدام کیا تو پھر اس کے بعد سفارتی، سیاسی اور نفسیاتی جنگ سے آگے کے مرحلہ میں داخل ہو جائیں گے۔
فلاح پیشہ نے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایران کے اس اقدام سے طاقت کا توازن پیدا ہو گیا ہے لیکن صیہونی افراطی اور شدت پسند جنگ کے شعلے بھڑکانے کا اس توازن کو بگاڑ سکتے ہیں ، بہرحال آج گیند اسرائیل کے میدان میں ہے اور اس بات کو یہیں پر ختم کر سکتا ہے۔ اسرائیل نے امریکہ ، برطانیہ ،فرانس اور دیگر ممالک کی مدد سے ایران کے حملے کا تو مقابلہ کر لیا لیکن ایران پر کئے جانے والے کسی حملے کی صورت میں اسے ان ممالک کی حمایت حاصل نہیں ہوگی کیونکہ دنیا کے سیاستدانوں کو اس بات کا علم ہو گیا ہے کہ ممکن ہے کہ ان اقدامات کا انجام ایک بڑی جنگ کی صورت میں نکلے۔ ایران کی مسلح افواج کے کمانڈر جنرل محمد باقری نے اپنی ٹی وی پر نشر ہونے والی گفتگو میں سچا وعدہ آپریشن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپریشن کامیابی سے انجام دیا گیا اور سارے اہداف حاصل کر لئے گئے۔یہ آپریشن کی وجہ صیہونی ریاست کی جانب سے ریڈلائن کو عبور کرنا تھا جو ہمارے لئے قابل قبول نہ تھا۔
صیہونی ریاست کے دنیا میں دو تین حامی ممالک کے علاوہ ساری دنیا نے شام میں ایران کے سفارت خانہ پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی جب کہ رہبر معظم انقلاب نے بھی صیہونی ریاست کو تنبیہ کرنے کی تاکید کی تھی۔ ایرانی سفارت خانےپر جبل الشیخ پہاڑی کی بلندی پر موجود اڈے سے اطلاعات جمع کی گئیں جسے نشانہ بنایا گیا، اس کے علاوہ نواتیم ہوائی اڈے کو بھی نشانہ بنایا گیا جہاں سے یہ ایرانی سفارت خانے کے خلاف حملہ کیا گیا تھا اور یہ دونوں جگہیں کافی حد تک تباہ ہو چکی ہیں۔ اگر صیہونی ریاست نے ہماری سرزمین ، شام یا کسی دوسری جگہ پر ہمارےمراکز پر حملہ کیا تو اس سے بھی بڑا آپریشن انجام دیا جائے گا۔ سپاہ پاسداران کے کمانڈر جنرل حسین سلامی نے کہا کہ سچا وعدہ آپریشن میں ہم نے محدود طاقت کا استعمال کیا اور اتنا ہی طاقت استعمال کی جو صیہونی شرارت کے جواب میں مناسب تھی جو اس نے ہمارے سفارت خانے کے خلاف استعمال کی تھی۔ اگر صیہونی ریاست نے کوئی ردعمل دکھایا تو یقینا ہماری کاروائی بہت سخت ہوگی۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اس آپریشن کو میدان اور ڈپلومیسی کا ایک حسین امتزاج اور اسی مسلح افواج کے لئے ایک قابل فخر، متقدر، تاریخی اور فاتحانہ کاروائی قرار دیا۔
ایران کی پارلیمنٹ کے سربراہ محمد باقر قالیباف نے کہا کہ ایرانی عوام کی جانب سے صیہونی دشمن کو ایک زوردار اور یاد رکھنے والا تھپڑ مارا گیا ہے اور اگر صیہونی ریاست اور اس کے اتحادیوں نے کوئی غلطی کی تو ایران کا جواب اس سے بھی شدید ہوگا جب کہ ایران کی پارلیمنٹ کے 206 افراد نے اپنے بیان میں اعلان کیا کہ صیہونی ریاست اور امریکہ کی جانب سے کسی بھی غلطی کا مقتدرانہ جواب دیا جائے گا جب کہ ایران کے مختلف شہروں میں جنونی اسرائیل کے شام میں ایران کے سفارت خانے پر حملے کی جوابی کاروائی کی خوشی میں عوام بہت سے شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے جو مردہ امریکہ، مردہ باد اسرائیل کے نعرے لگا رہے تھے۔