عراق میں سوئیڈن کا سفارتخانہ نذرآتش
شیعہ نیوز:سوئیڈن میں قرآن پاک کی منصوبہ بند توہین کے ردعمل میں متعدد مشتعل عراقی مظاہرین نے بغداد میں سوئیڈن کے سفارت خانے پر حملہ کیا۔ جمعرات کی صبح، سویڈش حکومت کے خلاف عوامی غصے کے تسلسل میں، عراق میں مظاہرین نے بغداد میں سوئیڈن کے سفارت خانے کو آگ لگا دی اور اس کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کر دیا۔ سفارتی مقامات پر حملہ کرنا غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے، کیونکہ سفارتی مقامات اس ملک کا علاقہ شمار ہوتے ہیں، جو ان مقامات کا مالک ہوتا ہے۔ میزبان ملک بھی اس کے تحفظ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے عراق کی وزارت خارجہ نے سوئیڈن کے سفارت خانے پر حملہ کرنے والے مظاہرین کے اقدام کی مذمت کی۔
تاہم بغداد میں سوئیڈن کے سفارت خانے پر حملہ سوئیڈن میں قرآن پاک کی بار بار توہین کے باعث ہوا۔ عراق میں سوئیڈن کے سفارت خانے پر حملہ مقدسات بالخصوص قرآن پاک کو جلانے کا لائسنس جاری کرنے پر اس ملک کے خلاف عوامی غصے کے تناظر میں ہوا ہے۔ 28 جون کو سلوان مومیکا نامی ایک سویڈش انتہاء پسند نے سویڈش پولیس کی اجازت سے تقریباً 200 افراد کے سامنے قرآن پاک کے اوراق پھاڑنے اور جلانے کا قبیح فعل انجام دیا۔ اس سے قبل سوئیڈن کی پولیس نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے عید الاضحیٰ کے دنوں میں اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے سامنے قرآن پاک کے نسخے کو نذر آتش کرنے والے لوگوں کے مظاہرے کی اجازت دے دی ہے۔ اس کارروائی کے بعد، جو کہ مقدس کتاب اور مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی توہین کی وجہ سے بین الاقوامی قوانین کے خلاف تھا، سوئیڈن کی حکومت نے یہاں تک کہا کہ یہ اجازت اس ملک میں موجود آزادی کے عین مطابق دی گئی ہے۔
اس دعوے کے بعد عراق میں مرجع اعلیٰ آیت اللہ سید علی سیستانی نے قرآن پاک کی بے حرمتی اور سویڈش حکومت کی اجازت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے نام ایک پیغام میں کہا، اظہار رائے کی آزادی کے احترام کے نام پر اس شرمناک رویئے کی توجیہ نہیں کی جاسکتی، جس میں دو ارب سے زائد مسلمانوں کے مقدسات کی توہین ہو۔ جمعرات کی صبح بغداد میں سوئیڈن کے سفارت خانے کے سامنے جو کچھ ہوا، وہ نہ صرف انتہاء پسند سویڈش شہری کے اس گھناؤنے فعل کا نتیجہ تھا بلکہ سویڈش حکومت کی طرف سے قرآن پاک کی توہین کے حوالے سے حمایتی رویہ اور اس اقدام کی سرکاری اجازت دینا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور سمیت تمام ادوار میں مذہب ممالک کی شناخت کا سب سے اہم ذریعہ ہے اور کسی بھی مذہب کے پیروکار اپنے مقدسات اور مقدس کتابوں کی توہین برداشت نہیں کرتے۔ یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ بین الاقوامی قانون کی اہم دستاویزات میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا احترام حکومتوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ بلاشبہ مقدس کتابوں کی توہین اور سفارت خانوں پر حملے جیسے اقدامات ممالک کے درمیان تعلقات کو متاثر کرتے ہیں، کیونکہ ہر ملک دوسرے پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکامی کا الزام لگاتا ہے۔ لیکن سوئیڈن میں قرآن پاک کی توہین میں جو کچھ کیا گیا، وہ عدلیہ کے تعاون سے کیا گیا۔ سوئیڈن کی پولیس نے شروع میں واقعے کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا، لیکن عدالت نے آزادی اظہار بیان اور جمہوریت کے نام پر اجازت صادر کی اور پولیس کو گستاخ شخص کے لئے سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا۔
اس موقع پر پولیس نے دو رخی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے سے ملک کی خارجہ پالیسی پر اثرات مرتب ہوں گے، لیکن آگ لگانے سے پیش آنے والے امنیتی مسائل اتنے بڑے نہیں کہ اجازت نامہ منسوخ کیا جائے۔ سوئیڈن کے وزیراعظم اولف کریسٹوسون نے اس حوالے سے کہا کہ احتجاج اور اعتراضات کے حوالے سے پولیس کے پاس سارے اختیارات ہیں۔ انہوں نے سارا معاملہ پولیس پر چھوڑ کر اس واقعے سے اپنا دامن چھڑانے کی کوشش اور گستاخ کی کھل کر حمایت بھی نہیں کی۔انہوں نے واقعے کو قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہر قانونی کام کرنا مناسب بھی نہیں ہے۔ معاشرے کی امنیت کا تحفظ ضروری ہے۔ یاد رہے کہ سوئیڈن میں بڑی تعداد میں مسلمان رہتے ہیں۔ ایک کروڑ آبادی میں سے چھے لاکھ سے زائد مسلمان ہیں۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کمیونزم کی شکست اور سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد مغرب کی اسلام دشمنی میں اچانک کئی سو فی صد اضافہ ہوگیا۔ نائن الیون نے اس سلسلے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ نائن الیون کے بعد امریکا کے صدر جارج بش نے امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے نائن الیون کے جواب میں ’’کروسیڈ‘‘ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ کروسیڈ کی اصطلاح صلیبی جنگوں کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ چنانچہ اس کا مفہوم یہ تھا کہ مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نئی صلیبی جنگ چھیڑ دی ہے۔ جارج بش کے بعد اٹلی کے اس وقت کے وزیراعظم سلویو برلسکونی نے اخباری نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عیسائی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے، اس طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔
اٹلی کے وزیراعظم کے بیان کے بعد امریکا کے اس وقت کے اٹارنی جنرل ایش کرافٹ نے حد ہی کر دی۔ انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے، اس لیے کہ عیسائیت کے خدا نے انسانیت کی نجات کے لیے اپنے بیٹے عیسٰیؑ کی قربانی دے دی۔ اس کے برعکس اسلام کا خدا اپنی برتری کے اظہار کے لیے مسلمانوں سے شہادت کی صورت میں جان کی قربانی طلب کرتا ہے۔ مغرب کے رہنماء جب یہ بیانات دے رہے تھے تو ان کی سرکاری پوزیشن یہ تھی کہ وہ گویا دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے نکلے ہیں، مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ اسلام، پیغمبر اسلام اور خود مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے نکلے تھے۔
امریکی اور یورپی رہنماء مسلمانوں کے عقائد اور جذبات کو مجروح کرنے کے بعد خاموشی اختیار کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں یہودی اور عیسائی مقدس کتابوں کو جلانے کا آج تک کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، یعنی اس حوالے سے یورپی ممالک دوغلی پالیسی کا شکار ہیں۔ جب اسلامی مقدسات کی توہین کی بات آئے تو آزادی اظہار بیان اور انسانی حقوق کے نام پر اس کی حمایت کی جاتی ہے، لیکن دوسرے ادیان اور مذاہب کی مقدسات کی توہین کرنا ان ممالک کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں اور ان کے ماننے والوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عراق کے وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی کے دفتر کے ایک عہدیدار نے آج روس الیوم نیوز چینل کے ساتھ بات چیت میں تاکید کی ہے کہ اگر سوئیڈن میں قرآن کریم کی توہین کا اعادہ کیا گیا تو ہم اسٹاک ہوم کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کر دیں گے۔