
کربلا اور انقلاب اسلامی کے درمیان گہرا اور مستحکم رابطہ ہے، آیت اللہ عباس رئیسی
شیعہ نیوز: قم المقدسہ میں ایک عظیم الشان سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے استاد حوزہ آیت اللہ شیخ غلام عباس رئیسی نے کہا کہ قرآن تعلیماتِ الہٰی کا مجموعہ ہے، جبکہ سنت، تعلیماتِ نبویؐ کا مجموعہ ہے؛ یہ دونوں ایک ساتھ مل کر اسلام کا پورا نظریہ اور زندگی کا وہ نظام پیش کرتے ہیں جس کی پیروی ہر مسلمان پر ضروری ہے۔
انہوں نے امام خمینیؒ کے وصیت نامے میں سنت کے بجائے عترت کے استعمال کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ عترت وہ مقدس ہستیاں ہیں، جن سے سنت پیغمبر (ص) کی صحیح اور یقینی تعلیمات حاصل ہوتی ہیں۔ لہٰذا عترت اور سنت کے مابین کوئی تضاد نہیں، بلکہ عترت سنت تک پہنچنے کا مطمئن اور محفوظ راستہ ہے۔
آیت اللہ غلام عباس رئیسی نے امام خمینیؒ کے وصیت نامے کے مندرجات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امامؒ کے مطابق، قرآن و عترت پر اتنا ظلم ہوا ہے کہ قلم لکھنے سے قاصر ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ایران نے امریکہ و اسرائیل کا دفاعی نظام بے نقاب کردیا، امریکی تھنک ٹینک
انہوں نے قرآن پر ظلم کی ایک بڑی مثال حدیث کی کتابت پر عائد پابندی کو قرار دیا، جس کی وجہ سے امت ِ پیغمبر، قرآن کی نبوی تفسیر اور تشریح سے محروم رہی۔
آیت اللہ غلام عباس رئیسی نے امام حسینؑ کی عظیم قربانی کو ایک اہم تاریخی تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ بنی امیہ نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو نظر انداز کر کے جاہلیت کے دور کو دوبارہ زندہ کیا اور یزیدیت کے فلسفے کو مسلط کرنے کی کوشش کی، جس کے خلاف امام حسینؑ نے کربلا میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔
انہوں نے قرآن و عترت کو ایک ناقابلِ تفریق نظام قرار دیا اور کہا کہ امام حسینؑ کے سر اقدس کی نوک نیزہ پر قرآن کی تلاوت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر عترت کا سر نوک نیزہ پر بلند ہوا تو قرآن بھی اس کے ساتھ نوکِ سناں پر ہے۔
امام سجادؑ کے کلمات کے حوالے سے بیان کیا کہ خداوند عالم نے اہل بیت کے دشمن کو احمق خلق کیا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اہل بیتؑ کو گرفتار کر کے امت کو یہ غلط پیغام دینا چاہتا تھا کہ یزید کے مقابلے میں آنے والا آلِ رسولؐ ہو تو بھی نہیں بخشا جائے گا۔ عام امتی کی تو بات ہی نہ کریں، مگر اہل بیتؑ نے اپنی حکمت اور صبر سے کوفہ و شام کے درباروں اور بازاروں کو فتح کر کے یزید کی حماقت کو دنیا کے سامنے واضح کر دیا۔
آیت اللہ غلام عباس رئیسی نے انقلاب اسلامی ایران پر کربلا اور تحریکِ امام حسینؑ کے گہرے اثرات کو اجاگر کیا اور کہا کہ انقلاب کی کامیابی کی بنیادی وجہ امام حسینؑ کی عزاداری ہے۔ امام خمینیؒ نے عاشوراء کو انقلاب کی روح اور مقصد قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ کربلا اور انقلابِ اسلامی کے درمیان گہرا اور مستحکم رابطہ ہے جس نے انقلاب کو نہ صرف کامیاب کیا، بلکہ ہر طرح کے سخت حالات میں بھی استقامت بخشا۔ 46 سال کے بعد بھی انقلاب کی کامیابی اور رہبرِ انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی ثابت قدمی کی اصل وجہ یہی عزاداری اور تحریکِ عاشوراء ہے، جس کی بدولت رہبرِ انقلاب دشمن کے سامنے بغیر خوف اور ہچکچاہٹ کے کھڑے ہیں اور ان کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے۔