تفتان بارڈر پر سیکورٹی عملے کے روپ میں موجود تکفیری ٹیم کو فوری برطرف کر کے انکوائری کی جائے
شیعہ نیوز:رپورٹ شفیق اکبر قریشی تفتان بارڈر پر سیکورٹی عملے کے نام پرایک تکفیری ٹیم تعینات ہے۔ یہ ٹیم سیکورٹی کے بجائے مذہبی تبلیغی سرگرمیوں کی تنخواہ لیتی ہے۔ طالب علموں کو ایک فارم پُر کرنے کیلئے کہا جاتا ہے۔اب جو آدمی فارم پُر کراتا ہے اُس کی اصلی ڈیوٹی فارم پُر کرانا نہیں بلکہ لوگوں کے عقائد کی اصلاح کرنا ہے۔ وہ فارم پر ایک نگاہ ڈالنے کے بعد کچھ اصلاح وغیرہ نہیں کرتا بلکہ دوبارہ فارم پُر کرنے کا حکم دے دیتا ہے، جب چند مرتبہ یہ سانحہ تکرار ہوتا ہے تو فارم پُر کرانے پر مامور شخص اپنے سامنے والی کُرسی پر بیٹھے ہوئے” صوفی صاحب” کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ یہ صوفی صاحب اگر چاہیں تو آپ کو سارا دن یہیں دھوپ میں کھڑا رکھ سکتے ہیں۔
اب صوفی صاحب اپنی داعشی طرز کی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے میری طرف بھیج دو۔ اس کے بعد وہ پوچھتے ہیں کہ ایمان کے اصول بتاو؟ انگریزی کے حرف ایم سے کون سا کلمہ بنتا ہے؟ امام علی ؑ کے کتنے بیٹے ہیں؟ ایران میں کیا رکھا ہے وہاں کس لئے جاتے ہو؟ اگر کوئی کہے کہ میں بیمار ہوں اور زیارت کیلئے جا رہا ہوں تو اُسے کہتے ہیں کہ میں تمہارا علاج کراتا ہوں ، یہ زیارت وغیرہ چھوڑو
اگر کسی کے ساتھ اُس کے والدین یا عزیز رشتے دار بھی آ رہے ہوں تو فارم پُر کرانے والے شخص کو یہ اعتراض لاحق ہوجاتا ہے کہ یہ ایران میں آپ کے گھر قیام کیوں کریں گے؟ انہیں وہاں ہوٹل پر ٹھہرنا چاہیے۔
عینی شاہدین کے مطابق صوفی صاحب نے ۸ اگست ۲۰۲۳ کو اپنی تبلیغی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ان لوگوں کا کام کرنا نہ ہی تو حرام ہے اور نہ ہی مکروہ بلکہ یہ کتے اور خنزیر کی طرح ایک نجس فعل ہے۔۔۔ لوگوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ اتنا اہم نہیں چونکہ بالاخر ملک تو محفوظ ہاتھوں میں ہے۔۔۔
ملک کو مزید محفوظ رکھنے کیلئے تفتان بارڈر پر یہ پابندی بھی ہے کہ آپ تصویر نہیں بنا سکتے۔ چونکہ اگر آپ تصاویر بنائیں گے تو یہ تبلیغی نکتہ نظر سے سُنّت کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے جہاں تبلیغی احکام کی خلاف ورزی ہوگی وہیں لوگ سیکورٹی عملے کے تبلیغی حضرات کا اصلی چہرہ بھی سوشل میڈیا پر دکھا دیں گے۔ہمارے لئے اعلی حکام اور ادنی حکام سب برابر ہیں۔