سپہ سالار مزاحمت شہید القدس کمانڈر یحییٰ سنوار کی وصیت
شیعہ نیوز: میں یحییٰ سنوار ہوں، اس مہاجر کا بیٹا جس نے جلاوطنی کو عارضی وطن میں بدل دیا اور خواب کو ابدی جنگ میں بدل دیا۔
جب میں یہ الفاظ لکھتا ہوں تو مجھے اپنی زندگی میں گزرا ہر لمحہ یاد آتا ہے: میرے بچپن سے لے کر گلیوں میں، قید کے طویل سالوں تک، اس سرزمین پر بہائے گئے خون کے ہر قطرے تک۔
میں 1962 میں خان یونس کیمپ میں پیدا ہوا، اس وقت جب فلسطین ایک ٹوٹی پھوٹی یاد تھی اور سیاستدانوں کی میزوں پر بھولے بھالے نقشے تھے۔
میں وہ آدمی ہوں جس نے اپنی زندگی کو آگ اور راکھ کے درمیان بُن دیا، اور جلد ہی یہ سمجھ لیا کہ قبضے میں زندگی کا مطلب مستقل قید کے سوا کچھ نہیں۔
میں بچپن ہی سے جانتا تھا کہ اس سرزمین پر زندگی عام نہیں ہے اور جو بھی یہاں پیدا ہوتا ہے اسے اپنے دل میں ایک اٹوٹ ہتھیار رکھنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ آزادی کا راستہ طویل ہے۔
تم سے میری وصیت یہاں سے شروع ہوتی ہے، اس بچے سے جس نے قبضہ کرنے والے پر پہلا پتھر پھینکا تھا، اور جس نے یہ سیکھا تھا کہ پتھر وہ پہلا لفظ ہیں جو ہم دنیا کے سامنے بولتے ہیں جو ہمارے زخم کے سامنے خاموشی سے کھڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : تازہ کارروائیوں میں 70 اسرائیلی فوجی ہلاک، 600 زخمی کردیے
میں نے غزہ کی گلیوں میں سیکھا کہ ایک شخص کی زندگی کے سالوں سے نہیں بلکہ اس سے ماپا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کو کیا دیتا ہے۔ اور یہ میری زندگی تھی: جیلیں اور لڑائیاں، درد اور امید۔
میں 1988 میں پہلی بار جیل میں داخل ہوا، اور مجھے عمر قید کی سزا ہوئی، لیکن مجھے ڈرنے کا راستہ معلوم نہیں تھا۔
ان تاریک خلیوں میں، میں نے ہر دیوار میں دور افق کی ایک کھڑکی اور ہر بار میں آزادی کے راستے کو روشن کرتے ہوئے دیکھا۔
جیل میں، میں نے سیکھا کہ صبر صرف ایک خوبی نہیں ہے، بلکہ ایک ہتھیار ہے.. ایک کڑوا ہتھیار ہے، جیسے کوئی قطرہ قطرہ سمندر کو پیتا ہے۔
آپ کو میری نصیحت: جیلوں سے مت ڈرو، کیونکہ یہ ہماری آزادی کے طویل راستے کا حصہ ہیں۔
جیل نے مجھے سکھایا کہ آزادی صرف چوری شدہ حق نہیں ہے، بلکہ درد سے جنم لینے والا اور صبر سے بہتر ہونے والا خیال ہے۔ جب مجھے 2011 میں "وفاء الاحرار” ڈیل میں رہا کیا گیا تو میں نے جیسا تھا نہیں چھوڑا۔ میں مضبوطی سے نکلا اور میرا یقین بڑھ گیا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ صرف ایک گزری ہوئی جدوجہد نہیں ہے، بلکہ ہمارا مقدر ہے جسے ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک اٹھاتے ہیں۔
میری نصیحت یہ ہے کہ آپ بندوق کے ساتھ، اس وقار کے لیے جس پر سمجھوتہ نہ کیا جائے، اور اس خواب کے لیے جو کبھی مرنے والا نہیں، پر عزم رہیں۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم مزاحمت ترک کر دیں، اپنے مقصد کو نہ ختم ہونے والے مذاکرات میں بدل دیں۔
لیکن میں آپ سے کہتا ہوں: جو آپ کا حق ہے اس پر گفت و شنید نہ کریں۔ وہ آپ کے ہتھیاروں سے زیادہ آپ کے استقامت سے ڈرتے ہیں۔ مزاحمت صرف ایک ہتھیار نہیں ہے جسے ہم اٹھاتے ہیں، بلکہ یہ ہماری ہر سانس میں فلسطین سے ہماری محبت ہے، یہ محاصرے اور جارحیت کے باوجود قائم رہنا ہماری مرضی ہے۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ شہیدوں کے خون کے ساتھ وفادار رہیں، ان لوگوں کے ساتھ جو چلے گئے اور ہمیں کانٹوں سے بھرا یہ راستہ چھوڑ گئے۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے اپنے خون سے ہمارے لیے آزادی کی راہ ہموار کی، لہٰذا ان قربانیوں کو سیاست دانوں کے حساب کتاب اور سفارت کاری کے کھیل میں ضائع نہ کریں۔
ہم یہاں اس کام کو مکمل کرنے کے لیے ہیں جو پہلے شروع کیا تھا، اور ہم اس راستے سے نہیں ہٹیں گے چاہے اس کی ہمیں کتنی ہی قیمت ادا کرنی پڑے۔ غزہ استقامت کا دارالخلافہ تھا اور رہے گا، اور فلسطین کا وہ دل جو کبھی دھڑکتا نہیں، چاہے زمین ہمارے لیے تنگ ہی کیوں نہ ہو جائے۔
جب میں نے 2017 میں غزہ میں حماس کی قیادت سنبھالی تو یہ صرف اقتدار کی منتقلی نہیں تھی، بلکہ اس مزاحمت کا تسلسل تھا جو پتھروں سے شروع ہوا اور بندوقوں سے جاری رہا۔ ہر روز، میں نے محاصرے میں اپنے لوگوں کے درد کو محسوس کیا، اور میں جانتا تھا کہ آزادی کی طرف ہم نے جو بھی قدم اٹھایا، اس کی قیمت چکانی پڑی۔ لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں: ہتھیار ڈالنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا، زمین کو ایسے پکڑو جس طرح جڑ مٹی کو پکڑتی ہے، کیونکہ کوئی ہوا اُس قوم کو اکھاڑ نہیں سکتی جنہوں نے جینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
الاقصیٰ کے سیلاب کی جنگ میں، میں کسی گروہ یا تحریک کا رہنما نہیں تھا، بلکہ ہر اس فلسطینی کی آواز تھا جو آزادی کا خواب دیکھتا ہے۔ میں اپنے اس یقین کی قیادت میں تھا کہ مزاحمت صرف ایک انتخاب نہیں بلکہ ایک فرض ہے۔ میں چاہتا تھا کہ یہ معرکہ فلسطین کی جدوجہد کی کتاب کا ایک نیا صفحہ بن جائے، جہاں دھڑے متحد ہو جائیں اور سب ایک ایسے دشمن کے خلاف ایک خندق میں کھڑے ہوں جس نے کبھی کسی بچے اور بوڑھے یا پتھر اور درخت کے درمیان فرق نہیں کیا تھا۔ .
اقصیٰ کا سیلاب جسموں سے پہلے روحوں کی جنگ تھی اور ہتھیاروں سے پہلے ارادے کی جنگ تھی۔ میں نے جو کچھ چھوڑا وہ ذاتی میراث نہیں بلکہ اجتماعی میراث ہے، ہر اس فلسطینی کے لیے جس نے آزادی کا خواب دیکھا، ہر اس ماں کے لیے جس نے اپنے بیٹے کو شہید کے طور پر اپنے کندھے پر اٹھایا، ہر اس باپ کے لیے جو اپنی بیٹی کے لیے بلک بلک کر رویا جس پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک غدار گولی.
میری آخری وصیت اور وصیت یہ ہے کہ آپ ہمیشہ یاد رکھیں کہ مزاحمت رائیگاں نہیں جاتی، اور یہ صرف گولی نہیں چلائی جاتی، بلکہ ایک ایسی زندگی ہوتی ہے جو ہم عزت اور وقار کے ساتھ جیتے ہیں۔ جیل اور محاصرے نے مجھے سکھایا کہ جنگ طویل ہے، اور راستہ مشکل ہے، لیکن میں نے یہ بھی سیکھا کہ جو لوگ ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے معجزے تخلیق کرتے ہیں۔
دنیا سے انصاف کی امید نہ رکھو، کیونکہ میں نے زندگی گزاری ہے اور دیکھا ہے کہ دنیا کس طرح ہمارے درد کے سامنے خاموش رہتی ہے۔ انصاف کی امید نہ رکھیں بلکہ انصاف کریں۔ فلسطین کا خواب اپنے دلوں میں اٹھائے اور ہر زخم کو ہتھیار اور ہر آنسو کو امید کا ذریعہ بنالے۔
یہ میری وصیت اور وصیت ہے: اپنے ہتھیار نہ پھینکو، پتھر نہ پھینکو، اپنے شہیدوں کو مت بھولو، اور اس خواب پر سمجھوتہ نہ کرو جو تمہارا حق ہے۔
ہم یہاں رہنے کے لیے ہیں، اپنی زمین میں، اپنے دلوں میں، اور اپنے بچوں کے مستقبل میں۔
میں تمہیں فلسطین کے حوالے کرتا ہوں، وہ سرزمین جسے میں موت سے پیار کرتا تھا، اور وہ خواب جو میں نے اپنے کندھوں پر ایک نہ جھکنے والے پہاڑ کی طرح اٹھا رکھا تھا۔
اگر میں گروں تو میرے ساتھ مت گرنا، بلکہ میرے لیے ایک جھنڈا لے کر جانا جو کبھی نہیں گرا، اور میرے خون کو ایک ایسی نسل کے لیے پل بنا دینا جو ہماری راکھ سے پیدا ہوئی ہے۔
یہ نہ بھولیں کہ وطن سنانے کے لیے کہانی نہیں ہے، بلکہ ایک حقیقت ہے جسے زندہ کیا جائے، اور ہر شہید میں اس سرزمین کی کوکھ سے ایک ہزار مزاحمتی جنم لیتے ہیں۔
اگر سیلاب لوٹ آئے اور میں تمہارے درمیان نہ ہوں تو جان لو کہ میں آزادی کی لہروں میں پہلا قطرہ تھا اور میں تمہیں سفر مکمل ہوتے دیکھ کر زندہ تھا۔