جنگ یوکرین میں ایک بار پھر شدت
روسی وزارت دفاع کے ترجمان ایگور کناشنکوف نے بتایا ہے کہ پچھلے چند روز کے دوران جنگ یوکرین کے مختلف محاذوں پر کئی حملوں کو ناکام بنایا گیا ہے اور کم سے کم سات سو یوکرینی فوجی، یوکرینی انتہا پسند اور ان کے غیر ملکی ساتھی مارے گئے ہیں جن میں چالیس امریکی اور برطانوی فوجی بھی شامل ہیں۔
ایگور کناشنکوف کا کہنا ہے کہ جمہوریہ دونیسک میں ایک اسلحہ گودام کو بھی تباہ کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں وہاں موجود ساڑھے تین سو زائد امریکی ہمارس اور سمرچ میزائل تباہ ہوگئے۔
روسی وزارت کے دفاع کے ترجمان کے مطابق اس دوران ہونے والے لڑائی میں کم سے کم ستر یوکرینی ڈرون طیارے بھی مار گرائے گئے ہیں۔
روسی وزارت دفاع کے ترجمان ایگورکناشنکوف نے مزید کہا کہ یوکرینی فوج نے جمہوریہ لوگانسک میں کوبیانسک سیکٹر پر ہمارے مورچوں کو ہٹانے کی کوشش کی جسے پوری طرح ناکام بنادیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ دونیسک کی جانب پیشقدمی کرنے والے یوکرینی دستے کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کے کم سے کم ستر فوجی اس جنگ میں مارے گئے۔
روسی وزارت دفاع کے ترجمان کے مطابق نیکولاف – گریفوی روگ سیکٹر پر بھی دشمن کی پیشقدمی کو روک دیا گیا ہے جبکہ خرسون پر یوکرینی فوج نے دوبار حملے کی ناکام کوشش کی ہے تاہم اسے اپنے پچاس فوجیوں کی جانیں گنواتے ہوئے علاقے سے پسپا ہونا پڑا ہے۔
دوسری جانب خرسون کے محکمہ ایمرجنسی نے بتایا ہے کہ یوکرینی فوج نے امریکہ کے فراہم کردہ ہمارس میزائلوں سے شہرکو نشانہ بنایا ہے تاہم روسی فوج نے چار میزائلوں کو فضا میں نشانہ بنا کر تباہ کردیا جبکہ دو میزائل ایک بس اڈے پر گرے ہیں۔
یوکرین کی جنگ اپنے وسیع سیاسی ، فوجی، اقتصادی، سماجی اور حتی ثقافتی اثرات کے ساتھ نویں مہینے میں داخل ہوگئی ہے اور مغربی ملکوں کی جانب سے اسلحے کی ترسیل کی وجہ سے طول پکڑتی جارہی ہے۔
مغربی ممالک اور خاص طور سے امریکہ نے نہ صرف یہ کہ جنگ یوکرین کے خاتمے کے لیے عملی قدم نہیں اٹھایا بلکہ روس کے خلاف دباؤ بڑھانے کے لیے پابندیوں میں اضافہ اور یوکرین کو ہرقسم کے ہلکے اور بھاری ہتھیار فراہم کرکے اس جنگ کو مزیدطول دے رہے ہیں۔
روس بارہا اعلان کرچکا ہے کہ مغربی ملکوں کی جانب سے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی سےتنازعہ طول پکڑے گا اور اس کے غیر متوقع نتائج برآمد ہوں گے۔